یہ بے چینی کیوں؟

ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی دن ہیں۔ امریکہ کے اندر لاکھوں کے اجتماعات بے شک ٹرمپ کی مخالفت میں ہو رہے ہیں۔ اور مہذب معاشروں میں احتجاج مخالفت کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔اس احتجاج میں مشہور گلوکار، اداکار، اساتذہ، ڈاکٹر ، انجینئرز، اقلیتی راہنما تک شامل ہیں۔ کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ اگر ان کا احتجاج ناکام بھی ہوا اور ٹرمپ کی صدارت کا سفر جاری رہا(جو کہ موجودہ حالات میں یقیناًکہا جا سکتا ہے)تو انہیں انتقامی کارروائیاں نہیں سہنا پڑیں گی جیسے ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ پاکستان میں جب کوئی احتجاج ناکام ہوتا ہے تو اس احتجاج میں شامل افراد کی لسٹیں تیار ہوتی ہیں۔ پھر انہیں چن چن کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جو سرکاری ملازمین اس احتجاج کا حصہ بن جائیں ان کے تبادلہ علاقے سے دور بطور سزا کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ امریکہ میں ایسا کوئی خطرہ لوگوں کو نہیں ہے اس لیے ہر طبقہ ء فکر کے لوگ اس احتجا ج میں شامل ہیں۔ اور جس طرح کا احتجاج ہو رہا ہے یہ امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے کم و بیش امریکہ کے تمام بڑے شہروں سے مناظر براہ راست پیش کیے تو ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا کہ لاکھوں کی تعداد میں افراد سڑکوں پہ ہیں مگر مجال ہے کہ بد نظمی ہو۔ اس کے علاوہ ایک اور حیران کن منظر یہ بھی تھا کہ سابق صدر باراک اوباما چپکے سے کیلیفورنیا منتقل ہو گئے اور کسی بھی جگہ احتجاجیوں کا جوش نہیں بڑھایا جو ہمارے ہاں کا خاصہ ہے۔
لیکن سب سے زیادہ حیرانگی اس نظریے پر ہے کہ ٹرمپ سے اوباما بہتر تھے۔ حیرت ہے کہ جس اوباما نے اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں گوانتاناموبے کو بند کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا وہ بہتر کس طرح سے تھا۔ جس اوباما نے آخری صدارتی احکامات میں سے دو بڑی کارروائیوں کا حکم دیا جس سے شام اور لیبیا میں دو سو سے زائد افراد لقمہ ء اجل بن گئے وہ کس طرح ٹرمپ سے بہتر تھا۔ ٹرمپ کی صدارت کا دور کیسا ہو گا کہنا قبل از وقت ہے مگر اس کی تقریر میں ایسا کیا برا تھا جو اُس نے کہا کہ چنگاریاں بھڑک اُٹھیں۔ اوباما نے غیر اعلانیہ طور پر پوری دنیا میں مسلمانوں کو کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، چاہے فلسطین ہو ، شام ہو،مشرق وسطیٰ بطور مجموعی ہو، افغانستان ہو ، لیبیا ہو، افریقی ممالک ہوں، یا پاکستان تو پھر ٹرمپ نے اعلانیہ طور پر ایسا کہہ کر کون سا ایسا جرم کر دیا جو اوباما نے نہیں کیا تھا۔ پورا یورپ ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک ہر شدت پسندی کے تانے بانے مسلمانوں سے جوڑ تے رہے ہیں اور جوڑ رہے ہیں تو پھر صرف ٹرمپ کس طرح سے پوری دنیا کے لیے خطرہ بن گیا۔
عالمی اقتصادی نظام غریب اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے تو پھر تنقید صرف ٹرمپ پر ہی کیوں۔ ہمارے سابق صدر نے بھی تو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا پھر سب سے پہلے امریکہ کے نعرے پہ تنقید اور نسل پرستی کے طعنے کیوں۔ ٹرمپ کی اقلیتوں کے حقوق کچلنے کی پالیسیوں پہ تنقید سے پہلے کیا ہم نے پہلے اپنے گریباں میں بھی جھانکا ہے کہ ہم خود اقلیتوں کو کتنے حقوق دے رکھے ہیں۔ ہم ٹرمپ کو نہ جانے کس بنیاد پہ اوباما سے برا صدر قرار دے رہے ہیں کہ جو اختیار ہونے کے باوجود صدارت کے آخری دنوں میں عافیہ کے حوالے سے مخمصے کا شکار رہا ۔ وہ اوباما کس طرح ٹرمپ سے بہتر قرار پا رہا ہے جس نے پوری دنیا میں مسلح کارروائیوں میں کسی بھی صورت کمی نہیں کی۔ بلکہ شام میں ایک عالمی مخاصمت کو ہوا دی۔
ٹرمپ اگر روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی راہ پہ گامزن ہونا چاہتے ہیں تو یہ کس طرح ان کی بری کاکردگی شمار ہو گی سمجھ سے بالاتر ہے۔ پوری دنیا اپنے ہاں انتخابی نعروں و الزامات کو الیکشن کی گہما گہمی قرار دیتی ہے مگر نہ جانے کیوں ٹرمپ کے بیانات مستقل اس کے ساتھ جوڑے جا رہے ہیں۔ اس نے سب سے پہلے امریکہ کے نعرے کی وجہ سے ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ جتنے لوگ اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں تو اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں لوگوں نے اس کو ووٹ بھی دیا ہے۔ تو کیا وہ سب کے سب پاگل تھے؟ آخر ہم کیوں اتنے بے چین ہو رہے ہیں کہ وہ میکسیکو کے بارڈر کے ساتھ دیوار لگائے یا باڑ۔ کسی بھی ملک میں کوئی غیر قانونی طریقے سے داخل ہو تو کیا اُسے برداشت کیا جائے گا؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر تنقید ٹرمپ پر کیوں؟ہم نہ جانے اتنا واویلا کیوں کر رہے ہیں۔ کیا ٹرمپ کی پارٹی کے لوگ پاگل تھے جنہوں نے اس کو نامزد کیا یا کیا وہ سب دھوکہ تھا کہ اُس نے پہلے اپنی پارٹی کے امیداروں کو نامزدگی میں شکست دی اور پھر مقبول ترین اور تمام جائزوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھتی ہیلری کو شکست دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انتخابات جیتنے پہ شاید ایک مباحثے میں کہا تھا کہ جتنا دنیا ٹرمپ کو براخیال کر رہی ہے ہو سکتا ہے وہ باقی صدور سے اتنا ہی بہتر ہو۔ ہو سکتا ہے کہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان معاملات درست سمت میں جانے کی وجہ سے دنیا میں امن کی نوید آ پائے۔ ٹرمپ کو منتخب ہم نے تو نہیں کیا امریکیوں نے کیا ہے۔ تو کیا ہم باقی دنیا میں جمہوریت کے دعوے کرنے کے بعد امریکی عوام کی رائے کا بھی احترام کرنے سے گریزاں ہیں؟ دوغلا پن کسی بھی حوالے سے ہو نقصان دہ ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے خیالات، افکار، سوچ، باتیں بلا شبہ شدت پسندانہ سوچ کی عکاس ہیں۔ مگر کیا ضروری ہے وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی ایسا ہی رہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ باقی دنیا میں مداخلت صرف ایک عالمی طاقت کے طور پر کرئے ۔ اور پوری دنیا میں امریکہ کے بطور ٹھیکیدار کردار کو ختم کرنے کی طرف بھی توجہ دے۔ ٹرمپ کو تھوڑا وقت دیجیے۔ اندازے بے شک لگائیے۔ مگر نتائج اخذ نہ کریں۔ ٹرمپ کی شہرت شدت پسندانہ شخصیت کے طور پر ہے۔ وہ اپنے تندو تیز بیانات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ مستقبل قریب میں ہو سکتا ہے ان کی یہی خامی ان کے بروقت اور بہتر فیصلہ کرنے کی خوبی کی صورت میں ابھرے؟ اپنی بے چینی کو کچھ لگامیں ڈالیے۔ صبر کیجیے ۔ کیو ں کہ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply