جلسوں اور سیلاب میں بٹا پاکستان۔۔نصرت جاوید

اسلام آباد بنیادی طورپر “اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ” کی سوچ سے مفلوج ہوئے افسروں کا شہر ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو، ان لوگوں کی جستجو ریاست پاکستان کے دائمی اور حتمی فیصلہ ساز اداروں کی ترجیحات کا تعین کرنے پر مرکوز رہتی ہے اور گزشتہ دو دنوں سے مذکورہ افراد کی خاطر خواہ تعداد بہت پریشان نظر آرہی ہے۔

سبب ان کی تشویش کا ہمارے ایک بہت ہی باخبر شمار ہوتے ساتھی جناب نجم سیٹھی کی جانب سے حال ہی میں اعلان کردہ پیش گوئی تھی۔ نجم صاحب کی ایک “چڑیا” ہے۔ انگوٹھی میں قید “جن” کی طرح ان کی معاونت کو ہمہ وقت متحرک رہتی ہے۔ محاورتاََ جن اداروں کے قریب کوئی پرندہ پھٹک بھی نہیں سکتا ان کے درپھلانگ کر اندر گھس جاتی ہے اور وہاں ہوئے فیصلوں کا بروقت پتہ چلالیتی ہے۔ اسی “چڑیا” پر تکیہ کرتے ہوئے نجم صاحب نے “خبر” دی ہے کہ عمران خان صاحب کے غضب کو ٹالنے کی خاطر ان کے طیش کی گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل زد میں آئے اداروں کے اہم لوگوں نے ان سے روابط استوار کرلئے ہیں۔ منیر نیازی کے دریافت کئے “جمال ابروباراں” کے موسم میں ہوئی ان ملاقاتوں کے دوران تحریک انصاف کے قائد کو یقین دلادیا گیا ہے کہ وہ جس انتخاب کا تقاضہ کررہے ہیں اگلے مارچ کی کسی تاریخ انہیں فراہم کردیا جائے گا۔

عمران خان صاحب لہٰذا تھوڑی نرمی دکھاتے ہوئے رواں برس ختم ہوجانے کا انتظار کریں۔ اس دوران آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہوئی امدادی رقم کی قسط سے مثبت پیغام لیتے ہوئے چند دیگر برادر اور دوست ممالک بھی ہماری معیشت کو سہارا دینے کی راہ نکال لیں گے۔ نومبر میں اہم ترین ریاستی ادارے کی سربراہی کی بابت بھی فیصلہ ہوجائے گا۔ مذکورہ کلیدی فیصلے ہوگئے تو اگلے برس کا آغاز ہوتے ہی نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا۔ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ یہ انتخاب ہر صورت عمران خان صاحب کی کامل تشفی کرتے انداز میں صاف وشفاف ہوں۔ تحریک انصاف کو کامل اعتماد ہے کہ ایسا انتخاب ان کی جماعت کو دوتہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹنا یقینی بنائے گا۔ اس کے بعد “رقص میں سارا جنگل ہوگا” والی فضا بن جائے گی۔ پاکستان “حقیقی آزادی” کی جانب سرپٹ دوڑنا شروع ہوجائے گا۔

نجم صاحب کا بیان کردہ زائچہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو میرے ساتھ “شہر سنگ دل” کے کئی سرکاری کارندوں نے رابطہ کیا۔ شوکت ترین صاحب کی پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے خزانہ سے ٹیلی فون پر گفتگو لیک ہوجانے کے بعد یہ لوگ بہت محتاط ہوچکے ہیں۔ محض یہ سوال کرتے کہ نجم سیٹھی کے خیالات سنے ہیں یا نہیں۔ عرصہ ہوا عملی صحافت سے میں ریٹائر ہوچکا ہوں۔ “اندر کی خبر” دینے والوں تک رسائی کا حامل ویسے بھی کبھی نہیں رہا۔ بہت مشقت اورچھان پھٹک کے بعد ہی “خبر” نکالنا پڑتی تھی۔ اپنی غفلت کا عاجزی سے اعتراف کرنے کے علاوہ کچھ بتا نہیں سکتا تھا۔ یہ عاجزی مجھ سے رابطہ کرنے والوں کو مزید فکرمند کرتی سنائی دی۔ آپ سے کیا پردہ؟ اس ضمن میں چند افراد کی فکر مندی نے مجھے کمینگی بھری لذت بھی فراہم کی۔

میں نجم صاحب کی بیان کردہ “خبر” کی تصدیق یا تردید کے ہرگز قابل نہیں۔ رواں برس کے اپریل میں عمران صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے البتہ مسلسل اصرار کررہا ہوں کہ شہباز شریف صاحب کی سربراہی میں بنائی “کمپنی” چلتی نظر نہیں آرہی۔ اس کا “دیوالیہ” ہونا دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا تھا۔ شہباز صاحب بھی غالباََ اس امر کی بابت اپنے طویل سیاسی تجربے کی بدولت نابلد نہیں ہوں گے۔ اسی باعث اکثر گماں ہوتا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں صوفی منش ہورہے ہیں۔ اپنی اور اپنے بھائی کے نام سے منسوب جماعت کی “سیاست بچانے” کے بجائے ملک کا دیوالیہ ہونے سے بچانے کی ٹھان رکھی ہے۔

عمران خان صاحب ان کے برعکس ایک لمحے کو بھی “سیاست” بھلانے کو آمادہ نہیں ہوئے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے تمام تر پلیٹ فارموں کے مؤثر ترین استعمال کے بعد شہر شہر جاکر جلسوں کے ذریعے عوام سے براہ راست رابطے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پاکستان کا ایک تہائی حصہ ان دنوں سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ افراد دربدر وبے حال ہوچکے ہیں۔ خان صاحب مگر “جلسے پہ جلسہ” کرتے ہوئے اپنا پیغام پھیلائے جارہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شرکت ان لوگوں کو بھی غلط ثابت کررہی ہے جو اس فکر میں مبتلا تھے کہ آفت کے ان دنوں میں خان صاحب کے منعقد کردہ جلسے انہیں سیلاب زدگان کی مصیبتوں کے تناظر میں لاپرواہ دکھائیں گے اور مذکورہ لاپرواہی ان کی سیاست کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔

شاید میرا یہ دعویٰ آپ کو تلخ سنائی دے۔ گزشتہ چند دنوں سے مگر میڈیا پر نگاہ ڈالتاہوں تو مجھے ایک نہیں دو پاکستان اجاگر ہوتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ “ایک پاکستان” پشاور سے ملتان تک پھیلا ہوا ہے جہاں”امپورٹڈ حکومت” سے نجات کی تڑپ نمایاں ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے سندھ اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع اس کے برعکس سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کی فوری مدد کی کاوشیں بھی ناکافی نظر آرہی ہیں۔ طویل المدت بحالی تو بہت دور کی بات ہے۔

اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے سوال اٹھانے کو مجبور ہوں کہ کم از کم ساڑھے تین کروڑ پاکستانیوں کی مناسب دادرسی کے بغیر عمران خان صاحب کے غضب سے گھبرائے حتمی فیصلہ ساز اگلے برس کے مارچ میں انتخاب کروانے کو کیوں بے چین ہیں۔ بہت کوشش کے باوجود مذکورہ سوال کا جواب سوچ نہیں سکا۔ نہایت خلوص سے اب مذکورہ سوال آپ کی جانب اچھال رہا ہوں۔ اس درخواست کے ساتھ کہ مجھے اس کا مناسب جواب فراہم کرنے میں مدد فرمائیں۔ اپنا فرض آپ کے سپرد کرتے ہوئے یہ بھی یاد آیا ہے کہ نجم سیٹھی صاحب کے فرمودات کو شہباز شریف صاحب نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز جن دنوں نواز شریف صاحب منظور کرنے سے ہچکچارہے تھے تو شہباز صاحب اس ضمن میں نجم صاحب کی مدد کے طلب گار بھی رہے۔ نجم صاحب کی چڑیا اگر مارچ میں انتخاب کی “خبر” لے آئی ہے تو شہباز صاحب فوری استعفیٰ کا اعلان کیوں نہیں کردیتے تاکہ صاف ستھرے اور ہونہار ٹیکنوکریٹس کی حکومت ملک کو دیوالیہ سے بچانے کو یقینی بناتے مزید “مشکل” فیصلے اٹھالے اور نیا سال چڑھتے ہی نئے انتخاب کی بدولت عمران خان صاحب بھاری اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ کر ہمیں”حقیقی آزادی” سے ہمکنار کریں۔

Facebook Comments

نصرت جاوید
Nusrat Javed is a well-known Pakistani columnist, journalist, and anchor who writes for the Express News, Nawa e Waqt, and Express Tribune.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply