پاں،پاں اور پاں۔۔یوحنا جان

ہر شخص با اصول بھی ہے اور ہر شخص با ضمیر بھی ہے مگر اپنی حد تک اور اپنی ذاتی زندگی تک- جو صرف محدود سوچ, انا ,تکبر اور برائی کو جنم دینے کے لیے کافی ہے – جہاں پر یہ اثر دن بدن بڑھتا جائے تو وہ معاشرہ اپنی بنیادیں خود ہی ہلا کر بربادی کے دہلیز پر جا پہنچتا ہے – کہنے کو تو بے شمار لوگ اپنی تعریف, معاشرہ میں کردار اور اپنا حصہ بیان کرتے ہیں- ان میں اکثریت کا تعلق چور, ڈکیٹ, ٹھگ باز اور رنگ رلیاں منانے میں مگن نظر آتے ہیں- اس کا اندازہ آپ بھی اپنے اردگرد نظر دوڑا کر لیجئے نہیں مانتے تو میں آپ کو زور سے نہیں منوا سکتا – ہاں مگر اس کا ثبوت ضرور دے سکتا ہوں جو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے –
تعلیم اور تعلیمی ادارے کسی بھی شخص, خاندان, معاشرے اور ریاست کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتے ہیں- جو آنے والی نسلوں کی بقا اور کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں – جس طرح ایک درخت یا پودا ہو تو اس کا ایک مرکزی” تنا” ہوتا ہے جس سے دیگر جڑیں اور شاخیں جڑی ہوتی ہیں- یہی مرکزی تنا شاخیں, پھول اور پھل کے تمام تر خوراک بھی پہنچانے کا ذریعہ ہے – اگر اس کا رابطہ منقطع ہوجائے تب پودہ اپنی ساکھ اور حقیقت کو کھو دیتا ہے- دیکھنے والا یہی کہے گا کہ یہ پودا سوکھ چکا ہے اس کی اصلیت ختم ہو چکی ہے – اس کی وجہ مرکز سے “لاتعلقی” ہے جو اس صورتحال کی مکمل ذمہ دار ہے – اب دوسری طرف اسی بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بیان کریں تعلیم اور علم وہ بنیادی خوراک ہے جو ہماری جسمانی اور روحانی بڑھوتری کا سبب ہے – یہ خوراک (تعلیم اور علم ) تعلیمی اداروں کے ذریعے ملتی ہے – جو اس مرکزی” تنا ” کا کردار ادا کرتا ہے – جو شاخوں اور پتوں پر پھل اور پھول لگنے کا وسیلہ, ان کو مضبوطی اور سہارا دینے کا ذریعہ بھی ہے- جیسے ہی کوئی شاخ ” تنا ” سے الگ ہو کر گر جاتی ہے, بے جان اور مردہ ہو جاتی ہے – جو بے پھل, بے ثمر اور ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتی ہے –
تعلیمی اداروں کی بات ہو تو مرکزی” تنا” کا کردار ادا کرتے ہیں اور شاخیں نئی نسل انسانی ہے – ان پر لگنے والے پھل اور پھول ان کا کردار اور کامیابی ہے – جو خوبصورتی اور عمدگی کا مرکز ہوتی ہے- اس کا مطلب پھر یہ ہوا کہ یہ ادارے مرکزی” ریڑھ کی ہڈی” ہیں مگر یہی ٹوٹ کر بکھر جائے تو اگلا مرحلہ کیسے وقوع پذیر ہوگا – پھر معاملہ آگے بڑھنے کی بجائے وہاں ہی ختم ہو جائے گا- اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں جو آج کی صورتحال کے عکس کی وضاحت ملتی ہے – آج تعلیم کے نام پر دھندہ عروج پر ہے اس کی وجہ جاھل, بیوقوف اور لالچی لوگوں کا بر سر اقتدار آنا – پھر ان کا اپنی مرضی کے لوگوں کو ان اداروں میں لاکھڑا کرنا جو” الف سے ب” نہیں جانتے اور تعلیم کے نام پر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں – دوسری جانب ان جاھل اور کرپٹ لوگوں نے استاد کے ہاتھ باندھ کر رکھ دیے ہیں – استاد کچھ بھی نہیں کہہ سکتا- اداروں میں تعلیم کے نام پر صرف تجارت اور استاد کی بےعزتی کے علاوہ صرف بڑی بڑی بلڈنگ دیکھنے کو ہی رہ گئی ہیں – جو کسی بھی قوم اور ریاست کی ناگفتہ بہ حالت کو عیاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں- تعلیم کا مطلب آج بدل کر رکھ دیا گیا ہے کبھی تعلیم کے ساتھ تربیت اور اخلاقیات بھی تھی – مگر آج صرف بڑی بڑی عمارتیں, جہالت کے علمبردار, بے وقوفوں کا راج اور تعلیم کے نام پر دھندا باقی رہ گیا ہے- ان بڑی عمارتوں کا مقصد اور مطلب کھو چکا ہے جب مطلب اور مفہوم کا تبدیل کیا جانا ضروری تھا تو پھر اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والی تبدیلی کا بھی منظر عام پر آنا ضروری ہے – وہ مطلب اور مفہوم آج کچھ یوں ہیں – گلی, محلہ, اسکول, کالج, یونیورسٹی صرف شور شرابہ اور فساد ہے – ابھی پاکستان کا 75 واں یوم آزادی 14 اگست 2022 کو منایا گیا – اپنے موضوع کا مفہوم واضح کروں تو لاہور کی سڑکوں پر گزرنے کا اتفاق ہوا – جہاں پر موٹر سائیکل, رکشوں, گاڑیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم اور سب کے ہاتھوں میں پلاسٹک کے باجے تھے – ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کا تعلق ان اسکولوں, کالجوں اور یونیورسٹی سے تھا- ہر طرف صرف ایک آواز گونج رہی تھی صرف اور صرف پاں ,پاں اور پاں – یہ اس چیز کا مطلب ہے جو صرف تعلیمی اداروں کو دھندا اور کاروبار بنا کر واضح کیا گیا ہے – نہ جانے اس قوم کا وہ “شعور” کہاں دفن ہو کر رہ گیا اور اس کی جگہ صرف پاں ,پاں اور پاں کا شور گونج رہا ہے- جو دوسروں کے لیے ذہنی بیماری کے علاوہ کچھ بھی نہ ہیں- اب تو اس کے علاوہ کوئی دوسرا رخ اور چہرہ دور دور تک نظر نہیں آتا- ایک طرف ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا اپنے قومی آزادی کے دن پر الیکٹرانک کار کو لانچ کر رہا ہے – اور ادھر ہم دنیا کی واحد وہ قوم ہیں جنہوں نے صرف ” پاں ,پاں اور پاں” کا شور ایجاد کیا ہے-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply