ارشد شریف سے معافی /اظہر سید

اینکر ارشد شریف کے قتل پر ہم نے ایک سخت کالم لکھا تھا اور بہت نامناسب الفاظ استعمال کئے تھے جس پر ہم شرمندہ ہیں ۔ہمیں ایک مرنے والے نوجوان صحافی کے متعلق ایسا نہیں لکھنا چاہیے تھا ۔اس نوجوان کو ورغلایا گیا ۔استعمال کیا گیا اور پھر استعمال کر کے راستے سے ہٹا دیا گیا ۔ساری زندگی اس شعبہ میں گزارنے کے بعد ہماری سوچی سمجھی رائے ہے صحافت بہت گندی فیلڈ ہے ۔یہاں دامن بچا کر چلنا بہت مشکل ہے ۔کانٹوں بھرے اس شعبہ میں بہت کم بچ پاتے ہیں ۔بیشتر سیاسی جماعتوں ،اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی گروپوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہاں بے پناہ دولت اور مراعات ہیں۔ہنر مند مادی طور پر بہت آگے چلے جاتے ہیں اور اپنے پروفیشن سے مخلص خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ارشد شریف ایسے بہت سارے انتہائی ذہین صحافی اس جبر کا شکار ہو گئے جو کسی پودے کو تناور درخت نہیں بننے دیتا اور اسے توڑ کر گملے میں اُگا لیتا ہے ۔

ہمیں نہیں پتہ ارشد شریف کو کس گروپ نے مارا ہے لیکن جس راہ پر اسے لایا گیا، لانے والے بھی اسکی موت میں برابر کے شریک ہیں ۔

ارشد شریف محب وطن تھا اور فوج کا پروردہ تھا ۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفننگ یہ اعتراف تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو اس قوم پر مسلط کر کے غلطی کی اور اب اس غلطی کا خمیازہ صرف اسٹیبلشمنٹ نہیں پوری قوم بھگت رہی ہے ۔

جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کا جو بازار عمران خان کو مسلط کرنے کیلئے سجایا گیا نوجوان نسل اس کا شکار ہو گئی ہے ۔سائبر سیلوں کے  ذریعے جو ففتھ جنریشن وار لڑی گئی اس نے ایسے لشکر پیدا کر دیے ہیں جو کسی بھی سچائی سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ یہ نوجوان ،عورتیں اور بوڑھے ایک فرقہ کی شکل اختیار کر گئے ہیں جنہیں عمران خان سے متنفر کرنا ممکن نہیں رہا۔

ففتھ جنریشن وار اور سائبر سیلوں کے ذریعے عوامی رائے عامہ متاثر کرنے کی طاقت یہ ہے کہ دو طاقتور جنرل فوج کی صفائیاں ہی تو دے رہے تھے ۔

ارشد شریف مالکان کا ایسا ہتھیار تھا  جو سانحہ ساہیوال میں مرنے والوں کو دہشت گردی سے جوڑتا رہا ۔خڑ کمر میں مرنے والوں کو کتا مار مہم قرار دیتا رہا ۔بلوچ نوجوانوں کی عسکریت پسندی کی وجوہات پر پروگرام کرنے کی بجائے انہیں دہشت گرد بتاتا رہا ۔کلثوم نواز کی بیماری کا مذاق بناتا تھا اور پارسل میں آنے کے طعنے دیتا تھا ۔ابصار عالم پر حملے کو جعلی اور مطیع اللہ جان کے اغوا کو ڈرامہ قرار دیتا تھا۔ارشد شریف اس ففتھ جنریشن وار کا کمانڈر تھا جو نواز شریف اور آصف علی زرداری کو مقابلے سے باہر کرنے اور عمران خان کو مسلط کرنے کیلئے بنائی گئی۔

پاناما ڈرامہ اور لندن فلیٹ پر ارشد شریف نے پرائم ٹائم میں سو سے زیادہ پروگرام کئے ۔
ہماری تلخی کی بنیادی وجہ یہی ماضی تھا لیکن اب ہم سوچ رہے ہیں گنہگار ارشد شریف نہیں تھا ایےس استعمال کرنے والے تھے جنہوں نے ایک ہونہار اور ذہین جرنلسٹ کو تاریک راہوں کا مسافر بنا دیا ۔

ارشد شریف سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی اور اس نے نہ جانے کیوں بم کو ٹھوکر ماری دی ۔ایک باشعور صحافی اور چینل ہیڈ سے ہم کس طرح توقع کر سکتے ہیں کہ وہ مالکان کے غلطی کے اعتراف اور پیچھے ہٹ جانے کے باوجود صرف اپنے چینل کے مفادات اور ایجنڈہ کو چلاتا رہے ۔

ارشد شریف نے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈہ پر چلنے کی راہ اختیار کی اس پر صرف تنقید کی جا سکتی ہے کیونکہ بیشتر اینکرز نے یہی راہ اختیار کر رکھی تھی ۔فوج کی حب الوطنی پر سوال نہیں کیا جا سکتا اس لئے ارشد شریف کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھتا ۔غلطی وہاں ہوئی جب یہ نوجوان صحافی “وہ کون تھا”نامی آرمی چیف مخالف مہم کا حصہ بن گیا۔

جاننے والے جانتے ہیں اور خود ارشد شریف بھی جانتا تھا کہ امریکی سازش اور امپورٹڈ حکومت نامنظور محض ایک پراپیگنڈہ تھا ۔عمران خان کو آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا گیا اور عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنا کھلی بدمعاشی تھی ۔

جب آپ مالکان کی وجہ سے عزت ،دولت اور شہرت کی معراج پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر باغی بننے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ۔جس حب الوطنی کے تحت آپ نے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کی تکمیل کی اسی حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ اب آپ بھی مالکوں کی طرح اپنی غلطی تسلیم کر لیں ۔یہ نعرہ لگانا کہ ہمیں استعمال کیا گیا کوئی بہتر جواز نہیں ۔آپ اگر استعمال ہوئے تو آپ نے فائدے بھی حاصل کئے۔

بہرحال جو بھی ہُوا ارشد شریف کی المناک موت میں صحافیوں کیلئے ایک سبق چھپا ہوا ہے کہ صرف صحافت کریں اور کسی گروپ کا حصہ نہ بنیں ۔افسران انسان ہیں ۔ان سے غلطیاں ہوتی ہیں اور انکے پاس غلطیاں درست کرنے کے جواز اور مواقع دونوں موجود ہوتے ہیں ۔ایک صحافی کیلئے مشکل ہوتا ہے وہ اپنے سابقہ موقف سے نوے ڈگری کا یوٹرن لے ۔جب بطور صحافی آپ ریاست ،عوام اور معاشرے کیلئے کام کرتے ہیں تو پھر آپ فوج یا کسی جماعت کے ترجمان نہیں ہوتے اور آپ کو کوئی خوف بھی نہیں ہوتا ۔آپ پر ظلم ہو تو آپ ہیرو ہوتے ہیں۔بہرحال ارشد شریف بھی اپنے ماضی کے باوجود ہیرو بن گیا ہے لیکن ہیرو بننے کیلئے اسے اپنی جان دینا پڑی ہے ۔

ارشد شریف کسی ایجنڈہ کی تکمیل کا حصہ نہ ہوتا تو وہ آج زندہ ہوتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بعض دروازوں میں آپ اندر داخل ہو سکتے ہیں اور طاقتور کلب کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن واپسی کا دروازہ موجود نہیں ہوتا اور یہاں سے نکلنے کیلئے صرف زندگی دینا پڑتی ہے ۔بہرحال ارشد شریف پر لکھے گئے اپنے سابقہ کالم پر ہم شرمندہ ہیں اور اس نوجوان کی روح سے معافی مانگتے ہیں۔اللہ اس کے درجات بلند کرے اور اس کے بچوں کو ہر مشکل سے بچائے ۔آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply