راز پر لب کشائی—خط نمبر 9 اور 10۔۔ڈاکٹر خالد سہیل/مقدس مجید

معزز قارئین!
“Sharing  the  Secret”
بچپن میں جنسی زیادتی کی شکار خاتون جیمی اور ان کے تھراپسٹ ڈاکٹر سہیل کے مکالمے پر مبنی کتاب ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹرخالد سہیل نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس کے ہر باب سے میں بچپن میں زیادتی کے شکار لوگوں کی نفسیات اور تھراپی کے حوالے سے گہری اور دلچسپ معلومات حاصل کر سکی۔ چند باب آپ کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہوں گی!)  مقدس مجید
خط نمبر۔۔09
دفاعی طریقہ کار
محترمی جیمی!
مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو خطوط کی صورت میں لکھتے ہوئے اپنی کاوشوں، کامیابیوں، وسوسوں اور خوابوں کے متعلق ہمارے قارئین کو بتا رہی ہیں۔
آپ نے پچھلے خط میں ایک مریضہ کی تکلیف دہ کہانی کا تذکرہ کیا جس نے اپنی نرس سے بدلا لینے کے لیے اپنے بازو کو کاٹ کر زخمی کیا تھا۔ نفسیات کی زبان میں اسے ایکٹنگ آؤٹ (Acting Out) کہتے ہیں۔ اپنی نرس کے پاس جا کر مایوسی کا اظہار کرنے کی بجائے تعلق کے باہر اس کا اظہار کرنا جیسا کہ اس مریضہ نے اپنے بازو کو کاٹ کر کیا۔ ذہنی امراض کے ماہرین کے نزدیک  جذباتی تضادات سے نمٹنے کے لیے ایکٹنگ آؤٹ ایک غیر صحتمند اور نابالغ دفاعی طریقہ کار (defence mechanism) ہے۔
عزیزی جیمی!
جیسا کہ ہم لوگوں میں نفسیاتی مسائل اور سائیکو تھراپی کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے ان خطوط کو شائع بھی کرائیں گے۔ اس وجہ سے میں دفاعی اور نمٹنے کے طریقہ کار پر سگمنڈ فرائڈ کے تصور کو بھی بیان کرنا چاہوں گا۔
فرائڈ دفاعی اور زندگی کے مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار کو مختلف سطحوں میں بٹا ہوا دیکھتے تھے۔ بچے، ٹین ایجرز اور بالغان بے چینی اور پریشانی سے نمٹے کے لیے اپنے اپنے دفاعی طریقہ کار رکھتے ہیں۔ جب ایک بالغ انسان کسی بچے یا ٹین ایجر کے دفاعی طریقہ کار کو اپنائے تو اسے نابالغ اور غیر صحتمند سمجھا جاتا ہے۔مختلف نفسیاتی امراض میں بھی الگ الگ دفاعی طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جیسا کہ Schizophrenia کے مریض پروجیکشنprojection کا دفاعی طریقہ کار استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی بجائے کہ “میں اس سے نفرت کرتی ہوں!” ۔ایک Schizophrenia کی مریض عورت یہ سب اپنے شوہر پر ڈال دے گی اور کہے گی کہ “وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے”.
جو لوگ Bipolar Disorder کے شکار ہوتے ہیں وہ حالات سے انکارdenial کا دفاعی طریقہ کار استعمال کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً اگر ایسے کسی مریض کی والدہ انتقال کر جائے تو وہ ہنسنے لگے گا کیونکہ وہ موت اور جدائی کے ساتھ آنے واے درد کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اداس محسوس کرنے کی بجائے وہ پرجوش اور پرمسرت محسوس کرے گا جو کہ ایک طرح کا ردعمل ہے۔جو لوگ شخصیت کے مسائل کے شکار ہوتے ہیں وہ ایکٹنگ آؤٹ سے کام لیتے ہیں جیسا کہ اُس مریضہ نے کیا۔نابالغ اور غیر صحت مندانہ دفاعی طریقوں کے علاوہ دانشمندانہ اور صحت مند طریقے بھی ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل
فرائڈ نے مزاح کے عمل (Sublimation) کو بالغ اور دانشمندانہ دفاعی طریقہ کار تسلیم کیا۔ مزاح کے ذریعے ایک شخص اپنے تکلیف دہ احساسات کا اظہار کسی دوسرے کو ناراض کیے بغیر کر سکتا ہے۔سبلیمیشن کے تحت ایک شخص اپنی ایسی خواہش یا ضرورت جس کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اسے قابل قبول کرانے کیلئے ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جس کو سماج قبول کر سکتا ہو۔
جیسا کہ اگر کسی شخص کو  گاڑی تیز چلانے کا شوق ہو اور وہ ایمبولینس ڈرائیور بن جائے، شدید غصہ کرنے والا شخص باکسر بن جائے یا ایسی عورت جو بولڈ کپڑے پہننا چاہتی ہو وہ ڈانسر یا اداکارہ بن جائے۔ یہ سب Sublimation کی مختلف مثالیں ہیں۔
محترمی جیمی!
مجھے بہت خوشی ہے کہ مشکل وقتوں میں آپ نے بہت مرتبہ عقلمندانہ اوردانشمندانہ دفاعی طریقوں کا انتخاب کیا۔ آپ نے تھراپی کو وقتی علاج اور زندگی کو موت پر ترجیح دی۔ میں بہت خوش ہوں کہ آپ آج اپنی کہانی کے ذریعے دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے زندہ ہیں۔ آپ زندہ ہیں اپنی زندگی لکھنے کے لیے اور دانشمندانہ اور صحت مند فیصلوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے۔میں آپ کے پیشہ ورانہ تجربات اور سائیکو تھراپی یونٹ میں وجودی لڑائیوں اور جدوجہد کے متعلق جاننا چاہوں گا۔
مخلص
ڈاکٹر سہیل
٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭
خط نمبر10
کل کےلیےجدوجہد
محترم ڈاکٹر سہیل!
میں نے ایسے بہت سے مریضوں کو ‘ایکٹنگ آؤٹ ‘ کرتے دیکھا جو بہتری کے راستے سے نا واقف تھے یا شاید وہ اپنی زندگی کو بہتر نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ جانتے بھی تھے کہ ان کے اپنائے ہوئے رویے دوسروں کی ان کی طرف متوجہ تو کر سکتے ہیں مگر سچ میں ان کی مدد نہیں کر سکتے۔ واقعی اپنی مدد کرنے کے لیے انھیں اپنے اپنے مسائل اور رویوں پر کام کرنا پڑنا تھا۔ مجھے اس سب کے بارے میں سائیکو تھراپی پروگرام میں پتا چلا۔ میں نے ایسے بھی مریض دیکھے جن کا کہنا تھا کہ وہ بہتر ہونا چاہتے تھے لیکن وہ شراب، نشہ آور ادویات کے ترک اور خود کو نقصان نہ پہنچانے جیسے قوانین کو توڑتے تھے اور پروگرام سے نکال دیے جاتے تھے۔ میں نے اپنے مسائل پر بہت کام کیا اور میں واقعی بہتر ہو جانا چاہتی تھی  لیکن ایسا بھی وقت آتا ہے جب ماضی اور حال کے احساسات ٹکرانے لگتے ہیں۔
میں اذیت میں بہت جدوجہد کرتی رہی اور وہ ‘ایکٹنگ آؤٹ’ کے رویے جن کا آپ نے ذکر کیا۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں اپنے آپ کو یاد دلاتی رہتی ہوں کہ کیوں وہ تمام رویے مناسب نہیں ہیں اور مجھے اینزائٹی ’ڈپریشن اور بےچینی سے نمٹنے کے لیے صحت مند طریقے دریافت کرنے ہوں گے۔
جب میں نے سائیکو تھراپی پروگرام چھوڑا اس وقت مجھے لگا کہ آہستہ  آہستہ خود کو نقصان پہنچانے کی کشش کم ہوتی چلی جائے گی لیکن یہ کیسی طنز کرنے والی پرانی سہیلی کی طرح کہیں نہ کہیں پھر مل جاتی ہے اور اذیت دیتی ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتے میرے لیے بہت مشکل رہے ہیں۔ ان دنوں میں جہاں مجھے گھر کے  سامان کی پیکنگ پر توجہ دینی چاہئیے وہیں میں باورچی خانے کے میز پر بیٹھی گھنٹوں اپنے موبائل پر لگی رہتی ہوں اور وقت ضائع کرتی رہتی ہوں یہاں تک کہ میری کمر دُکھنے لگتی ہے جو مجھے حال میں واپس لاتی ہے۔ رات کے وقت میں ڈپریشن کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہوں اور اتنا مرجھا جاتی ہوں کہ اونچی اونچی رونا چاہتی ہوں۔ یہ سب مجھے پچیس سال پہلے کی یاد دلاتا ہے جب میں سائیکو تھراپی پروگرام میں داخل تھی۔ میں  اذیت میں تنہا، پریشان اور بےچین رہتی۔ اگرچہ یہ احساسات اتنے شدید نہیں  لیکن کچھ کم بھی نہیں ہیں۔ ڈپریشن مجھے پوری طرح گھیرے رکھتا ہے۔ یہ کسی موٹے، سیاہ بھاری کمبل کے جیسا مجھ سے لپٹ جاتا ہے تاکہ میں نہ سانس لے سکوں، نہ دیکھ سکوں اور نہ ہی حرکت کر سکوں۔ میں اِس کے رحم و کرم پر ہوں۔ کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ میں اس طرح محسوس کرتی ہوں۔ حال ہی میں میں نے ” کل کے لیے جدوجہد” کے نام سے ایک نظم لکھی ہے۔
کل کے لیے جدوجہد
ایک الجھا ہوا ذہن
کیا کبھی
 سلجھ سکے گا؟
ایک بکھری ہوئی روح
کیا دوبارہ
سانس لے پائے گی؟
ماضی کے دہانے پر کھڑی
جو مجھے جینے نہیں دے گا
تب اور اب میں ڈولتی ہوئی
میں کل کے لیے
جدوجہد کرتی ہوں
اے پرانی سہیلی!
تم نے میرا دکھ سن لیا ہے
اور مجھے
بلیڈ اٹھانے
اور کل کو ختم کرنے کا کہتی ہو
مجھے تم کوخود سے دور
 دھکیل دینا چاہئیے
لیکن
تم لوٹ آؤ گی
پھر کسی دن
میرے پاس!
تیئیس سال پہلے جب میں نے حاملہ ہونے اور پہلا بچہ پیدا کرنے کے بارے میں سوچا اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اس سب کے بعد  خودکشی آپشن نہیں ہو گی۔ پچیس سال پہلے ہسپتال میں داخلے کے بعد سے میں نے کبھی خودکشی کی کوشش نہیں کی۔ سچ بتاؤں تو یہ سوچ میرے ذہن میں اب بھی آتی ہے جب ڈپریشن، اضطراری عارضہ یا جنسی استحصال کی یادیں آپے سے باہر ہو جائیں۔ میں اس سب کو روک نہیں سکتی۔ جب میں بہت ہی زیادہ اذیت میں ہوتی ہوں تو یہ سوچ کر سکون ملتا ہے کہ میں خودکشی کے راستے نجات حاصل کر سکتی ہوں۔ انتخاب میرا ہو گا لیکن میں خودکشی کی کشش سے لڑتی ہوں اور اس سے کم بری صورت کو قبول کرنے لگتی ہوں جیسا کہ خود کو اذیت دینا وغیرہ۔ اقدامِ خودکشی کی کشش بہت گہری بھی ہو سکتی ہے لیکن میں اس سے بھی لڑ سکتی ہوں۔ میرے ذہن میں سائیکو تھراپی پروگرام والے ماہرِ نفسیات کی بات گونجنے لگتی ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ایسے اوقات ہو سکتے ہیں جب میں اقدامِ خودکشی کے متعلق سوچوں یا خود کو اذیت دینے کے بارے میں۔ ایسے خیالات کا آنا غلط نہیں جب تک ان پر عمل پیرا نہ ہوا جائے۔
ڈپریشن اتنا بدتر ہو گیا ہے کہ میں Carbamazepine کو ترک کرنے کا سوچ رہی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ اگر کچھ خوراکیں چھوڑ دوں گی تو کچھ جوش اور پاگل پن محسوس کروں گی۔ شاید یہ مجھے میرے ڈپریشن سے نکال سکے۔
آج میں قدرے بہتر تھی اور کام بھی کر پا رہی تھی۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ برقرار رہے ۔ لیکن میرا ذہن اب بھی الجھا ہوا ہے جیسے یہ دلدل میں تیراکی کر رہا ہو۔ میں کچھ نیند چاہتی ہوں۔ آج رات بہت تھکی ہوئی محسوس کر رہی ہوں۔ میں اس لیے بھی اداس ہوں کہ میرے نوجوان بالغ بچوں نے جلد از جلد گھر سے دور ہو جانے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ وہ گھر رہنا پسند نہیں کرتے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے انھیں مایوس کر دیا ہے۔ میں نے جس کو ایک خوش حال گھرانہ بنانے کی کوشش کی تھی وہ کاغذ کی ناؤ کی طرح غرق ہو گیا۔ میں اب کل لکھنے کی کوشش کروں گی۔ ڈاکٹر سہیل، اس وقت میں مزید نہیں لکھ پا رہی۔
مخلص
جیمی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply