سوسائٹی اور سکینڈلز۔۔فرزانہ افضل

عام طور پر لوگوں کو یہ شکایت کرتے ہوئے پایا جاتا ہے، لائف بہت بزی ہو گئی ہے ، مشینی دور ہے، ایک دوسرے کے لئے وقت ہی نہیں، خود غرضی اور نفسانفسی عام ہو گئی ہے ، “صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یونہی تمام ہوتی ہے” ، کے مصداق زندگی ہے کہ بھاگے چلے جا رہی ہے۔ مگر حیرت ہے کہ ان سارے عوامل کے باوجود ہماری ساؤتھ ایشین کمیونٹی خصوصاً پاکستانی کمیونٹی کے پاس اس قدر فالتو وقت ہے کہ وہ ہر دم اسی کوشش میں مصروف ہیں کہ لوگوں کی ذاتی زندگی کے بارے میں ٹوہ لگائی  جائے بلکہ ایک مسلسل انفارمیشن سسٹم قائم رہے کہ کون کیا کر رہا ہے ، کسی کی پرسنل لائف میں کیا چل رہا ہے اور اگر کسی کی زندگی میں کوئی مسئلہ درپیش ہو گیا تو وہ پوری کمیونٹی کی انٹرٹینمنٹ کا باعث بن جاتا ہے، بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلائی  جاتی ہے۔ چینی سرگوشی کی طرح اصل بات کی شکل اور زاویہ بگڑتا اور حجم میں پھیلتا چلا جاتا ہے۔ آپ اپنی روزمرہ کی زندگی سے بور ہو گئے ہیں اور آپ کو تفریح چاہیے تو چھٹیاں منانے چلے جائیں شہر میں میلے ٹھیلے پر چلے جائیں، زیادہ نہیں تو گھر میں کوئی اچھی سی فلم نیٹ فلیکس پر دیکھیں ، عید کے موقع پر اچھی پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں جو پروڈکشن کمپنیز نے نہایت محنت اور کثیر سرمایہ کے ساتھ تیار کی ہوتی ہیں۔ ان کو جا کر سپورٹ کریں۔ اپنی خود کی مفت کی پروڈکشن کمپنی کھول کر نہ بیٹھ جائیں ، جس میں بغیر کسی سرمائے کے آپ مفت میں پلاٹ گھڑ کر لوگوں کی زندگیوں پر فلم اور ڈرامے تخلیق کرتے رہیں اور دوست احباب کو اپنا تخلیق کردہ اسکرپٹ سناتے رہیں۔ کسی پر کوئی مصیبت یا بُرا وقت آ جائے تو اس کا خوب مزہ لیا جاتا ہے، یہ بات بھول کر کہ خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے، اور یہ حمام جہاں سب ہی ننگے ہیں اور کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں، کوئی بھی کسی بھی وقت خدا کی پکڑ میں آ سکتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ ہماری کمیونٹی میں بدقسمتی سے ایک اور نہایت گھٹیا مائنڈ سیٹ پایا جاتا ہے۔ کہ کوئی مرد اور عورت کسی تنظیم کا حصّہ ہوتے ہوئے ساتھ میں کام کر رہے ہوں، تو ہماری کمیونٹی کے “کریٹو ہیڈز” یعنی تخلیقی شعبے کے سربراہان جھٹ سے سکینڈل گھڑ کے مارکیٹ میں ریلیز کر دیتے ہیں۔ گو کہ اردگرد نظر آنے والے خواتین و حضرات نے بنیادی تعلیم ہی حاصل کی ہے اور ان کو اعلیٰ  تعلیم کے مواقع نہیں ملے ہیں مگر زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ دنیا اور زمانے سے تو کافی سبق حاصل کیا ہوگا اور ہر دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوں گے یونیورسٹی کی مخلوط تعلیم سے لے کر جاب اور بزنس میں ہر جگہ مرد عورت شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ تو بھئی آپ اس طرح ہر کسی  کے بارے میں من  گھڑت افواہیں پھیلانا شروع کریں گے تو کہاں کہاں پورے آئیں گے۔ یا شاید ایسے لوگوں کی دماغی طاقت اور صلاحیت اتنی مضبوط ہوتی ہے اور ان کو شرارت بازی کرنے کی اس قدر عادت ہوتی ہے کہ جب تک وہ کوئی گوسپ نہ کریں ان کو کھانا ہضم نہیں ہوتا، رفع حاجت کو نہیں جا سکتے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں سازشی مائنڈ سیٹ کی بھی کمی نہیں۔ سازش یا مداخلت محض حکومتی سطح پر ہی نہیں ہوتی، مقامی تنظیمیں بھی اس کام میں کافی ماہرانہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ مخالفین کو بدنام کرنے کی سازشیں اور منصوبہ بندی کی جاتی ہے ، ان سے بدلہ لینے کے لیے نت نئے ہتھیار اور گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پھر سے یاد دلا دوں اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں ، جن کے بارے میں آپ سازشیں اور پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں، موقع پاتے ہی وہ بھی آپ کو پچھاڑ دیں گے ، تب آپ کہیں منہ دکھانے لائق نہ رہیں گے ، لہذا بہتر ہے اپنے کام سے کام رکھیں، پازیٹیو طریقے سے اپنی اپنی تنظیمیں چلائیں اور دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہ کریں ۔

سوشل میڈیا کا استعمال جب سے عام ہوا ہے ہر دوسرا شخص اس پر سوار ہے ، خصوصاً جب سے عمران خان کی حکومت پر عدم اعتماد کی تحریک کا آغاز ہوا تھا تب سے ہر شخص خود کو تجزیہ نگار سمجھنے لگا ہے۔ چاہے وہ پروفیشنل تجزیہ نگار ہے یا نہیں، اپنی رائے کا اظہار ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر تجزیہ نگار کا تجزیہ ہر موضوع پر درست ہو کیونکہ ہر شخص ہر معاملے پر اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق رائے کا اظہار کرتا ہے اور اس کا تجزیہ کس حد تک درست ہے اس کی تصدیق تو پڑھنے والے ہی کر سکتے ہیں۔ ایک اچھے اور پروفیشنل تجزیہ نگار کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ دونوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر غیرجانبدارانہ تجزیہ کرے ، مگر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے چند تجزیہ نگار محض یکطرفہ کہانی سن کر معاملے کی جانچ اور تحقیق کیے بغیر سوشل میڈیا پر لیکچر جھاڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کا اولین مقصد اپنے فالورز کو انگیج رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ لکھنا ہوتا ہے لہٰذا وہ بنا اس بات کی تمیز و تفریق کے ، کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ، کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ ، فیس بک کے فریم پر اپنے خوبصورت تجزیئے کی تصویر آویزاں کر دیتے ہیں۔ بھئی کسی وقت آپ کے پاس لکھنے کے لیے وقت نہیں، یا ذہن میں کوئی مناسب موضوع نہیں، تو بھلے کوئی شعر و شاعری، گانا، اقوال زریں کچھ بھی پوسٹ کر دیں، بجائے اس کے کہ آپ غیر موزوں، بے تکے، بے حقیقت اور جانبدارانہ تجزیہ یا ڈائیلاگ لکھیں۔ انکے نادر علم میں اضافے کے لیے ایک بات عرض کردوں کہ ہر معاملے میں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم نہیں ہوتا، بہت سے معاملات میں دونوں فریقین اپنے اپنے فائدے کے لیے ایک دوسرے کا استعمال اور استحصال کر رہے ہوتے ہیں اور جونہی ایک فریق ، کسی وجہ سے دوسری پارٹی کو مہیا کیے جانے والے مفادات سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو وہ پارٹی انتقامی کارروائی کے طور پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوں تو ہماری کمیونٹی مذہب کا پرچم بہت بلند کرتی ہے مگر مذہب کے تعین کردہ طور طریقوں پر عمل کرنا تو دور کی بات، اسلام کے اخلاق و ضوابط کی بھی سمجھ نہیں رکھتی۔ مذہب پرستی کے ساتھ ساتھ اخلاق پرستی اور انسانیت پرستی بھی سیکھ لیجیے۔ دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلانا ، سکینڈلز بنانا اور سازشیں کرنا چھوڑ دیجئے۔ بہتر ہے کہ اپنے گھر اور فیملی کے مسائل پر توجہ دیں۔ استغفار اور لاحول کثرت سے پڑھیں تاکہ ذہنوں اور دلوں میں موجود شیطان سے چھٹکارا پا سکیں۔
نوازش کرم شکریہ مہربانی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply