فلمیں – دلوں کا میدان جنگ

اذہان کیلئے لڑی جانے والی جنگ بلا شبہ میدان جنگ میں زمین کیلئے لڑی جانے والی جنگ سے کہیں زیادہ بنیادی، اہم، اور فیصلہ کن ہوا کرتی ہے.اگر ہم اپنی فلموں، ثقافت ، فنکاروں ، موسیقی اور صحافت سے دشمن آبادی کو اتنا متاثر کر لیں کہ وہ ہم سے ہمدردی رکھ کر ہماری زبان بولنے لگے تو دشمن کی فوجیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں.فلم ایک ایسی صنف ہے جو بہت سے فنون لطیفہ کے امتزاج سے وجود پاتی ہے ، اسی لئے اپنے اندر اثر پذیر ہونے کا سب سے زیادہ مادہ رکھتی ہے…. لیکن صد افسوس یہ وہ میدان ہے جس میں ہم اپنے روایتی حریفوں سے پچھڑے ہوئے ہیں …
ہر قسم کے تخلیقی اذہان کےمیسر ہوتے یہ امر ناقابل فہم ہے کہ ہم کیوں مسلسل بول (٢٠١١)، دختر(٢٠١٤) اور اس سے بہتر کاوشیں نہیں کر پا رہے اور مالک (٢٠١٦) اور وار(٢٠١٣) جیسی تکنیکی کمزوریوں سے مزین چیزیں وافر بجٹ کے باوجود عالمی مارکٹ میں سر نیچا کروا رہی ہیں…اپنے ہوائی گھوڑوں سے نیچے اتر کر شعیب منصور، شرمین عبید چنوئے اور ان جیسے دوسرے واقعی عبقری اذہان کو استمال کر کے کچھ نہ کچھ کمال کی شے پاکستان سے ہر برس آنی ہی چاہئے جو سب کو چونکا کر رکھ دے…
اسوقت حال یہ ہے کہ عامر لیاقت اور بول جیسا شرمناک تماشا اسٹبلشمنٹ کا ترجمان ہونے کا دعوی کر رہا ہے …اگر یہ واقعی سچ ہے تو جو احمق افسران اس کے پیچھے ہیں انہیں سلام ہے…..کوئی ایک بھی ارنب گوسوامی جیسا جوابی بیانیہ تخلیق کرنے والا تم سے پیدا نہیں ہو پا رہا تو تم لوگ کر کیا رہے ہو؟
اگر ایران اسلامی انقلاب ، حجاب اور تمام تر شرعی پابندیوں کے باوجود آسکر تک جانے والی فلمیں ہر سال دے رہا ہے تو شرم کی بات ہے کہ ہم لوگ ہر قسم کی ماڈرن تهذیب، موسیقی، ہر فیشن کے ہوتے ہوئے آسکر کو تو چھوڑو، بالی ووڈ تک کو ٹکر نہ دے پائیں…..ہماری فلمیں تووہ ہونی چاہیئں جو ایک عام بھارتی کے ذہن کو موڑ کرہمارا automatonبنا ڈالیں….وہ نہ بھی ہو سکے تو کم سے کم اپنی یوتھ کے اذہان کو شدت پسندی سے تو روک سکیں…یہاں ہم لوگ ان کی فلمیں دکھانے پر مجبور ہیں . اچھی فلم بنانے کیلئے اسلام کی تباہی لازم نہیں آ جاتی ورنہ ایران کبھی اس میں کامیاب نہ ہوپاتا!

Facebook Comments

ثاقب چوہدری
ثاقب چوہدری سعودی جامعہ میں عشرہ بھر تدریس کے بعد اب کینیڈا میں ایک لیموزین فلیٹ ، تدریس ، اور متعدد موضوعات پر خامہ فرسائی میں خود کو مصروف رکھتے ہیں......

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply