پاکستان کی سیاست کے انداز ہی نرالے ہیں۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں مسائل کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے، تو کبھی یہ ملبہ سیاسی جماعتوں پر آن گرتا ہے۔ عمران خان کی حکومت ہٹائے جانے کے بعد ملک مسلسل سیاسی و معاشی بحرانوں کا شکار ہے۔ ملکی معیشت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے، جبکہ سیاسی بحران کے باعث ملک کے انتظامی اُمور بھی ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ بیوروکریسی اپنے ذمہ کوئی منصوبہ لینے کو تیار ہی نہیں، افسران سیاسی حکام کے منتظر ہیں اور انہی کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث بیورو کریسی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ سیاسی کارکن پریشان ہیں کہ عمران خان کو آنے دیا جا رہا ہے، نہ مسلم لیگ نون سے حکومت چل رہی ہے۔ مہنگائی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جس کے باعث مسلم لیگ نون کی حکومت کا گراف تیزی سے نیچے جا رہا ہے اور اس سے عمران خان کے اس بیانیئے کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ چور حکمران ہیں، جو اقتدار میں آتے ہی لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں۔
حالیہ سیاسی بحران میں ایک اور رائے بھی زیر بحث ہے کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی ہے۔ آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے مُہرے کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہے ہیں اور اُن کا مقصد صرف مسلم لیگ (ن) کو “گندہ” کرنا ہے۔ اس منصوبے میں آصف علی زرداری صاحب کامیاب بھی جا رہے ہیں کہ مسلم لیگ نون کی مقبولیت حکومت میں آنے سے جتنی کم ہوئی ہے، ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اب یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان اور شہباز شریف کو ایک میز پر بٹھانے کی پیشکش کر دی ہے اور اس “ملاقات” میں آئندہ کے انتخابات کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا اور اکتوبر میں انتخابات کروا دیئے جائیں گے۔ اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ “نرم مداخلت” کرے گی۔
اسٹیبلشمنٹ پہلے تو یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ ان کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں، مگر اب یہ حقیقت بے نقاب ہوچکی ہے کہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔ مداخلت، مداخلت ہی ہوتی ہے، چاہے وہ نرم مداخلت ہو یا سخت۔ لیکن سیاسی جماعتوں کی قیادت کے پاس ایسی پاک دامنی نہیں کہ وہ ڈٹ کر سٹینڈ لے سکے۔ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ سیاستدانوں کو استعمال ہی کیا ہے اور بقول جنرل ضیاء الحق، یہ سیاستدان دُم ہلاتے ہوئے میرے پیچھے آئیں گے، یہ جملہ صرف جنرل ضیاء الحق کا نہیں، بلکہ ہر آمر کا یہی موقف رہا ہے اور سیاستدانوں نے بھی ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں۔ جس سیاستدان نے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کی، اسے مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا۔
اب جب نرم مداخلت کی بات پر اسٹیبلشمنٹ بے نقاب ہوئی تو ایک صحافی نے اس کو بھی “کور” کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے ٹویٹ میں لکھ دیا کہ “ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے مجھ سے گفتگو میں ملٹری لیڈرشپ کی سیاسی معاملات کسی قسم کے مذاکرات کے آغاز اور دلچسپی سمیت تمام خبروں کو پوری شدت سے مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر میڈیا سے درخواست کی کہ ان معاملات میں فوج کی ممکنہ ظاہری یا باطنی مداخلت کی افواہوں سے گریز کریں۔” اس ٹویٹ سے کوشش کی گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سائیڈ پر ہی رکھا جائے، مگر جو دکھائی دیتا ہے، وہ کیسے چھپایا جا سکتا ہے۔ یہاں راقم یہ خبر دے رہا ہے کہ اب نون لیگ کی توپوں کے رخ بھی فوج کی طرف ہونیوالے ہیں اور معاملات کو سنبھالا نہ گیا تو بہت جلد نون لیگ بھی فوج کو ہدف تنقید بناتی دکھائی دے گی، کیونکہ مریم نواز کی جانب سے سپریم کورٹ کے بنچ پر تنقید اس کی واضح مثال ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو۔
نون لیگ سمیت سیاسی جماعتیں جہاں اپنا مفاد دیکھتی ہیں، وہاں سب کچھ قربان کر دیتی ہیں اور جب مفاد ختم ہوا، کپڑے جھاڑ کر اُٹھ جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ان اداروں کو ہی غیر جانبدار سمجھتی ہیں، جو ان کے حق میں فیصلہ دیں، فیصلہ اگر مخالفت میں آگیا تو یہ دھاندلی اور جانبداری کا الزام لگانے میں ذرہ بھی تاخیر نہیں کرتیں۔ سیاسی جماعتوں کی اس روش کو تبدیل ہونا چاہیئے۔ اب نون لیگ کے قائدین کی جانب سے پالیسی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ گذشتہ شب لاہور کے لبرٹی چوک میں مسلم لیگ نون نے سیاسی اکٹھ کیا۔ جس سے خطاب میں وفاقی وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنماء خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی، لیکن اس کے بعض لوگ تاحال نیوٹرل ہونے کو تیار نہیں۔ سعد رفیق نے دھمکی دی کہ ہم چاہتے ہیں کہ لڑائی جنگ میں نہ بدلے، اگر ہمیں دھکیل کر نکالا گیا تو الیکشن نہیں آئے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ قانون بنانے کا حق پارلیمنٹ کو ہے، عدالت آئین کی صرف تشریح کر سکتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پراجیکٹ عمران خان 2011ء میں لانچ کیا گیا اور اب 2022ء آگیا ہے، آج بھی اداروں میں بیٹھے عمران خان پراجیکٹ کے سہولت کار آرام سے نہیں بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء میں ہمارے منڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، ہماری قیادت کو جیلوں میں ٹھونسا گیا، لیکن ہم نے ریڈ لائنز عبور نہیں کیں۔ خواجہ سعد رفیق کے بقول اسٹیبلشمنٹ میں آج بھی عمران خان کے حامی موجود ہیں۔ کچھ تجزیہ کار بہت جلد نگران سیٹ اَپ کی پیش گوئیاں بھی کر رہے ہیں، کیونکہ سیاسی سیٹ اپ میں اس بار عوامی مینڈیٹ کی کھل کر تذلیل کی گئی ہے۔ کل کلاں جو کام چھپ چھپا کر ہوتے تھے، اب کھلے عام ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری نے چودھری شجاعت سے سرِعام ملاقاتیں کیں اور حمایت حاصل کی۔
عوامی حلقوں میں تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کیوں الیکشن کے انعقاد پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتا ہے، الیکشن کمیشن کو چاہیئے کہ یہ کروڑوں روپے بچائے اور آصف زرداری کو ٹاسک دیدیا جائے، جسے وہ چاہیں، اپنا من پسند عہدہ اسے دیدیں۔ جب ہونی ہارس ٹریڈنگ ہے تو عوامی ووٹ کی تو کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ عوام اس صورتحال سے کافی نالاں ہیں۔ آصف علی زرداری کے ان اقدامات نے بھی سیاسی جماعتوں کی ساکھ متاثر کی ہے۔ سیاسی جماعتیں اگر واقعی ملک سے مخلص ہیں تو انہیں سیاسی انداز میں ہی کام کرنا ہوگا، اسٹیبلشمنٹ اپنے دائرہ کار میں رہے، نرم ہو یا سخت، کسی قسم کی مداخلت سے گریز کرے۔ ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی کی جائے، یہ جس طرف سے بھی ہو، قابل مذمت ہے۔ اس کیساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت بھی کریں۔ سیاسی ماحول میں آنیوالی شدت پسندی نقصان دہ ہے۔ اس کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں