• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان میں کوہ پیمائی کا سیزن، کیا کھویا کیا پایا؟۔۔عمران حیدر تھہیم

پاکستان میں کوہ پیمائی کا سیزن، کیا کھویا کیا پایا؟۔۔عمران حیدر تھہیم

پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں پر کوہ پیمائی  کا موسمٍ گرما کے سیزن کا اختتام ہو چُکا ہے۔ کوہ پیمائی کے کھیل میں دلچسپی رکھنے والوں کےلیے اٍس سیزن کے مُتعلّق میرے ذاتی مُشاہدات پر مبنی تجزیہ ذیل ہے۔
میری را ئے  کے مطابق پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں پر پاکستانیوں کو گُزشتہ سال کی نسبت بظاہر دوگنی ”سمٹ کامیابیاں“ تو ضرور ملیں لیکن یہ کامیابیاں پہلے کی نسبت زیادہ غیرحقیقی اور کاسمیٹک تھیں۔ تمام کامیابیاں نیپالی کمپنیوں اور نیپالی شرپاؤں یا پاکستانی ہائی ألٹیٹیوڈ پورٹرز کی مرہونٍ منّت تھیں۔ تاہم صرف ایک پاکستانی آصف بھٹی نے اپنے ایک ساتھی سعید بادشاہ کے ہمراہ جراتمندانہ انداز میں independent climbing کی کوشش ضرور کی۔ وہ دونوں سمٹ تو نہ کر سکے تاہم پاکستانی کوہ پیما کمیونٹی میں اُمید کی ایک موہوم سی شمع ضرور روشن کر آئے ہیں۔ اُن کے علاوہ کوئی ایک بھی پاکستانی اس سال بھی independent climb یا الپائن کلائمبنگ کی ایک مثال بھی قائم نہ کر سکا۔ تمام سمٹس نیپالی کمپنیوں کے مُلازم شرپاؤں کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن یا اُنکی trail-breaking کے ذریعے مصنوعی أکسیجن کے استعمال کے ساتھ کی گئیں۔
چنانچہ کوہ پیمائی کے ایک آزاد اور غیر جانبدار نقّاد کی حیثیت سے مَیں یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا کہ اگر اگلے سال حکومت گلگت۔بلتستان تجرباتی طور پر پاکستانی پہاڑوں پر نیپالی شرپاؤں سمیت تمام غیر مُلکیوں کا داخلہ بند کر دے تو اٍن تمام پاکستانی ”ہیروز“ میں سے کوئی ایک بھی پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں خصوصاً K2 یا نانگا پربت کو تو بالکل بھی سر نہ کر پائے گا۔
مثال کے طور پر اٍس سال یکم جولائی  کو ناروے کی خاتون کوہ پیما کے دو اور 2 جولائی کو تائیوان کی خاتون کوہ پیما کے تین نیپالی شرپا اگر نانگا پربت پر فکسڈ لائن نہ لگاتے تو 5 جولائی کو دو پاکستانی شہروز اور فضل علی کبھی سمٹ نہ کر پاتے۔ دونوں نے نانگا پربت پر گُم ہو جانے کا ڈرامہ بھی صرف شُہرت کمانے کےلیے رچایا ورنہ شہروز کے گارمین ٹریکر کے گراف کا ریکارڈ مَیں نے بغور چیک کیا ہے اُس دن سمٹ کے بعد اُترائی پر 7500 میٹر تک اُس ٹریکر کا ایک بہت ہی smooth گراف بنتا ہے جو کہ کسی بھی صورت میں راستہ بھٹک جانے والوں کا نہیں ہو سکتا۔ وہ دونوں بہت تسلّی سے نیچے آئے اور از خُود ہی وہاں رُک کر اگلے دن باقی اُترئی مُکمّل کی۔ شہروز کے گارمین ٹریکر کا اُس دن کا گراف میرے پاس محفوظ ہے۔
شہروز نے اپنے انٹرویو میں یہ بتایا کہ جو رات اُنہوں نے 7500 میٹر پر گُزاری اُس رات وہاں ٹمپریچر منفی 20 تھا۔ تاہم یہ دعویٰ بھی غلط ہے کیونکہ موسمیاتی پیشین گئی کرنے والی “ماؤنٹین فورکاسٹ” نامی مشہور بین الاقوامی ویب سائیٹ کے اعدادوشُمار کے مطابق جس رات فضل علی اور شہروز 7500 میٹر پر رُکے تھے اُس رات سمٹ یعنی 8126 میٹر پر زیادہ سے زیادہ ٹمپریچر منفی 10 تھا تو 7500 میٹر پر منفی 20 کیسے ہو سکتا ہے۔ چونکہ شہروز سے پہلے دو دن میں نانگا پربت پر تین خاتون کوہ پیماؤں سمیت کُل 27 لوگ نانگا پربت کو سر کر چُکے تھے جو کہ نانگا پربت پر ہونے والی گُزشتہ 10 سالوں کی تعداد (29 سمٹس) کے تقریباً برابر تھی اور ہیرو بننے کےلیے media attention چاہییے تھی لہٰذا عام شائقین کےلیے یہ ڈرامہ کیا گیا۔
اٍسی طرح اگر 21 جولائی  کو 5 نیپالی شرپا K2 کی سمٹ تک ابروزی رُوٹ پر فکسڈ لائن نصب نہ کرتے تو 22 جولاٸی کو 12 پاکستانیوں سمیت 150 اور اُسکے بعد مزید 25 سے 30 ماؤنٹین ٹورسٹس K2 کو سر نہ کر پاتے۔
اگر گیشربروم ون اور ٹو کی بات کی جائے تو اٍن دونوں چوٹیوں کے کلائمبنگ رُوٹس کو بھی پاکستانیوں سے پہلے نیپالی شرپاؤں نے کیمپ 3 تک فکس کیا جس پر پاکستانیوں نے سمٹس کیں۔ شہروز کاشف 16 جولائی سے لیکر 2 اگست تک K2 کے بیس کیمپ پر صرف اُن نیپالی شرپاؤں کا انتظار کرتا رہا جنہوں نے K2 سے فارغ ہونے کے بعد ناروے اور تائیوان کی خاتون کوہ پیماؤں کےلیے گیشربروم ٹو اور گیشربروم ون پر رُوٹ پر فکسڈ لائن لگانی تھی۔ یہی دراصل “پیرا سائیٹ کلاٸئمبنگ“ ہے جو پاکستانیوں کا وطیرہ بن چُکا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جو نیپالی شرپا گیشربروم ٹو اور پھر ون پر ناروے اور تائیوانی خواتین کلائمبرز کے ساتھ تھے اُنہوں نے یکے بعد دیگرے دونوں چوٹیوں پر رُوٹ لگا دیا جبکہ پاکستانی سرباز خان جو سیدھا گیشبروم ون پر گیا تھا وہاں کوشش کے باوجود رُوٹ فکس نہ کر سکا اور نیپالیوں کی کیمپ 3 سے اُوپر کی گئی trail-breaking کو استعمال کر کے ہی 6 پاکستانیوں نے گیشربروم ون کو سر کیا۔ تاہم میری رائے میں کسی حد تک پاکستانیوں یہ کارکردگی قدرے بہتر تھی کیونکہ بہرحال گیشربروم-1 ایک ٹیکنیکل پہاڑ ہے۔
میری اس ساری بحث کا مقصد کسی پاکستانی کو نیچا دکھانا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد اُن حقائق سے پردہ اُٹھانا ہے جو عام شائقین نہیں سمجھتے تاہم میری باتوں کی تائید پاکستان کے تمام ٹیکنیکل کلائمبرز ضرور کریں گے کہ ہم کوہ پیمائی کی تربیت اور مہارت میں نیپالیوں سے کم از کم 10 سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو ”پیراساٸیٹ کلائمبرز“ کی نہیں تربیت یافتہ الپائنسٹس کی ضرورت ہے۔ لکھنے کو چاہے آپ اپنی پروفائل پر بے شک “alpinist” لکھ دیں اُس سے کیا فرق پڑے گا۔ ٹیکنیکل کلائمبرز اور خصوصاً غیر مُلکی کلائمبرز کو سب پتہ ہے کہ اصل میں ”الپائنسٹ“ ہوتا کون ہے۔
چنانچہ اگر پاکستانیوں نے اپنی مہارت کا لوہا منوانا ہے تو شرپاؤں کی مدد اور مصنوعی آکسیجن کے بغیر پہاڑ سر کرنا پڑیں گے۔ صرف ایک نذیر صابر صاحب کی K2 West Ridge کی سمٹ اور مُحمّد علی سدپارہ کی Nanga Parbat Winter کے علاوہ ہم پاکستانیوں کے پاس کوہ پیمائی کی تاریخ میں کچھ خاص اور قابلٍ ذکر کامیابیاں نہیں ہیں. ہمیں ہیروز نہیں تربیت یافتہ کوہ پیما چاہئیں ورنہ نیپالیوں کے بل بوتے پر تو لنگڑے لُولے ایورسٹ بھی سر کر چُکے ہیں۔ اور شاید آئندہ نیپالی کمپنیاں معذوروں کو K2 بھی سر کروا دیں گی اور ہم پاکستانی مُنہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
قصّہ مُختصر یہ کہ پاکستانی کوہ پیماؤں، پورٹرز اور گائیڈز کے روشن مُستقبل کےلیے وقت بہت کم ہے اور مقابلہ سخت۔
یہ ناؤ  ڈُوبنے کو ہے اور اٍس پر مُشتعل لوگ
سُنہرے ساحلوں کے گیت گائے جارہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply