• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خلافت سے کربلا تک : حضرت عمر رضی الله عنہ کا انتخاب (چوتھی قسط )

خلافت سے کربلا تک : حضرت عمر رضی الله عنہ کا انتخاب (چوتھی قسط )

جب حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کو منصب خلافت سنبھالے دو سال گزرے تو آپ کی طبیعت خراب ہوئی۔ اس دوران آپ نے اصحاب رسول صلی الله علیہ سے مشورہ کیا اور اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کے بارے میں ان کی رائے طلب کی۔ آخر آپ کی نظر حضرت عمر رضی الله عنہ پر ٹھہری اور آپ نے ان کا نام اپنے جانشین کے طور پر اہل حل و عقد کے سامنے رکھا جس کو تمام افراد ملت اسلامیہ نے متفقہ طور پر منظور فرما لیا۔ اس کے بعد آپ کی وفات ہو گئی ، صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق اس وقت آپ کی عمر ٦٣ برس تھی –

حضرت عمر کی نامزدگی کے سلسلے میں آنے والی کچھ روایات جن سے اس سارے عمل کے بارے میں آگاہی ملتی ہے مندرجہ ذیل ہیں:
" عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ أَبِي دَخَلَ عَلَيْهِ فُلانٌ وَفُلانٌ فَقَالُوا: يَا خَلِيفَةَ رَسُولِ اللَّهِ مَاذَا تَقُولُ لِرَبِّكَ إِذَا قَدِمْتَ عَلَيْهِ غَدًا وَقَدِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْنَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ: أَجْلِسُونِي. أبا لله تُرْهِبُونِي؟ أَقُولُ اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ خَيْرَهُمْ."
"حضرت عائشہ رضی الله عنہ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد کی بیماری زیادہ شدید ہوگئی تو فلاں فلاں ان کے پاس آئے اور کہا " اے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلیفہ، جب کل آپ اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے تو آپ ان سے کیا کہیں گے جبکہ آپ نے ہم پر عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے ؟ " اس پر حضرت ابو بکر نے کہا مجھے بٹھاؤ ! تم مجھے اس بارے میں اللہ سے ڈرا رہے ہو ؟ میں اس سے کہوں گا کہ میں نے ان میں سے بہترین کو ان پر خلیفہ مقرر کیا تھا۔ "
(طبقات ابن سعد، جز ٣ ، صفحہ ٢٠٧ ، و سندہ حسن لذاتہ)

جب حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کر دیا تو تمام لوگوں نے ان کی بیعت کر لی۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں :
دَخَلْتُ عَلَى عُمَرَ حِينَ طُعِنَ فَقُلْتُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَسْلَمْتَ حِينَ كَفَرَ النَّاسُ، وَجَاهَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَذَلَهُ النَّاسُ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْكَ رَاضٍ، وَلَمْ يَخْتَلِفْ فِي خِلَافِتِكَ اثْنَانِ، وَقُتِلْتَ شَهِيدًا، فَقَالَ: «أَعِدْ عَلَيَّ فَأَعَدْتُ عَلَيْهِ» ، فَقَالَ: "وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، لَوْ أَنَّ لِي مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ صَفْرَاءَ وَبَيْضَاءَ لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ هَوْلِ الْمَطْلَعِ"
"اے امیر المومنین آپ کو جنت کی بشارت ہو ! آپ اس وقت ایمان لائے جب لوگوں نے کفر کی روش اپنائی۔ آپ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت جہاد کیا جب لوگوں نے ان کو تنہا چھوڑ دیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ سے راضی فوت ہوئے اور آپ کی خلافت پر دو بندوں نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ اور آپ کو الله نے شہادت سے نوازا- "
اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا "ذرا دوبارہ دہرانا- "جب میں نے ایسا کیا توانہوں نے فرمایا :"بخدا اگر میرے پاس دنیا کی ساری چاندی اور سونا ہوں تو میں اس کو قیامت کے دن کی ہولناکی سے بچنے کے لیے فدیہ دے دوں "
(التعليقات الحسان على صحيح ابن حبان ، حدیث نمبر ٦٨٥٢ و فی المستدرک الحاکم ، حدیث نمبر ٤٥١٥،و قالالبانی سندہ صحیح )

یہاں ہم اس شبہ کا ازالہ لازمی سمجھتے ہیں جو مروان بن حکم کا پیدا کردہ ہے اور آج تک محبان ملوکیت کو محبوب ہے۔ یعنی حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کی طرف سے حضرت عمر کی نامزدگی پر یزید کی ولی عہدی کو قیاس کرنا۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں اس بارے میں اپنی رائے نقل کرنے کی بجائے خود حضرات شیخین رضی الله عنہم کے صاحبزادوں کی طرف سے قیاس فاسد کی مذمت نقل کر دیں۔ ویسے بھی کہاں السابقون الاولون کے سردار ابو بکر رضی الله عنہ اور کہاں فتح مکہ کے دن معافی پا کر اعلان اسلام لانے والے حضرت معاویہ رضی الله عنہ۔ اور کہاں مراد رسول ، حضرت عمر رضی الله عنہ اور کہاں مردود امت یزید!

پہلے حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے بیٹے کے الفاظ میں اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں :
صحیح بخاری کی ایک حدیث اور اس کی شرح ملاحظہ ہو "حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، قَالَ: كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ فَخَطَبَ، فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ لِكَيْ يُبَايَعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ: خُذُوهُ، فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ فَلَمْ يَقْدِرُوا، فَقَالَ مَرْوَانُ: إِنَّ هَذَا الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ، {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي} [الأحقاف: 17]، فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الحِجَابِ: «مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنَ القُرْآنِ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِي"
(صحیح البخاری حدیث نمبر٤٨٢٧)
"جب حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے مروان کو حجاز کا امیر بنا کر بھیجا تو اس نے (مسجد نبوی میں) خطبہ دیا اور اس میں اس بات کا ذکر کیا کہ معاویہ رضی الله عنہ کے بعد ان کے بیٹے یزید کی بیعت کرلی جائے توحضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی الله عنہ نے اس کو کوئی بات کہی_ جس کو سن کر مروان نے کہا پکڑ لو اس کو، اتنے میں وہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے حجرے میں داخل ہو گئے۔ تب مروان نے کہا یہی ہے وہ جس کے بارے میں قران کی یہ آیت اتری ہے "وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي" یعنی "اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم پر تف ہے کیا تم مجھے یہ وعدہ دیتے ہو کہ میں قبر سے نکالا جاؤں گا۔ " اس پر حضرت عائشہ نے اپنے حجرے سے کہا "ہمارے بارے میں الله نے میری براءت والی آیات کے علاوہ کوئی آیت نازل نہیں کی "

امام بخاری نے ابنِ ابوبکر رضی الله عنہ کے الفاظ نقل کرنے کی بجائے صرف "شیا" کا لفظ کہا ہے مگر امام ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے دوسری احادیث پیش کر کے ان الفاظ کی تفصیل بیان یوں بیان کی ہے " فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مَا هِيَ إِلَّا هِرَقْلِيَّةٌ " یعنی یہ ولی عہدی ہرقلیت ہے۔" اس کے جواب میں مروان نے کہا "سُنَّةُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ " ابوبکر اور عمر کی سنت ہے۔" اس پر حضرت عبدالرحمن نے کہا "سُنَّةُ هِرَقْلَ وَقَيْصَرَ" یہ قیصر و کسریٰ کی سنت ہے۔
(فتح الباری، جز8 )

حضرت عمر رضی الله عنہ کے بیٹے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے جب حضرت معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی بیعت کی دعوت دینے کے لیے ملاقات کی تو حضرت عبدالله بن عمر نے اس سے انکار کرتے ہوئے ان کو کہا :
"فَإِنَّهُ قد كَانَت قبلك خلفاء لَهُم أَبنَاء لَيْسَ ابْنك بِخَير من أبنائهم فَلم يرَوا فِي أبنائهم مَا رَأَيْت أَنْت فِي ابْنك"
" یہ خلفاء الراشدین کی سنت نہیں ہے، خلفاء راشدین کے بھی بیٹے موجود تھے، پھر وہ کون سی خوبی ہے جو ان کو تو اپنے بیٹوں میں نظر نہیں آئی اور آپ کو یزید میں نظر آ گئی ہے ؟"
(تاریخ خلیفہ بن خیاط ، و قال الصلابی سندہ صحیح )

Advertisements
julia rana solicitors

ان دونوں روایات سے واضح ہے کہ یہ استخلاف کسی قریبی رشتے کی بنیاد پر نہیں بلکہ امت کے ایک بہترین آدمی کی طرف سے دوسرے بہترین آدمی کی نامزدگی تھی جس کو امت نے صدق دل سے بغیر کسی خوف یا لالچ کے قبول کیا۔ اور یزید کی ولی عہدی میں کس طرح دھونس اور رشوت سے کام لیا گیا یہ آپ آگے آنے والے ابواب میں پڑھ لیں گے۔

Facebook Comments

حسنات محمود
سائنس و تاریخ شوق، مذہب و فلسفہ ضرورت-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply