ایک اجتماع کی روداد ۔۔۔۔تابندہ ثروت

کافی جتن کیے، سوچ و بچار میں مغز کھپایا بالآخر لاہور کی گاڑی میں بیٹھ ہی گئے۔ سفر کا حال کیا بیان کروں؟ دورانِ سفر آنکھیں مُوند رکھی تھیں۔ عالمِ مدحوشی میں تھی کہ سرگوشی میں منصورہ سنائی دیا۔ یک دم آنکھیں کھل گئیں۔ یہ منصورہ کی گلیاں تھیں جہاں اپنائیت کا احساس سر اٹھائے ہمارے استقبال کو موجود تھا۔ منصورہ کی گلیوں میں پہنچ کر احساسات کے ساتھ حواس بھی بیدار ہو گئے تھے۔

دوران سفر معدنیات (پٹرول، ڈیزل اور گیس) کی بُو نے دماغ کے پُرزے ایسے ہلائے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پہلی فرصت میں فریش ہونے کی ٹھانی۔ حالت کی بدحواسی کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ دائیں بائیں میں فرق، اطراف کا تعین کرنے سے قاصر تھے۔ پانی کے چھینٹے منہ پر مارے۔ منہ دُھل کر ابھی خشک ہونے کے مراحل سے گزر رہا تھاکہ ایک دوست ہماری طرف بڑھیں جو ہماری آمد کا سن کر تشریف لائیں تھیں۔ زندگی میں ان سے پہلی بار مل رہے تھے۔ مارےمروت کے منہ دھونے کے بعد کے لوازمات (کریم،لوشن) کو پرے پھینکا اور گرم جوشی سے ان کے گلے لگ گئے۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ درحقیقت اس طویل سفر کے مختلف مراحل سے گزارنے میں ان کی باتوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔

اب سفر کی تھکن اور مزاج کی  سرد مہری کی موت واقع ہوتی ہوئی نظر آئی۔ دل میں باہمی محبت کے احساسات ٹھاٹھیں مارنے لگے۔گیلری سے حال کا رخ کیا۔ حقیقتاً یہ جو تحریکی محبتوں کا فورُم ہوتا ہے نا یہاں دل کی کیفیت ہیجان انگیز ہوجاتی ہے۔ اس وقت بھی ذہنی حالت کسی صورت مستحکم نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہال میں بکھرے بیگ، بستر، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے لوگ، سبز سی زمین اور مٹھاس بھرا شوروغوغا جس میں ہلکا ہلکا سرُور تھا۔ مدھم سی روشنی میں موجود تحریکی دوستیں نور کے ہالوں کی مانندتھیں۔ یہاں دل اپنائیت کے ایسے احساس سے لبریز ہوا فھا جیسے اب کبھی اجنبیت کا احساس نہ ہوگا۔

کشادہ ہال کا ایک منظر بہت حسین لگتا تھا۔ خوشی دوبالا ہو جاتی تھی جب ٹیلی فونک رابطہ رکھنے والی دوستیں اچانک سامنے آتیں اور بہت مان سے کہتیں “اب بتائیں کہ میں کون ہوں؟” ہم کچھ لمحات تک بدھو بنے کھڑے رہتے۔ پھر خاموشی توڑتے ہوئے آہستگی سے کہتے کہ “نہیں ،مجھے نہیں یاد آرہا، آپ بتادیں نا خود ہی۔” کئی ساختیں تو عین مختلف اور بیشتر ساختوں کے ذہنی تصور میں انیس بیس کا فرق ہوتا۔ سب سے زیادہ مختلف ساخت کے مالک تو بذاتِ خود ہم ہی ٹھہرے تھے۔ یوں محبتیں سمیٹنے میں یہ رات گزری اور فجر کے بعد ہم آڈیٹوریم پہنچ گئے۔ وہ جائے علم، ایک پناہ گاہ، ایک شجر سایہ دار۔ ایک خوبصورت احساس لیے بیٹھے تھے۔ سامنے اسٹیج پر ایک اللہ کی بندی “تدبرسیشن” کنڈکٹ کروا رہی تھیں ۔انہوں نے کہا کہ عین ممکن کہ ہمارے سورة تدبر کے دوران مرکز کی طرف سے کچھ اہم اعلان کرنے پڑ جائیں مگر ہم اعلان کے فورا ًبعد بنا کسی خلل کے اس سیشن کو جاری کرلیں گے ان شاءاللہ۔

ان کی یہ بات ہمیں بہت سخت معلوم ہوئی تھی مگر انشاءاللہ کہہ کر ڈائری کو بمع قلم کے تھامے رکھا۔ چند لمحات ہی گزرے تھے کہ مرکزی اعلان ہوا: “رواں سیشن کے لیے ناظمہ اعلی نے مرکزی شوریٰ  کے مشورے سے فلاں بہن کو فلاں ذمہ داری کے لیئے منتخب کیا ہے”۔ یہاں فلاں بندی سے مراد وہی بندی ہیں جو ہمیں کہہ رہی تھیں کہ “بنا کسی خلل کے تدبر سیشن جاری رہے گا۔” حلف کے بعد آڈیٹوریم میں سرگوشیاں ہونے لگیں دراصل ان کی استقامت کے لیے دعائیں سب اپنے اپنے لبوں پر لارہے تھے۔ میرے ساتھ بیٹھی ایک بہن نے متبسم ہوکر کہا: سورة کا تدبر نہیں اب باجی کے آنسوؤں کا تدبر ہوگا ہم سب ہونٹ بھینچ کے دبی سی ہنسی ہنس پڑے۔ پھر اگلے تمام وقت میں کوئی بھی اگر ذرا سا بھی بن کے بات کرتا تو ہم فورا سے یاد دلوا دیتے کہ چپ ہوجائیں ورنہ تدبر ہوجانا ہے ۔

ایک اور قصہ یاد آگیا۔ جب ڈاکٹر ارشاد بیگ کا (Strengths and Weakness) کے عنوان پر پروگرام ہورہا تھا ۔ سیشن کے اختتام پر ریویو کی غرض سے سر اوپر اٹھایا مگر بے اختیار تلملا اٹھی اور اپنے ساتھ والی بہن سے پوچھا “ہیں۔۔! یہ میری ڈائری کس بچے کے ہاتھ لگ گئی تھی؟” وہ بتیسی نکال کے بولیں: “تابندہ! شکر ادا کریں فری نہیں ہیں دراصل یہ آپ ہی کی نیند کے جھٹکوں کی خطاطی ہے۔ آنکھ جھپکتے، وقت سرک تھا۔ ایک مربی خالہ جان نے اپنے پروگرام کےدوران بہت پیاری بات کہی تھیں کہ لوگ رونا روتے ہیں کہ کسی بھی کام میں برکت نہیں ہے۔ لیکن میں یہ پوچھتی ہوں کہ ہم اپنے مسلمان ساتھی کو برکت کی دعا دیتے ہی کس قدر ہیں؟ برکت کی دعا تو اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہے۔ جبکہ ہم اس مکمل دعا کا بہت کم ہی اہتمام کر پاتے ہیں۔

یہ زندگی کا پہلا سالانہ اجتماع تھا پر اپنائیت کا احساس سر اٹھائے کھڑا تھا اور یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کئی سالوں سے شریک ہو رہی ہوں۔ بس آڈیٹوریم سے حال تک کا فاصلہ بہت طویل معلوم ہو رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ اسے کھینچ کر چھوٹا کردوں۔ مگر کیسے؟ یوں پھر زندگی کا ایک خوبصورت حال ماضی میں تبدیل ہوا۔ اہلِ لاہور کی ضیافت دل کو چھو گئی۔ انتظامات بےحد موثر تھے۔ یہ اجتماع درحقیقت بتدریج استقلال کے اصول پر مبنی تھا۔ جمعیت نے وقت کی عدالت میں زبردست مقدمہ دائر کردیا اور ہمیں عمر بھر دعوت اور تربیت بامشقت کی خوبصورت سزا بھی سنا دی ۔ بھئ! یہ سزا تو ہمیں ہنس کے قبول ہے۔کوئز مقابلے کا تو کیا ہی کہنا۔ بیت بازی تو واقعی بازی لے گئی۔ الحمداللہ علی کل حال ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیانظم بھی بنا اور پختہ عزائم بھی حاصل ہوئے۔ یہ اللہ کا احسان ہے کہ نئے آنے والوں کے لیے محبت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے اور پرانوں سے انسیت کم بھی نہیں ہوتی بلکہ دوام حاصل ہوجاتا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور یوں روشن لمحات کا سورج کل کی یادوں میں تبدیل ہو گیا۔ دعاگو ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جمعیت کو گرم لہو کی حدت کا دوام بخشیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply