قوم کا نجات دہندہ/ادریس آزاد

وہ اِیلیٹ بن کر نہیں رہتا۔لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اُن سے دُور ہے۔وہ ایسا نہیں ہے کہ اس تک رسائی کے لیے ہمیں بہت زیادہ محنت کرنی پڑے۔بلکہ وہ آسانی سے دستیاب ہے۔ وہ اُن کے درمیان ہے۔ اُن کے آس پاس ہے۔ ان کے میسج کی رینج میں ہے۔ اُن کی کال کی رینج میں ہے۔ اُن کے درمیان اُٹھتا بیٹھاہے۔ اُن کے درمیان سوتا جاگتاہے۔ اُن کے درمیان کھاتا پیتا اور اُن کے درمیان ورزش کرتاہے۔ وہ ان کے سوالوں کے جواب دیتا، اُن سے فون کالوں پر بات کرتا اور اُن کی بات سنتاہے۔ یقیناً اسی لیے اللہ نے لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی ہے۔

اس کی تقریر میں سیاست کم اور فکروفلسفہ زیادہ ہوتاہے۔ وہ انسان اور جانورکے فرق پر بات کرتاہے۔ وہ مذہب کے تعقلی پہلوؤں کو اُجاگرکرتااور آیات و احادیث سے انصاف اور انسانیت کی عظمت پر روشنی ڈالتاہے۔اس کی گفتگو میں اجتماعی فکر اتنی زیادہ جھلکتی ہے کہ بعض مواقع پر تو سامع کو یہ بھول جاتاہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر ہے۔

وہ استغنأ کے بلند ترین مقام پر فائز ہے۔اُس نے جوانی میں ہی اتنی عزت،شہرت،دولت، قوت اور کامیابیاں دیکھی ہیں کہ اب اسے دنیا کی یہ تمام چیزیں حقیر معلوم ہوتی ہیں۔وہ کسی قلندر کی طرح کہتاہے، ’’بند کمروں میں مجھے کوئی کیا دے سکتاہے؟‘‘۔ اور اس حقیقت کی صداقت سے اس کے دشمن بھی واقف ہیں کہ اُسے بند کمروں میں کوئی کچھ نہیں دے سکتا۔ کیونکہ دینے کی ہر چیز اُس کے قدموں میں ہمہ وقت نچھاور رہتی ہے۔ اربوں روپے ہوں یا ہرہرقدم پر ملنے والا احساسِ سُرخروئی، دنیا کے مراتب و مقامات ہوں یا ظاہری حسن اور صحت۔ وہ ہر طرح کی دولت سے مالامال ہے۔ اور اس لیے اس میں بلا کی خود اعتمادی اور قلندروں جیسا استغنأ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔

وہ اپنے ایک ایک ساتھی کو قیمتی سمجھتا ہے۔اُسے اپنی جان کی ذرا پروا نہیں لیکن اپنے ساتھیوں کی جان کی پروا میں ، جیتی ہوئی جنگیں بھی ہار جاتا ہے لیکن اُنہیں قربان نہیں کرتا۔اس کی پسپائی میں بھی خیر ہے اور پیش قدمی میں بھی۔اس کی جسمانی صحت جوانوں سے بڑھ کر بہتر ہے، اور اس لیے اس کی ذہنی صحت بھی قابلِ رشک ہے۔ وہ نہایت مستعدی اور دانائی سے فیصلے کرتا اور پھر اُن پر ڈٹ جاتاہے۔ اُس کی حکمتِ عملی سے اس کے مخالفین کی رُوحیں کانپ جاتی ہیں کہ وہ منصوبہ بندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اسے قدرت نے احباب بھی ایسے عطا کیے ہیں کہ جن میں سے ہرایک جوان،حسین، قابلِ رشک صحت اور قابلِ رشک صلاحیتوں کا مالک ہے۔اورجب اس کا باکمال اور مستعد ذہن اپنے احباب کی مشاورت کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتاہے تو پھر اُس بلندی تک کوئی کہنہ مغز کبھی بھی نہیں پہنچ پاتا۔

اور اب وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر نکلاہے۔سیاست میں کبھی کوئی کھلاڑی اپنے سارے مہرے ایک ساتھ داؤ پر نہیں لگاتا، لیکن اُس نے لگادیے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ سیاست نہیں کررہا، عبادت کررہاہے۔ وہ جانتاہے کہ وہ تاریخ بنا رہاہے۔ اسے اپنی ذات کے لیے کسی برتر مستقبل کی تمنا نہیں۔ اس کا حال ہی سب سے حسین ہے۔ اُسے اِس سے بڑھ کر حسین، کسی مستقبل کی کوئی حسرت نہیں۔ وہ اپنے حسین حال کو ہی بھرپور طریقے سے جینا چاہتاہے اور اپنے حال سے ہی پوری قوم کا حال بھی تبدیل کردیناچاہتاہے۔ وہ نکلاہے اور اس عزم کے ساتھ کہ اپنی قوم کے فردفرد کے لیے شخصی آزادی کا پروانہ حاصل کرسکے۔ وہ نکلاہے، جبر کے نظام کے خلاف، جو عشروں سے اس کی قوم پر مسلط ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مبارک ہو اُس قوم کو کہ جس کا وہ لیڈر ہے۔ مبارک ہو اُن کو کہ جو یہ جانتے کہ وہ اُن کا محسن ہے۔جو یہ جانتے ہیں کہ اس نے قوم کو شعوردیا۔تربیت دی۔اور یہ احساس دلایا کہ وہ اُنہیں تین سوسالہ غلامی سے نجات دلانے آیا ہے۔اُنہیں احساس دلانے آیا ہے کہ وہ جانور نہیں ہیں، انسان ہیں۔ وہ جینے کا حق رکھتے ہیں۔آزادی سے اپنی بات کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ مساوات کے اصولوں پر انصاف کے حصول کا حق رکھتے ہیں۔اُن کا وطن اُن کا اپنا ہے۔ اُن کی مٹی اُنہی کے لیے اناج اُگاتی ہے۔اُن کی عزت اُن کے اپنےبازوؤں کی مچھلیوں کی بدولت ہے۔ اُن میں کوئی کمی نہیں۔ اُن میں کوئی معذوری اور مجبوری نہیں۔ وہ آزاد ہیں۔ وہ خودمختار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply