جہاں خدمت وہاں الخدمت لیکن۔۔حسان عالمگیر عباسی

جب بھی کوئی پیش رفت ہوئی ہمیشہ تقسیم دیکھنے میں آئی مثلاً انتخابات ہوئے تو کچھ نے کہا شفافیت تو کچھ کو دھاندلی نظر آئی۔ اس بار سیلاب آیا، متاثرین آئے، ڈونیشنز آئیں اور امداد کی گئی۔ سب نے بیک زبان کہا کہ الخدمت سر فہرست ہے۔ تمام طبقات نے مقرر عرض کیا کہ جہاں خدمت وہاں صرف الخدمت! اکا دکا نے شاید کاوشوں کو منفی نظر سے دیکھا ہو لیکن یہ الا ماشاءاللہ ہیں! ایسی صورتحال جہاں اخلاقی فتح تصور کی جاتی ہے وہیں یہ امتحان بھی کہلاتی ہے۔ ظاہر ہے اس وقت سوشل میڈیا خدمات کا تسلسل کہلانے کے لائق ہے۔ اذہان میں جہاں بہت سے خیالات ہیں کہیں نہ کہیں ان کاوشوں نے بھی مثبت پیرائے میں جگہ بنائی ہے۔ دِلوں کا بھی یہی حال ہے۔ ایکنالجمینٹ موجود ہے۔ ابھی بھی ویڈیو دیکھی تو ٹرکوں کے ٹرک قافلے کی شکل متاثرین تک پہنچ رہے ہیں۔

سب یہی کہیں گے کہ دیانت و امانت کا نام الخدمت ہے۔ یہی سب سے بڑا امتحان ہے۔ یہیں مار پڑتی ہے۔ یہیں حکمت گم ہو جاتی ہے۔ یہیں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ معاشرہ بھلے مشکل میں ہے اور قدردانی کا مستحق ہے لیکن یہ وہی معاشرہ ہے جو الخدمت کو صرف ایک رفاہی تنظیم مانتا ہے۔ بہبود اصولاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی عدم توجہی فرشتوں سے کام لینے کی وجہ بن رہی ہے۔

یہ معاشرہ سیاست کو گالی سے جوڑتا ہے اور چیریٹی یا خدمت خلق اس کے نزدیک خدائی صفت ہے۔ یہاں مار کھاتے ہیں۔ یہیں نقصانات کا اندیشہ ہے۔ اس معاشرے کو لگتا ہے کہ خدمات دینے والے چالاک ہیں جنت میں جانا چاہتے ہیں اور وہی خدمت والے جب امانت یعنی بیلٹ یعنی ووٹ مانگتے ہیں تو قوم ہکلانے لگتی ہے۔ ابے کل نیکی کے نعرے اور آج شیطانی کام! ہائے رے منافقت۔

لہذا نیک پارسا بننے کی ضرورت نہیں ہے بس فرمان قائد ذہن نشین رہے: کام، کام اور کام! نیکی تو ملے گی لیکن نیکی یہاں کیش کروانے کی ضرورت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ بس دن رات ایک کریں۔ پورا سٹرکچر بدل ڈالیں۔ نام بھی، نشان بھی، رویے بھی، سوچ بھی اور قیادت بھی۔ اس معاشرے کو کالے ڈالے اور قائد کی آنکھوں میں کالا چشمہ پسند ہے۔ یہ معاشرہ قائد کی الٹی شلوار پہ بات کرنا پسند کرتا ہے۔ اسے بھلے ششکے نہ ملیں ششکے والوں کو دیوتا مانتا ہے۔ یہ وہی معاشرہ ہے جو فائدہ پہنچانے والے کو معبود مان لیتا ہے۔ اس کے کئی خدا ہیں۔ اس لیول پہ آنا پڑنا ہے جسے پاپڑ بیلنا کہتے ہیں۔ مذہبی ٹچ پسند کرتی ہے۔ دنگل، فساد، جھگڑے، مار دھاڑ، کپڑے پھاڑنا تو اسے اچھا لگتا ہے لیکن ہر برادر تنظیم کے نام کے سابقے لاحقے کے ساتھ ‘اسلامی’ کے ساتھ ایسی حرکتیں عجیب و غریب سمجھی جاتی ہیں۔ نفسیات کو جانے بنا سب کاوشیں بیکار ہیں۔

ابھی انتخابات کروا لیں۔ ان جگہوں پہ میدان لگائیں جہاں الخدمت کا زیادہ زور رہا اور حاجی بھائی اور شیخ صاحب کو ٹکٹیں دیں اور ساتھ کہیں کہ ووٹ دینا ثواب ہے۔ ارکان کی تعداد سے بھی آدھے ووٹ نکلیں گے۔ یہ رویہ تو اچھا ہے کہ ہر دم میدان عمل میں یہ لوگ موجود ہیں لیکن نظر ثانی نہیں ہو رہی شاید۔ نظر کرم کافی نہیں ہے۔ نظریہ بھی نہیں بکتا۔ سب ضائع جا رہا ہے۔ رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کارکنان جو میت گاڑی چلاتے ہیں اور امداد پہنچانے کے لیے کاندھے دیتے ہیں ان کی رائے کو ٹھڈے مارنا بد ذوقی ہے۔ پلیٹ فارمز پہ بات کرو کے احکامات ماضی کے چرچے ہیں۔ اب اعلانیہ اور سرعام گستاخیاں سہنا سیکھنی ہوں گی۔ بچوں کی طرح رونا دھونا ختم! عمران خان کو گالی دے کر ہزار کارکنان کی نفرت سمیٹنا غلط رویہ ہے۔ فرشتے نہیں انسان بنیں کیونکہ:

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر  اس میں لگتی ہے  محنت زیادہ

Advertisements
julia rana solicitors

الخدمت کی طرح ہو جائیں۔ پروفیشنلز بن جائیں۔ جگہ جگہ بحثیں اور حل صرف یہ ہے وہ ہے بس یہی ہے بے سود جائے گا۔ ووٹ کی عزت پہ بات کریں لیکن کارکنان کو بھی عزت دیں۔ ان کے بغیر الخدمت کی اوقات ٹکے کی بھی نہیں ہے۔ یہ کارکنان جو آپ کو سبزی، مالٹائی اور آسمانی جیکٹوں میں نظر آرہے ہیں ان کے اپنے مسائل بھی ہیں۔ وہ غلام نہیں ہیں کسی جماعت یا تنظیم کے! آتے ہیں تو بسم اللّٰہ اور نہیں آتے تو صدق اللّٰہ العظیم! ایک سانس میں یہی لکھنا سمجھ آیا ہے۔ باقی پھر سہی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply