شہ لعب/تحریر-کبیر خان

چند برس اُدھرہی کا تو ذکر ہے  ۔ ہمہ اطراف خُشک سالی برس رہی تھی۔ ایسی کہ بڑے بڑے منحرفین بھی نمازی ٹوپیوں اور تسبیحوں سے لیس ہو کر درگاہوں اور مسجدوں میں اُتر آئے ۔ جو نذر نیاز کوعقیدے کا ضعف گردانتے تھے ، وہ بھی چوراہوں میں دیسی گھی کے چراغوں اور اگر بتیوں کی دھواں دھاری سے ملنگوں پِیروں کو مُلتفت کرنے لگے۔ جدھر دیکھو،عُرس شریف کا سماں دکھائی دے رہا تھا۔ ہمارے پڑوسی تھانیدارصاحب کے باڑے میں جہاں ایک عدد مریل اور سڑیل سا اردلی برآمدگیوں کی دیکھ بھال کرتا تھا، وہاں اب چھ ہٹّے کٹے سپاہیوں کا چاق و چوبند دستہ تھانگ گیری پر مامور تھا۔ پھر بھی پوری نہیں پڑتی تھی۔ پڑتی بھی کیسے؟ صبح ، دوپہر، شام دو دو کالے اور آنڈوُ بکروں کا صدقہ دیا جاتا تھا۔ (پڑوسی ہونے کے ناتے ہمارے ہاں بھی تین وقت بغیر ہڈی کے صدقہ بھیجا جانے لگا۔ چنانچہ کئی ہفتوں تک ہمارا فریج بھی فوطہ خانہ بنا رہا)۔ سیاہ بکروں بکریوں کا قحط پڑا تو چتکبرے جانوروں کے ساتھ ساتھ کالک کا بھی کال پڑگیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے نوبت کالی مُرغیوں تک پہنچ گئی۔ چنانچہ دو دن میں کالی مُرغیاں سونے کے انڈے دینے لگیں ۔ پیسے والے منہ مانگے داموں لا ذبح کرنے لگے۔

ایک رمضانی نے سائیں عین الحق شاہ کا فتویٰ فوٹو کاپی کروا کر راتوں رات پورے علاقہ میں چسپاں کروا دیا کہ سیہ رنگ مُرغی کی عدم دستیابی کی صورت میں ’’ننگ نڑے‘‘کا صدقہ بھی جائز ہے۔ وہ ’’ننگ نڑے‘‘جو منحوس سمجھے جاتے تھے، اُن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ عام قسم کا لیلا پشہ خوار اور غورال سے بڑھ چڑھ گیا۔ دو دن کے اندر اندر سائیں اور رمضانی لاکھوں میں کھیلنے لگے۔

مُنشی صاحب بہادرکی حویلی میں جہاں جائے نماز آرائشی قالین کے طور پر نقش بر دیوارتھی ، وہاں سے بھی اگر بتّی اور لوبان کا دھواں اُٹھنے لگا۔ پیسے والا ایک خدا ترس محلّہ کے مولوی صبغے سمیت دودرجن بچّوں کو مسجد سےاٹھا گھر لے آیا۔ اور ہر ختم شریف کے اختتام پرتلک چاڑی کے حلیم اور حلوے پر دعا ئے بارانِ رحمت کا ورد کروانے لگا۔ لیکن دو دُنبے، آٹھ ننگ نڑے( مرغ کی ایک قسم)اور درجن بھر ایروسول پینٹ کے کین صرف کرنے کے باوجود جمعرات پر جمعرات سوُکھی جانے لگی تو اِس مسجد کے اسٹاف کو اُس درگاہ شریف کے اسٹّف سے بدل دیا گیا۔ رات گئے تلک محلّے کے درو دیوار حق ہوُ کی ضربوں سے کانپتے رہے مگر
مٹی ترسی بوند نہ برسی ، بادل گھِر گھِر آئے بہت

پھرسُننے میں آیا کہ خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعہ بادلوں پر کوئی ایسا کیمیائی مادّہ چھڑکنے کا ٹھیکہ کسی مغربی فرم کو دیا گیا ہے ، جس کے چھڑکا ؤکے ساتھ ہی ابر رحمت برسے ہی برسے۔ جہاز بھی اُڑے، کیمیائی چھڑکاوٗبھی ہوا ، لیکن کچھ نہ برسا۔ اور پھرکئی دنوں کے بعد آدھی رات کو ایک جھُگی سے نابالغ چیخ بلند ہوئی جس نے آسمان میں سوراخ کر دیا۔ اس سوراخ سے رحمت کا پرنالہ گرا ۔ اورچُن چُن کر پست بستیوں کو سیراب کرنے لگا ۔ اور اُس وقت تک سیراب کرتا رہا جب تلک چاروں اور جل تھل نہ ہو گیا۔ اسی بارانِ رحمت میں پُل بہہ گئے ، ریل کی پٹڑیاں الف ننگی ہو کر پرانے چرسیوں کے استخوانی ڈھانچے کا نقشہ پیش کرنے لگیں ۔ سڑکیں راہیں ، پگڈنڈیاں حرف غلط کی طرح مٹ گئیں ۔ پُشتوں کا نام و نشان نہ رہا۔ مویشیوں کی لاشیں گلیوں میں تیرنے لگیں ۔ ٹی وی کیمرے حکّام بالا و والا کو روشنیوں کے دوش پر دُنیا بھر میں سیلاب سے لڑتے بھِڑتے دکھانے لگے۔ اعلیٰ حضرت نفیس شاہ صاحب نے اعلیٰ سرکاری گاڑی کے آئینہ میں دیکھ کر اپنے بال بدست خود بکھیر کر خراب کئے اور پھر ٹی وی کیمرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ :
’’ ہم ا ُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آخری بے گھر گھروالا نہیں ہو گیا۔۔۔۔ جب تک ایک بھینس کے بدلے دو بھینسیں،ایک بچّی بچّے کے بدلے ہر دُکھی کاشتکار کو دو بچیاں بچے نہیں مل گئے۔۔۔۔، ہم چین سے نہیں بیٹھنے والے۔۔۔۔‘‘پھر پارٹی لیڈر نے بلاتوقّف فرمایا۔۔۔ ’’جس کی ایک بیوی سیلاب میں بہہ گئی ، اُس خوش نصیب کو یوٹیلٹی اسٹور سے پارٹی کارڈ دکھانے پر دو پیپر پیک ووہٹیاں نہ ملیں تواُن کے جوتے اور خاکسار کا سر ‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔

پارٹی ہیڈ نے سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذریعہ پورے خطّے کا فضائی جائزہ لیا ۔ اور دوُر پرے پانی سے ایک پہاڑی کو نمودار ہوتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔۔۔’’وہ پہاڑی کہیں اور سے بہہ کر آئی ہے۔۔۔۔؟‘‘پارٹی ہیڈ نے پوچھا۔
’’حضور یہ یہیں کی ہے۔۔۔‘‘نائب نے دست بستہ عرض کیا
’’یہ کیوں نہیں ڈوبی۔۔۔۔؟‘‘ پارٹی ہیڈ نے حیرت سے کہا۔ ہم جماعت سیانوں میں سے ایک نے لپک کرکہا۔۔۔۔ ’’ جناب حکم کریں، آج کے آج ڈبو کر خاکسار شام سے پہلے پہلے رپورٹ پیش خدمت کردے گا ۔۔‘‘
’’میں ۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔‘‘خاکساران صدقے کے بکروں کی طرح قربان ہونے کا ازن مانگنے لگے۔
’’اس پہاڑی کی بلندی اور کُل رقبہ کتنا ہو گا۔۔۔۔؟‘‘پارٹی ہیڈ نے نیوی گیٹر سے پوچھا۔ نیوی گیٹر نے ریڈیو کے ذریعہ کسی اور سے پوچھا۔ اُس نے کسی اور سے تبادلہ شکوک کرکے پہاڑی کا پورا جغرافیہ بیان کر دیا۔ (اب وہ پہاڑی پچھلی چار نسلوں سے پارٹی ہیڈ کی جدّی پشتینی وراثت ہے۔ اور اس کی چوٹی پر ایک عالی شان قصر بھی ہے۔ جس پر نصب تختی پر تاریخ تکمیل قصر ہذا ۱۸۹۸ع درج ہے ۔ نیز اس کا افتتاح مندرجہ سال کی ۲۸ ماگھ کو بدستِ پرداداحضور نواب صاحب بہادر ریاست گھمن گھیریاں شریف ہوا تھا۔ تقریب کے مہمان خصوصی لارڈ ڈیول صاحب بہادر کمشنر ولایت ہذا تھے۔ نواب صاحب بہادر نے کشمنر صاحب بہادر کی خدمت اقدس میں چھ عدد صحرائی جہاز مع عملہ تحفتاً پیش کئے تھے۔ اس تاریخی گواہی کو کوئی چیلنج کر سکا نہ کرپائے گا۔

اسی پہاڑی کے قدموں میں شمال کی اور ایک زرعی فارم بھی ابھرا ہے جو پارٹی ہیڈ کے ایک جانثار کی پُشتینی ملکیت ثابت ہے۔ اس فارم کا رقبہ کچھ ایسا زیادہ تو نہیں ، لیکن چاردیواری سے ایک عدد فوجی چھاؤنی جتنا لگ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس فارم ہاوس کی ایک وڈیو کسی زائر نے فلوٹ کی تھی ، جس میں ایک فورک لفٹ کے ذریعہ ملکی کرنسی کے پیلٹ ایک جگہ سے دوسرے مقام پر منتقل کئے جا رہے تھے۔ ایک پیلٹ میں کتنی دولت ہوئی ہو گی؟ وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن ایک پیلٹ بار امانت اٹھاتے ہوئے چار ٹن گنجائش والے فورک لفٹ کا دھواں ہی نہیں ، چیخیں بھی نکل نکل جاتی تھیں ۔ ایک کلوز اپ سے معلوم ہوتا تھا کہ نوٹ ایک ہزار اور پانچ ہزار مالیت ہی کے تھے۔ (بے جا شورِ داروگیر کے پیش نظروئیرہاوس کے مالک کو گرفتار کرکے بغرض علاج نجی ہسپتال میں ڈال دیا گیا۔ اور جوں ہی بدخواہوں کے منہ بند ہوئے،مالک کو ناصرف رہا کر دیا گیا بلکہ باعزت عہدے پر بحال بھی کر دیا گیا، واللہ عالم۔اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مملکت خداداد میں انصاف کا بول بالا کتنا ہے)

بات اَن کہے پانی کی طرح کہیں کی کہیں بہی جاتی ہے، کہنا یہ تھا کہ جُھگی سے اُٹھنے والی نابالغ چیخوں سے آسمان میں ہونے والے سوراخ سے آبشار کی طرح گرنے والے پانی نے دھرتی کو جل تھل کرکے رکھ دیا۔ جس کا پہلا شکار بھی جھگیاں ہوئیں ۔ منٹوں میں پرِ کاہ کی طرح بہہ گئیں ۔ پھر کچّے گھروندے حرف غلط کی طرح مٹے۔ اس کے بعد ڈھارے اور سرکاری کوارٹر کہیں تحلیل ہو گئے۔ خلقت بے گھر، بےدر ہوگئی۔ تب حکمرانوں نے واویلا مچایا، بیرونی دُنیا اور اندرونی اصحابِ دل نے جیبیں کھولیں ۔ تنبو، دریاں ، کمبل، چادریں ،پولیتھین کے تھان،بالٹیاں ، لوٹے، مگ، جگ، تھالیاں ، دیگچے چولہے ،ٹھوٹھے ٹھیکرے کے علاوہ ٹشوپیپر کے ڈبّے، اور فنائل کی گولیاں وغیرہ بھی خانماں بربادوں کے لئے بھیجے۔ ہماری بستی کے قریب ریت کے ٹیلوں پر ایک ایک چارپائی کےسائبان تلے کئی کئی افراد کے کُنبے پناہگزین ہو گئے۔ آٹھ دس نفوس پر مبنی بھرا پُرا کنبہ ایک چارپائی کی چھت تلے کیسے رات گذارتا ہوگا؟ ،ربّ جانے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگرچہ سانحہ بہت بڑا تھا لیکن حکمران جماعت کے کارکنان کے حوصلے بھی زیاد تھے۔ اُنہوں نے قریب ہی زیرِ تعمیر ایک چھ منزلہ عمارت پر قبضہ جمایا اور راتوں رات ٹرکوں کے پورے قافلہ پرمحیط امدادی سامان عاریتاً ٹھکانےلگا دیا۔ تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آ سکے۔ یہ پارٹی کارکنان کی دوُر اندیشی ہی تھی کہ وہ امدادی سامان کم از کم تین سال تک بوقت ضرورت بازار میں ضرورت مندوں کے کام آتا رہا اور انتہائی ارزاں نرخوں پر۔ اب بارہ سال کے صبر آزما انتظار کے بعد ایک بار پھر امدادی سامان کھُل کربرسا ہے، کارکنان اب کے بارہ منزلہ عمارت کی تلاش میں ہیں ۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیئے جا کر نظر کہاں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply