گولڈن ایج (24) ۔ فلکیات کے ماڈل/وہاراامباکر

قرونِ وسطٰی کی آسٹرونومی صرف یونانیوں کے کام کی پڑتال نہیں تھی۔ عظیم آسٹرونومرز میں شام کے البطانی اور مصر کے ابنِ یونس جیسے نام تھے جنہوں نے فلکیات میں بہت precise پیمائشیں کیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سال کی لمبائی، زمین کے جھکاؤ کے زاویے کی پیمائش۔ فکسڈ ستاروں کی جگہوں پر تبدیلی (اب ہم جانتے ہیں کہ اس کی وجہ زمین کے اپنے axis میں ہونے والی معمولی تبدیلی ہے)۔ شمسی apogee ماپے اور ٹھیک کئے گئے۔
کوپرنیکس نے اپنی کتاب میں البطانی کے کام کا کئی جگہوں پر حوالہ دیا ہے۔ کاسمولوجی کے ماڈل میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی زمین کی مرکزیت کے ماڈل کا ترک کئے جانا تھا اور یہاں پر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسا تجویز کرنے والے پہلے شخص کاپرنیکس نہیں تھے۔
سورج کی مرکزیت کا سب سے پہلے ماڈل ہمیں یونان میں تیسری صدی قبلِ مسیح میں ملتا ہے یہ Aristarchus of Saos تھے۔ انہوں نے درست طور پر یہ کہا تھا کہ زمین اپنے محور کے گرد بھی گردش کرتی ہے اور سورج کے گرد مدار مٰٰں بھی۔ ارسٹارکس نے زمین کے سائز کا اندازہ بھی لگایا تھا۔ اور چاند اور سورج سے اس کے فاصلے کا بھی۔ انہوں نے نتیجہ نکالا تھا کہ سورج زمین سے چھ سے سات گنا زیادہ قطر رکھتا ہے اور حجم میں سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ ان کا اوریجنل کام محفوظ نہیں لیکن ان کے خیالات ان کے ہم عصروں کے نقد کے طور پر ہم تک پہنچتے ہیں۔ ارشمیدس کی کتاب کا ایک قابلِ ذکر پیراگراف ہے۔
“زیادہ تر آسٹرونومرز کے برعکس ارسٹارکس سامی ایسے مفروضوں پر لکھ رہے ہیں جس میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ کاسموس کا سائز بہت بڑا ہے۔ اس میں سورج کو ساکن جبکہ زمین کو اس کے گرد دائرے میں گردش میں فرض کیا گیا ہے”۔
ارشمیدس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ارسٹاکس درست تھے۔ ان کا یہ خیال بھی تھا کہ ستارے بہت دور ہیں۔ ہمیں بابل میں ان کے ہم خیال Seleucus ملتے ہیں۔ انہوں نے منطقی ریزننگ کی بنا پر سورج کی مرکزیت کا ماڈل دیا تھا۔
لیکن ایسے ماڈلز کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
بطلیموس کا فلکیاتی ماڈل خاصا پیچیدہ تھا۔ لیکن تمام مشاہدات کی مکمل وضاحت کر دیتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا کی آسٹرونومی میں بھی سورج کی مرکزیت کے ماڈل کو تجویز کیا گیا تھا۔ انڈین سائنس کی دونوں قدآور شخصیات، آریابھٹ اور براہم گپتا نے اس پر غور کیا تھا لیکن بالآخر اسے ترک کر کے زمین کی مرکزیت کا ماڈل اپنا لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب ہم گیارہویں صدی کی طرف آتے ہیں۔ ابن الہیثم نے اپنے “شکوک” کی کتاب لکھ کر بطلیموس کی تسلیم کردہ آسٹرونومی پر شکوک اٹھانا شروع کئے تھے۔
ابن الہیثم کی دلیل تھی کہ بطلیموس کی کاسمولوجی فزیکلی ممکن نہیں ہے۔ سفئیر جو اپنے محور کے گرد گھوم رہا ہو جس کا axis اس کے مرکز میں نہ ہو، مستحکم نہیں بلکہ لڑکھڑاتا رہے گا اور اس کی وضاھت کی ضرورت ہے۔
ابن الہیثم کے پاس گریویٹی کی تھیوری نہیں تھی لیکن ان کا یہ اصرار درست تھا کہ ریاضی کے ماڈل کو فزیکل رئیلیٹی کا عکاس ہونا چاہیے۔
شکوک کی تحریک کا خلاصہ یہ تھا کہ آسٹرونومی میں ایسا کاسمولوجی کا ماڈل تسلیم نہیں کرنا چاہیے جو فزیکلی ممکن نہ ہو۔ “فلکیات کی فزکس اور زمین کی فزکس الگ نہیں”۔ یہ باریک اور بہت گہرا نکتہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلکیات میں ایک اور دلچسپ کردار ابی معشر البلخی ہیں۔ ان کے پیش کردہ ماڈل میں تمام سیارے سورج کے گرد گردش کرتے تھے جبکہ زمین کی ایک الگ حیثیت تھی۔
سورج کی مرکزیت کا ماڈل تجویز کرنے والے آسٹرونومر السجزی تھے۔ البیرونی ان کے کام سے واقف تھے اور انہوں نے اس ماڈل کے مطابق آسٹرولیب بھی بنائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کاپرنیکس سے قبل سورج کی مرکزیت کے ماڈل ریاضیاتی نہیں تھے۔
تھیوریٹیکل آسٹرونومی میں ہونے والی اصل ترقی ابن الہیثم کے کام سے ہوئی ہے جنہوں نے فلکیاتی مکینکس کی بنیاد رکھی۔ اور اس کے بغیر یہ ماڈل نہ بنایا جا سکتا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply