لچکدار دماغ (8) ۔ انعام/وہاراامباکر

سن 1994 میں ڈارسی کی عمر 41 برس تھی جب انہوں نے اپنے دائیں بازو میں عجیب سے تکلیف محسوس کی۔ ان کو پارکنسن تشخیص ہوا۔ پارکنسن میں دماغ کے اس حصے کے نیورون مرنے لگتے ہیں جو آپ کے جسم کی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے۔ (کسی کو معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پارکنسن کے مریض اپنے بازو کا ٹانگ کو حرکت دینا چاہتے ہیں لیکن ان کا جسم اس طرح ردِ عمل نہیں دیتا جس طرح وہ چاہتے ہیں۔ ان کی آواز غیرواضح ہونے لگتی ہے۔ توازن نہیں رہتا۔ اعضاء میں تکلیف ہوتی ہے یا سن ہو جاتے ہیں اور رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی طریقہ معلوم نہیں کہ مر جانے والے نیورونز کو واپس زندہ کر سکیں یا پھر جسم کو نئے نیورون پیدا ہونے کا کہہ سکیں۔
جو نیورون مرتے ہیں یہ “ڈوپامین نیورون” ہوتے ہیں۔ اعصابی خلیات کی فیکٹریاں جو ڈوپامین پیدا کرتی ہیں اور پھر اس نیوروٹرانسمٹر کو دوسرے اعصابی خلیات کو سگنل بھیجنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ دماغ کے اس حصے میں ہوتے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی کے بالکل اوپر ہے (brain stem)۔ اور یہاں پر اس حصے میں جو substantia nigra کہلاتا ہے۔ اس کا کام فزیکل ایکشن میں مدد کرنا ہے۔
ڈوپامین نیورون دماغ کے تھوڑے علاقوں میں ہیں لیکن اس جگہ پر یہ کثرت سے موجوع ہوتے ہیں۔ ڈارسی کے علامات دیکھ کر ڈاکٹر نے انہیں جو دوا تجویز کی، یہ دماغ میں ڈوپامین کی سطح بڑھانے جیسا عمل کرتی ہے۔ ڈارسی کی حالت سنبھل گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے چند سالون میں ان کی زندگی میں بہتری آئی۔ لیکن ان کا لائف سٹائل بدلنے لگا۔ انہیں مصوری کا شوق انہیں رہا تھا لیکن یہ ایک لازمی ضرورت بن گئی۔ صبح سے شام تک اس میں جٹی رہتیں۔ اب وہ اس لئے نہیں کر رہی تھیں کہ اس سے سکون ملتا تھا بلکہ یہ ضرورت تھی۔ ویسے ہی جیسے نشئی کے لئے نشہ اس کی “ضرورت” بن جاتی ہے۔ انہوں نے کینوس رنگے، دیواروں پر تصاویر بنائیں۔ فرنیچر پر۔ اور یہاں تک کہ اپنی واشنگ مشین پر بھی۔ یہ ایک نہ رکنے والا جنون بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرٹ وونگٹ لکھتے ہیں کہ انسانوں کو چیلنج ایجاد کرنے کا شوق ہے اور پھر ایسے طریقے ایجاد کرنے کا، جن سے انہیں حل کیا جا سکے۔ “ہم چاہتے ہیں کہ پہاڑ سے چھلانگ لگائیں اور راستے میں اپنے پر اگا لیں”۔ ڈارسی کے لئے مصوری ان کے اظہار کے چیلنج کا حل رہی تھی لیکن ڈوپامین تھراپی نے ہماری قدری خواش کو ناقابلِ مزاحمت جنون میں بدل دیا تھا۔
کیسے؟ ڈوپامین کا ایک کام حرکت کو شروع کرنے میں ہے لیکن ایک اور دوسرا کلیدی کردار بھی ہے۔ ہمارے دماغ میں بہت متنوع سٹرکچر کے گروپ ہیں جو پیچیدہ طریقے سے ملکر کام کرتے ہیں جسے دماغ کا انعامی سسٹم کہتے ہیں۔
ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ ڈوپامین تھراپی کو پریسائز جگہ پر دیا جائے اور یہ صرف کسی خاص سٹرکچر تک محدود رہے۔ اس لئے ڈارسی کی دوا نے نہ صرف substantia nigra کا کام بہتر کیا تھا بلکہ دماغ کے ایسے حصوں کو سپرچارج کر دیا تھا جو ڈوپامین پر منحصر ہیں اور ان میں انعامی سٹم بھی ہے۔ اور یہ ان کے جنون کی وجہ تھی۔
انعامی سسٹم کا کام ہمیں ان چیزوں میں حوصلہ افزائی کرنا ہے جو ہمیں زندہ رکھیں اور نسل آگے بڑھانے میں مدد کریں۔ اس انعامی نظام کے بغیر ہم چاکلیٹ کے مزے، ٹھنڈے پانی کے گھونٹ کی فرحت اور ازدواجی تعلق کی لذت سے بھی لطف اندوز نہ ہوں۔
لیکن اس کا کام صرف یہاں تک ہی نہیں ہے۔ یہ ہمیں سوچنے میں بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے کی گئی مشقت میں بھی۔۔۔
گہری سوچ اور اپنے مقاصد کی لئے کی گئی جدوجہد ہمیں اس لئے پرلطف لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کمپیوٹر کے لئے انفارمیشن پراسسنگ شروع کرنا آسان ہے۔ آپ اسے آن کر دیں تو یہ کام کرنے لگ پڑے گا۔ لیکن انسانوں میں آن کا سوئچ اندرونی ہے۔ یہ ہمارا انعامی نظام ہے جو ہمیں کسی سوچ کا آغاز کرنے یا سوچوں کی زنجیر کو جاری رکھنے پر اکساتا ہے۔ اخبار پڑھنے، پہلیاں بوجھنے، مطالعہ کرنے جیسی چیزوں کیلئے بھی۔ کسی کا کہنا تھا، “میرے لئے زندگی میں اس سے بڑا لطف کوئی اور نہیں کہ ذہن میں ایک خیال آ جائے۔ ایک اچھا آئیڈیا۔ جس وقت یہ میرے ذہن میں پھوٹتا ہے تو یہ اتنا پرسکون اور لذت سے بھرپور ہے”۔ انعامی نظام اس وقت متحرک ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارسی کا انعامی نظام انہیں لچکدار سوچ پر اکساتا تھا جو ان کی مصوری کی تخلیقات تھیں۔ لیکن علاج سے اس کی زیادتی کا مطلب یہ تھا کہ ان کے لئے یہ overdrive میں چلا گیا۔ اور وہ اس سے رک نہ سکتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے ساتھ کیا ہوا۔ چند سالوں میں ڈارسی کی زندگی اتنی بُری ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے ان کی دوا کم کر دی۔ بدقسمتی سے، پارکنسن کی علامات بدتر ہو گئیں۔ ان کی سرجری کر کے مائع نائیٹروجن کی مدد سے دماغ کا ایک خاص ٹشو ختم کیا گیا جسے ڈوپامین کنترول میں رکھتی تھی۔
اس سے ڈارسی کی زندگی بڑی حد تک بحال ہو گئی۔ مصوری کا جنون نارمل پر آ گیا۔
ڈارسی کہتی ہیں۔
“اب بھی میں مصوری کرتی ہوں۔ لیکن اب یہ مجھے لطف دیتی ہے۔ اور میں واشنگ مشین پر کنول کے پھول بھی اب نہیں بناتی”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply