برداشت

برداشت
قوم، قبیلے، لوگ نہ صرف اپنی طاقت جمع کرتے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً اسے بڑھاتے ہیں مگر صد افسوس ہم اپنی قوت کھو رہے ہیں۔ قوتِ برداشت سب سے بڑی قوت ہوتی ہے بولنا سب ہی چاہتےہیں مگر سننا کوئی نہیں چاہتا۔ تنقید ہر شخص کر لیتا ہے مگر برداشت کوئی نہیں کرتا۔ ہم دوسروں کو سکھا رہے ہوتے ہیں مگر خود سیکھنا نہیں چاہتے۔ شوہر کھانا دیر سے ملنا، عورت کا زبان چلانا برداشت نہیں کرتا چیختا چلاتا ہے کمزور ذات پر ہاتھ اٹھاتا ہے جب تک غصہ اتر نہیں جاتا بیچاری کی ایک آدھ ہڈی ٹوٹ چکی ہوتی ہے ۔زرا سی بات پر علیحدگی کی دھمکی دیتا ہے۔ بیوی شوہر کا دیر سے گھر آنا خواہشات پوری نہ کرنا برداشت نہیں کرتی احتجاج کرتی ہے بدتمیزی سے بولتی ہے۔ وہ کہتا ہے اب چپ بھی کرو یہ اور بولتی ہے دل کی بھڑاس نکالتی ہے بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے ،گھر اُجڑ جاتا ہے بچے دربدر ہوجاتے ہیں۔ باپ اولاد کا نافرمان ہونا منہ پھٹ ہونا برداشت نہیں کرتا دیر سے گھر آنے پر مار پیٹ کی جاتی ہے۔ وہ ڈھیٹ ہوجاتا ہے پھر اس پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی ،تنگ آکر جائیداد سے عاق کردیا جاتا ہے۔ اولاد والدین کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت نہیں کرتی بچہ گھر چھوڑ دیتا ہے غلط لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے مستقبل تباہ کر لیتا ہے۔ ساس بہو کا جھگڑا نوک جھونک دوسرے کی بات کا غصہ کرنا معمول بن چکا ہے بیوی کہتی ہے تمہاری امی نے مجھے یہ کہا ماں کہتی ہے تمہاری بیوی نے مجھے یہ کہا گھر کا سکون تباہ ہوجاتا ہے ۔سیاسی پارٹی تنقید نہیں کرنے دیتی کسی کے منشور کے خلاف بات کہہ دی جائے تو جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے ایک پارٹی کا کارکن دوسری پارٹی کے کارکن کو ماں بہن کی گالیاں دے رہا ہوتا ہے کسی نامور شخص کے حوالے سے سوال برداشت نہیں کیا جاتا اسکے چاہنے والے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں ،تمہاری یہ جرات تم نے سوال کیسے کرلیا تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟ اس طرح کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔
ایک مسلک کا پیروکار دوسرے مسلک کو جہنمی کہہ رہا ہے دوسرا تیسرے کو دوزخی کہہ رہا ہے تیسرا دونوں کو نہیں مانتا ایک مسلک دوسرے کی کوئی بات برداشت نہیں کرتا بس خود کو بڑا دیندار اور جنتی سمجھتا ہے اسلام کا ٹھیکیدار مولویت پر تنقید برداشت نہیں کرتا۔ مولوی پر تنقید اسلام پر تنقید سمجھی جاتی ہے اور کفر قتل کا فتوی آجاتا ہے۔ صحافی گالی برداشت نہیں کرتا ،لکھنا چھوڑ دیتا ہے یاجوابی گالی دیتا ہے۔ ادارے کسی بھی طرح کی نکتہ چینی سننے کے لئے تیار نہیں ان کے نزدیک لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہوتا ہے اگر کوئی کچھ کہہ دے تو اسے اُٹھا کر پار کر دیا جاتا ہے یا غائب۔ بے گناہ ناانصافی برداشت نہیں کرتا عدالتیں اس کے خلاف فیصلہ دے دیں تو وہ مسلح جدوجہد کرنے لگتا ہے ملک و ملت سے نفرت کرنے لگتا ہے اسلحے کے زور پر طاقت کا استعمال کرکے اپنا حق لینے کی کوشش کرتا ہے غرض آپ زندگی کا کوئی شعبہ دیکھ لیں سب میں برداشت کی کمی ہے۔ حوصلہ صبر بہت سارے مسائل حل کر سکتا ہے برداشت کرنا سیکھیں تب ہی معاشرہ جنت بن سکتا ہے ہر شخص کا مزاج خیال ایک سا نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے جو رنگ آپ کو پسند ہے وہی رنگ دوسرے کو سخت ناپسند ہو زندگی کا پہیہ رواں رکھنا چاہتے ہیں تو مخالف کی رائے سر آنکھوں پر رکھیں۔ آپ نے رستم زمان گاما پہلوان کا قصہ سنا ہو گا ہندوستان نے آج تک اس جیسا دوسرا پہلوان پیدا نہیں کیا‘ ایک بار ایک کمزور سے دکاندار نے گاما پہلوان کے سر میں وزن کرنے والاباٹ مار دیا گامے کے سر سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے‘ گامے نے سرپر کپڑا لپیٹا اور چپ چاپ گھر لوٹ گیا لوگوں نے کہا’’ پہلوان صاحب آپ سے اتنی کمزوری کی توقع نہیں تھی‘ آپ دکاندار کو ایک تھپڑ مار دیتے تو اس کی جان نکل جاتی‘‘ گامے نے جواب دیا ’’مجھے میری طاقت نے پہلوان نہیں بنایا‘ میری برداشت نے پہلوان بنایا ہے اور میں اس وقت تک رستم زمان رہوں گا جب تک میری قوت برداشت میرا ساتھ دے گی‘‘ اسی لئے کہا جاتا ہے برداشت بزدلی نہیں زندگی کا ایک اہم اصول ہے جس دل میں قوت برداشت ہو وہ کبھی ہار نہیں سکتا۔ اب آپ پر منحصر ہے جیتنا چاہتے ہیں یا ہارنا۔

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply