کائنات کی کہانی آیات قرآنی اور سائنس-2

قسط # 2

Advertisements
julia rana solicitors

1929 کی صبح امریکہ کی ماؤنٹ ولسن میں واقع رسد گاہ میں ایک ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے فلکیات کی دنیا کی سب سے عظیم دریافتوں میں سے ایک دریافت کی۔سائنس کے اصولوں کی رو سے جیسے جیسے روشنی والا جسم مشاہدہ کے مقام سے دور ہوتا جائے گا اس کی روشنی سرخ ہوتی چلی جائے گی۔ ہبل نے دیکھا کہ ستاروں کی روشنی کا آخری سرا سرخ ہو رہا ہے ، تو دنیا پر یہ تہلکہ خیز انکشاف ہوا کہ کائنات اپنی جگہ ٹھہری ہوئی نہیں ہے بلکہ مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس کی مثال آپ ایک غبارے میں ہوا بھرنے سے لے سکتے ہیں جیسے جیسے اس میں ہوا بھری جاتی ہے وہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ کائنات بھی بعینہٖ اسی طرح پھیلاؤ جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس پھیلاؤ کا ذکر قرآن ان الفاظ میں کرتا ہے۔
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (سورۃ الذاریات 51، آیت 47)
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔
اللہ اللہ، رب کائنات نے اس عظیم پھیلاؤ کا کتنے سادہ الفاظ میں ذکر فرما دیا ، یہ پھیلاؤ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا آغاز کب ہوا اس کا جواب سائنس بگ بینگ کی صورت میں دیتی ہے۔
بگ بینگ
بگ بینگ یا عظیم دھماکہ تخلیق کائنات کے بارے میں مضبوط ترین نظریہ مانا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی اکثریت بگ بینگ نظریہ پر متفق نظر آتی ہے ، فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر واقع تحقیقی ادارے سرن کی رسد گاہ میں گزشتہ چند دہائیوں سے کئےجانے والے تجربات اور منی بگ بینگ کے 2010 میں کامیاب تجربے کےبعدسائنس اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ کائنات کا آغاز ایک بڑے دھماکے سے ہوا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس بگ بینگ کا ذکر قرآن کریم نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
١۔ أَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاھُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَئ حَیٍّ أَفَلاَ یُؤمِنُونَO(الانبیاء،٢١:٣٠)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتےO
رب کائنات نے یہاں تخلیق کائنات کے بہت بڑے راز سے بہت ہی آسان الفاظ میں پردہ اٹھا دیا ہے ، کہ جن سوالات کے جواب انسان تلاشتا پھر رہا ہے وہ اسے ایسے نپے تلے انداز میں عطا کر دیئے گئے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اور تو اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیکھنے والے کون لوگ ہیں ، سائنس کا ماننا ہے کہ بگ بینگ سے قبل کائنات اور اس میں موجود ہر چیز لاموجود حالت میں تھی ، سائنسی زبان میں اسے صفر حجم اور لامحدود کثافت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔اس صفر حجم سے ایک دھماکہ ہوا اور اس دھماکے کے پہلے سیکنڈ کے ایک لاکھ ویں حصے میں کائنات بے شمار انداز میں پھیل گئی اور اس دھماکے کے نتیجے میں مادہ ، توانائی اور وقت آزاد ہوا ، کشش ثقل وجود میں آئی ، اور مادہ دھماکے کے نتیجے میں منتشر ہوتا ہوا مرکز سے دور ہوتا گیا، اس مادے کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے گروہ کہکشاؤں کی صورت اختیار کر گئے ۔
بگ بینگ کے وقت کا تخمینہ تقریباً 11 سے بیس ارب برس قبل کا وقت لگایا جاتا ہے محتاط اندازوں کے مطابق بگ بینگ کا ظہور آج سے 14 ارب برس قبل ہوا تھا۔
یہ بڑے ٹکڑے بنیادی طورپر ہائیڈروجن کےبنے گیسی مرغولے تھے جو دھماکے کے مقام سے دوری کی جانب سفر کے لئے پوری قوت سے جلنے لگی، اس جلنے کے نتیجے میں ہیلیم گیس پیدا ہوئی اور ان کی کثافت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ جلنے والی ہیلیم اور ہائیڈروجن کی راکھ کاربن بن کر ان کو ٹھوس شکل میں تبدیل کرنے لگی اور یوں یہ آگ کے بڑے بڑے گولے انتہائی طاقتور کشش ثقل کے ساتھ ستاروں کی شکل میں وجود میں آ گئے جن میں سے ایک ستارہ سورج ہے جو ہماری زمین کا مرکز ہے۔ اور ان کی کشش کی بدولت ان کے گرد چھوٹے چھوٹے مادے کے ٹکڑے گردش کرنے لگے جنہیں سیاروں کی شکل میں جانتے ہیں جن میں سے ایک سیارے یعنی زمین پر ہم رہ رہے ہیں ۔
ستاروں اور سیاروں سے متعلق تفصیل کا ذکر بعد میں کیا جائے گا ابھی بگ بینگ کی تفصیلات کو سمجھانے کے لئے یہ مختصر تعارف کافی ہو گا۔
اس دھماکے کی بہت سادہ تمثیل جو میرے ذہن میں آتی ہے اور جو میری ایک تھیوری کا پیش خیمہ بھی بنی ہے، تھیوری میں اس مضمون میں مناسب وقت پر پیش کروں گا، تمثیل کچھ اس طرح سے کہ ایک غبارہ کے اندر بے پناہ سیال اور پیسٹ کو ڈال دیا جائے اور پھر اس میں ہوا کا دباؤ اس قدر بڑھایا جائے کہ وہ بالآخر پھٹ جائے تو جیسے ہی وہ پھٹے گا اس میں موجود سیال اور پیسٹ بہت تیزی سے اردگرد ہر جانب کو پھیلے گا اور اس میں بڑے بڑے کلسٹر بھی بنیں ، اور چھوٹے چھوٹے چھینٹ بھی، اور یہ سب اسی طرح اپنے گول گول محوری گردش کرتے ہوئے دھماکے کے مرکزہ سے تیزی سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور جتنی تیزی سے دور جاتے ہوئے اپنے محور پر گھومیں گے اتنی ہی تیزی سے گولائی کی صورت بھی اختیار کرتے جائیں گے اور اسی گولائی میں ان پر ہوا کی رگڑ کی وجہ سے دراڑیں اور اتار چڑھاؤ بھی بن جائیں گے اور ان کے کچھ حصے جن میں نمی بہت زیادہ ہو گی ان کی نمی بھی ایک طرف اکٹھی ہو کر سنٹری فیوج کے اصول کے تحت سطح کے ساتھ ساتھ حرکت کرنے لگے گی۔
بنگ بینگ دھماکے کے نتیجے میں بہت زیادہ توانائی، حرارت اور روشنی کا اخراج ہوا، یہ روشنی بھی 1989 میں دریافت کر لی گئی جسے بعد ازاں ناسا کی جانب سے بھیجے گئے ایک مصنوعی سیارے نے خلا میں جانے کے آٹھ منٹ کے اندر ہی دریافت کر کے اس بات پر مزید مہر تصدیق ثبت کر دی کہ واقعی ہی بگ بینگ ہی کائنات کا ماخذ ہے۔
کیلی فورنیا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر جارج ایبل کا کہنا ہے کہ سر دست میسر ثبوتوں کی روشنی میں یہ بات تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ کائنات کئی بلین سال قبل ایک عظیم دھماکے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔
سر فریڈ بائل نامی سائنسدان نے ابتدا میں بگ بینگ نظریے کی بڑی شد و مد کے ساتھ مخالفت کی مگر بالآخر وہ بھی اس نظریہ پر متفق ہوگئے۔انہوں نے مزید باریک بینی سے اس کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا اور رب کائنات کی کاری گری کے معترف ان الفاظ میں ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ بگ بینگ نظریہ کے مطابق کائنات ایک واحد دھماکے کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آئی اور دھماکہ مادے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے مگر بگ بینگ نے متضاد نتیجہ پیش کرتے ہوئے مادے کو کہکشاؤں کے جھنڈوں کی صورت میں نمودار ہوتا ظاہر کیا ہے، وہ مزید کہتے ہیں کہ طبیعات کے وہ قوانین جو بگ بینگ کے ساتھ ہی وجود میں آئے 14 ارب برس گزرنے کے بعد بھی ان میں رتی برابر تبدیلی نہیں آئی، یہ اس قدر نپے تلے قوانین ہیں کہ ان کی ویلیوز میں ایک ملی میٹر کا فرق بھی پڑ جائے تو مکمل کائناتی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
یہی بات مشہور ماہر طبیعیات پروفیسر اسٹیفن ہاکنزاپنی کتاب (A Brief History of Time)میں لکھتے ہوئے کہا کہ اس کائنات کو اس قدر خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ توازنوں پر استوار کیا گیا ہے اور اس قدر نفاست سے اس کو برقرار رکھا گیا ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
پروفیسر ڈاکٹر یوشی ہائیڈ کوزائےنامی ایک نامور سائنسدان کو جب تخلیق کائنات سے متعلق قرآنی آیات پر تبصرے کی دعوت دی گئی تو پہلے تو انہوں نے آیا ت کا مطالعہ اور ان پرغور وخو ض کرنے کے بعد قرآن مجید کے نزول کے متعلق تفصیلات معلوم کیں کہ یہ کہا ں ،کب اور کس پر نازل ہوا ؟جب انہیں بتایا گیا کہ قرآن مجید 14 سو سال پہلے نازل ہوا تھا توانہوں نے تعجب کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا ” قرآن انتہائی بلند مقام سے کائنا ت کی وضاحت کرتا ہے۔اس نے جو کچھ کہا وہ حقیقت میں موجود ہے۔ (گویا اُس نے )ایسے مقا م سے دیکھا ہے جہا ں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
بگ بینگ کیسے وقوع پذیر ہوا، اس سلسلے میں میری ذاتی تحقیق اس سلسلے کی چند اقساط کے بعد پیش کی جائے گی کیونکہ جب تک پورا لائف سائکل سمجھ نہ آ جائے یہ جواب حاصل کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ واضح رہے کہ سائنس ابھی تک بگ بینگ سے پہلے اس کی وجہ کو تلاش کر رہی ہے۔
بگ بینگ کے بعد سے اب تک کے زمانے کی گرافیکل پریزنٹیشن تصویری صورت میں پوسٹ کے ساتھ اٹیچ کی گئی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد حسن شاہ
نام محمد حسن شاہ ، لکھنے والوں کوپڑھ کر سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں ، محبت اور امن کا داعی اور کچھ بھی نہ ہونے کا دعویدار ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply