بدن (90) ۔ زچہ/وہاراامباکر

حمل اور پیدائش کبھی آسان نہیں رہے۔ جدید میڈیسن سے قبل یہ صورتحال زیادہ بری تھی۔ یہ معلوم کرنا بھی کہ آیا حمل ہے یا نہیں، ایک آسان کام نہیں تھا۔ اس کے کئی طریقے تھے لیکن کوئی قابلِ اعتبار نہیں تھا۔ 1873 میں ایک ڈاکٹر نے لکھا، “سب سے قابلِ اعتبار طریقہ یہی ہے کہ نو ماہ انتظار کر لیا جائے۔ اور برطانوی نصاب میں میڈیکل سٹوڈنٹس کو 1886 تک زچگی کے بارے میں نہیں پڑھنا لازم نہیں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچے کی پیدائش کا مرحلہ خطرناک بھی تھا۔ زچہ اور بچہ کی اموات کی شرح زیادہ تھی۔
اڑھائی سو سال تک سب سے بڑا خوف زچگی کا بخار (puerperal fever) تھا۔ اور یہ اچانک ہی کہیں سے نمودار ہو گیا تھا۔ سب سے پہلے 1652 میں جرمنی میں یہ پایا گیا اور پھر یورپ بھر میں پھیل گیا۔ یہ پیدائش کی بعد اچانک آتا تھا اور بھلی چنگی ماں کو نڈھال کر دیتا تھا اور بہت سوں کو زندہ نہیں چھوڑتا تھا۔ اس کی کئی وباوں میں اموات کی شرح نوے فیصد رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سن 1847 تھا جب ویانا کے ایک میڈیکل انسٹرکٹر اگناز سیملویس کو خیال آیا کہ اس کا تعلق ہاتھوں کی صفائی سے ہو سکتا ہے۔ اگر طبی معائنے سے پہلے ڈاکٹر اچھے طرح ہاتھ دھو لیں تو یہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے لکھا کہ یہ سب صفائی کا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ان کی بات سننے والا کوئی نہیں تھا۔ سیملویس کچھ غیرروایتی شخصیت کے بھی مالک تھے۔ انہیں بالآخر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بالآخر، انہیں نفسیاتی علاج کے ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ یہاں پر گارڈز کے ہاتھوں ہونے والی پٹائی نے ان کی جان لے لی۔
سیملویس اپنے خیال اور اس پر اصرار کرنے کے بارے میں بالکل درست تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتالوں میں ڈاکٹر ماوٗں کی جان ہاتھوں کی ٹھیک صفائی نہ ہونے کی وجہ سے لیتے رہے۔ اس میں وقت لگا لیکن ہائی جین کی اہمیت نے جگہ بنا لی۔ زچگی کا بخار بہت دیر تک باقی رہا۔ 1932 میں زچگی کے وقت ہونے والی چالیس فیصد اموات اس سے ہوتی تھی۔ اس وقت بھی یورپ اور امریکہ میں 238 میں سے ایک ماں کی وفات زچگی سے ہوتی تھی۔ اب یہ تعداد 9000 میں سے ایک ہے۔
یہ اچھی خبر ہے کہ دنیا بھر میں ماں بننا اب پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ محفوظ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچہ اپنی ماں سے پلیسنٹا کے ذریعے منسلک ہوتا ہے۔ بچے کو غذا اور آکسیجن اس کے ذریعے ملتی ہے اور یہ فاضل مادے بھی نکالتا ہے۔ اور اس کے بارے میں ہماری معلومات اچھی نہیں ہے۔ برسوں تک میڈیکل تحقیق کی توجہ کا مرکز بچے پر رہا ہے۔ پلیسنٹا ساتھ کی ایک اضافی سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب محققین نے معلوم کیا ہے کہ یہ صرف آکسیجن پہنچانے اور فاضل مادے ہٹانے سے زیادہ کام کرتا ہے۔ یہ ماں کی طرف سے کسی زہریلی چیز یا جراثیم وغیرہ کو بچے تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ ہارمونز کو تقسیم کرتا ہے۔ اور ماں کی خامیوں کو دور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ماں سگریٹ نوشی کرے یا نشہ کرے یا نیند پوری نہ کرے تو جسم پر ہونے والے مضر اثرات سے بچے کو بچاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی نیم ماں کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ جادو تو نہیں کر سکتا کہ ماں کی ہر حرکت سے بچا لے لیکن اس کی وجہ سے فرق پڑتا ہے۔
ہم اب جانتے ہیں کہ حمل خراب ہونے کی بڑی وجہ پلیسنٹا کا مسئلہ ہے۔ اور یہاں پر ہمارا علم کم ہے۔
یہ جراثیم کے خلاف رکاوٹ بنتا ہے لیکن سب کے خلاف نہیں۔ مثلاً، زیکا وائرس اسے پار کر جاتا ہے اور پیدائشی نقائص کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ اس وائرس سے بہت قریب مماثلت رکھنے والا ڈینگی وائرس ایسا نہیں کر پاتا۔ کسی کو علم نہیں کہ یہ ایک وائرس کو کیسے روک لیتا ہے جبکہ دوسرے کو نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply