مغرب،ٹرمپ اور ایمان کو کفر کا تڑکا

آپ مغرب کے انسانی اقدار کے تصور پر تاریخی اور فلسفیانہ سطح پر جتنی چاہیں تنقید کر لیں، سامنے کی حقیقت مگر یہ ہے کہ مغرب نے ان کو جس طرح سے رائج کیا اور لوگوں کے شعور ولا شعور کا حصہ بنایا ہے، اور ان کے جو مظاہر ہمیں مغرب میں نظر آتے ہیں ، وہ قابلِ داد بھی ہیں اور مغرب کی زندگی اور ترقی و قوت کا راز بھی۔ ٹرمپ کے متعصبانہ اور مجنونانہ اقدام پر مغرب کے طول عرض میں 7 مسلمان ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے خلاف جو احتجاج ہوا وہ واضح کر رہا ہے کہ مغرب کو شکست دینا اتنا آسان نہیں، بہ طور خاص ان مسلمانوں کے لیے، جو امت کا غم کھا کھا کے تو بوڑھے ہو ئے جاتے ہیں، مگر اپنے ملکوں میں بھی ٹرمپ کے مذکورہ اقدام پر وہ احتجاج نہیں کر سکے، جو خود ٹرمپ کے اپنے ملک اور مغرب کے دیگرملکوں کے کافروں نے کر دکھایا۔
یہ مسلمان ایسا احتجاج کر بھی کیسے سکتے ہیں کہ انھوں نے تو اپنے مسلمان "بھائیوں" کے لیے جو پابندیاں لگا رکھی ہیں، وہ مغرب نے دہشت گردی کے تمام تر خطرات کے باوجود ابھی تک نہیں لگائیں، وہاں چند دن پہلے ان "ظلال اللہ فی الارض" مسلمان حکمرانوں کی قبیل کا ایک حکمران سامنے آیا اور اس نے دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہونے کے باوجود جب ایسی پابندی لگائی تو سارا مغرب اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا، یہ دیکھے بغیر کہ پابندیاں کافرملکوں پر لگی ہیں یا مسلمان ملکوں پر۔ نوبت باایں جا رسید کے اس کے اپنے ملک کی عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا، وہ ہرفلی میں (بھاگا بھاگا) اپیلٹ کورٹ میں گیا تو اس نے بھی جھنڈی کرا دی ۔ کیا انسانیت کے اس پاس و لحاظ کو بھی ہم سازشی تھیوری ہی کی نظر سے دیکھیں گے؟ واللہ اقدار وانسانیت کا یہ تصوراگر محض کسی کافر کا دیا ہوا ہی ہے اور کفر ہی پر مبنی ہے تو "اہل ِ ایمان " کو اس کفر کا تڑکا اپنے "ایمان" کو ضرور لگانا چاہیے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply