وہ ایک خط۔۔پروفیسر رفعت مظہر

یوں تو پاکستانی سیاست میں کچھ بھی نا ممکن نہیں لیکن عمران خاں کے سیاست میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کوئی قسط وار ڈرامہ دیکھ رہے ہوں جس کی ہر قسط سسپنس کا شاہکار ہوتی ہے۔ ہمارے تجزیہ نگار اور لکھاری ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن “کَکھ” ہاتھ نہیں آتا۔ موجودہ سیاست پر زیادہ تر لکھاریوں کے ارسطوانہ تبصرے پُرمغز تو نہیں ہوتے البتہ دلچسپ ضرور ہوتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے بھی سِکّہ بند تجزیہ نگار کہلانے کا شوق پال رکھا ہے۔ یہ الگ بات کہ اُن کے تجزیے لال حویلی والے کی پیشین گوئیوں کی طرح غلط ہی ثابت ہوتے ہیں۔ تسلیم کہ ہمارے پاس کوئی خبری طوطا، مینا، چڑیا، کوّایا کبوتر نہیں۔ ہم تو جو دیکھتے اور سنتے ہیں اُسی سے نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاََ جب ہم عمران خاں کے بارے میں کہتے ہیں کہ

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو

تو کچھ غلط بھی نہیں کہتے کیونکہ عمران خاں کا ماضی گواہ ہے کہ اُنہوں نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے کپتان کا ماضی کھنگالا ہوتا تو وہ کبھی اُس پر داؤ نہ کھیلتی۔ ہم یہاں خاں کی نجی زندگی کی بات نہیں کر رہے کہ یہ اُن کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔ ہم تو اُن کی زندگی کے اُن پہلوؤں کو سامنے رکھ رہے ہیں جن کا تعلق خلقِ خُدا کے ساتھ ہے۔ اپنے کزن ماجد خاں سے لے کر آج تک اُنہوں نے ہمیشہ مطلب پرستی سے ہی کام لیا۔ اُن کے قریبی ساتھیوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے جی جان سے اُن کا ساتھ دیا لیکن مطلب نکلنے کے بعد اُنہیں دھتکار دیاگیا۔ اگر اُن کی بے وفائیوں کا ذکر کرنے لگیں تو یہ کالم کم پڑ جائے گا۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب اُن کی مطلب پرستی اِس حد تک جا پہنچی کہ اُنہوں نے ملکی مفاد کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا اور محض حصولِ اقتدار کی خاطر کبھی پاکستان کو خُدانخواسطہ سری لنکا بنا دینے کی دھمکیاں دینی شروع کیں اور کبھی پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے جیسے نحوست بھرے الفاظ کہنا شروع کیے تو پھر ہر محبِ وطن پاکستانی کا یہ فرض ہے کہ اُن کے ایسے الفاظ کی نفرین کرے۔ سبھی جان چکے کہ اُن کی پوری سیاست نفرت، جھوٹ اور ڈرامے بازی پر مبنی ہے۔ وہ جھوٹ اِس تواتر سے بولتے ہیں کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ حقیقت یہ کہ اگر 2014ء کے دھرنے میں اسٹیبلشمنٹ نے اُنہیں ڈھیل نہ دی ہوتی تو آج پاکستان اِس حال میں نہ پہنچتا۔

جب اپوزیشن نے عمران خاں کے خلاف آئینی طریقے سے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تو پہلے اُس نے کہا

کہ ” ایک بال سے تین وکٹیں گراؤں گا” پھر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کے لیے تاخیری حربے استعمال کرنے شروع کیے اور جب اُسے یقین ہو گیا کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی تو 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں جیب سے سفید کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر لہراتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ اُس کی حکومت کے خلاف سازش کا ثبوت ہے اور اپوزیش بھی اِس سازش میں ملوث ہے۔ بالآخر جب 8 مارچ 2022ء کو پیش کی جانے والی تحریکِ عدم اعتماد پر 3 اپریل 2022ء کو ووٹنگ کا موقع آیا تو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اِسی سازشی خط کا بہانہ بنا کر تحریکِ عدم اعتماد کو ختم کر دیا۔ ڈپٹی سپیکر کے اِس اقدام کو سپریم کورٹ نے غیرآئینی قرار دیتے ہوئے 9 اپریل کو صبح 10 بجے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا۔ پھر عمران خاں کا ڈرامہ شروع ہوا اور صبح 10 بجے سے لے کر رات پونے 12 بجے تک اسمبلی کا اجلاس بار بار ملتوی ہوتا رہا۔ اِسی دوران رات تقریباََ 10 بجے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کھُل گئے، فوجی گاڑیاں پارلیمنٹ ہاؤس کے گرد چکر کاٹنے لگیں اور پارلیمنٹ کے سامنے قیدیوں کی وین کھڑی ہو گئی۔ تب پونے 12 بجے سپیکر قومی اسمبلی استعفیٰ دے کر چلے گئے اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیرِ نگرانی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور میاں شہباز شریف نے وزیرِاعظم کا منصب سنبھالا۔ اب عمران خاں کہتے ہیں کہ وہ تو پارلیمنٹ کا اجلاس چار پانچ دن لٹکانا چاہتے تھے لیکن اسد قیصر کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ بجا ارشاد مگر اسد قیصر کے مستعفی ہونے سے پہلے آپ بھی ایوانِ وزیرِاعظم چھوڑ کر بنی گالہ پھُر ہو گئے تھے۔ کیا آپ کی ٹانگیں بھی کانپنے لگی تھیں؟

جس امریکی سائفر (خط) کا حوالہ آج بھی عمران خاں دے رہے ہیں اُس سائفر پر قومی سلامتی کمیٹی کے 2 اجلاس ہوئے، پہلا اجلاس عمران خاں کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران اُن کی سربراہی میں ہوا اور دوسرا اجلاس میاں شہباز شریف کی سربراہی میں اُس وقت ہوا جب وہ وزیرِاعظم بن چکے تھے۔ اِن دونوں اجلاسوں میں یہ بتایا گیا کہ عمران خاں کی طرف سے جس سائفر کا حوالہ بار بار دیا جا رہا ہے وہ امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر کا سائفر ہے جس میں کسی امریکی سازش کا ذکر نہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان بھی کہہ چکے کہ امریکہ نے پاکستان کے خلاف کوئی سازش نہیں کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تفصیلی فیصلے میں بھی لکھ دیا گیا کہ اُس کے سامنے امریکی سازش کا کوئی ثبوت نہیں رکھا گیا لیکن عمران خاں کی میں نہ مانوں کی رَٹ برقرار۔ وہ آج بھی امریکی سازش کا بیانیہ لے کر چل رہے ہیں۔ اُن کا مقصد یوتھیوں کو گمراہ کرنا ہے اور وہ یوتھیا ہی کیا جو تحقیق وتصدیق کرے۔ وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ عمران خاں جھوٹ نہیں بولتا حالانکہ وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں بولتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکی خط تو محض ایک ڈرامہ تھا لیکن اب ایک حقیقی خط بھی سامنے آگیا جس نے عمران خاں کی اُمیدوں بھری کھیتی اُجاڑ کے رکھ دی۔ اِس خط کے لکھاری قاف لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین ہیں اور بلاشبہ یہ سیاسی بساط کے ماہر آصف زرداری کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ سچی بات ہے کہ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے کہ اب وزیرِاعلیٰ کے انتخاب میں کچھ نہیں رکھا کیونکہ 180 ووٹوں کے ساتھ 188 ووٹوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ضمنی الیکشن کے بعد تحریکِ انصاف کے 178 ووٹ تھے جبکہ قاف لیگ کے 10 ووٹ شامل کرکے کل تعداد 188 بن جاتی تھی۔ اِس دوران افواہوں کا بازار گرم رہا اور تجزیہ نگار بے پَر کی اُڑاتے رہے۔ کسی نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے 7 ارکانِ اسمبلی تُرکی جا چکے تو کوئی بولا کہ 2 ارکان سعودی عرب میں عمرے کے لیے چلے گئے۔ یہ افواہ بھی اُڑی کہ پی ٹی آئی کے 10 ارکان نے اپنے استعفے حمزہ شہباز کو دے دیئے ہیں۔ مرکزی وزیرِداخلہ رانا ثناء اللہ نے کچھ زیادہ ہی لمبی چھوڑتے ہوئے کہہ دیا کہ پی ٹی آئی کے 5 نہیں 50 ارکان چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ عمران خاں اور حواریوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا کہ نوازلیگ چالیس، چالیس کروڑ میں اُن کے ارکان خرید رہی ہے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر چودھری پرویز الٰہی نے پی سی میں 200 کمرے بُک کروا لیے اور ارکانِ قومی اسمبلی کی وہاں بیٹھ کر نگرانی شروع کر دی۔ کسی ستم ظریف نے یہ بے پَرکی بھی اُڑائی کہ اگر کوئی رکنِ اسمبلی سگریٹ لینے کے لیے بھی جانے کی کوشش کرتا ہے تو چودھری صاحب کہتے ہیں “تُوں بہ جا میں آپے ای لے اوناں آں”۔ بہرحال جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سارے اندازے ہوا ہو گئے اور دونوں طرف ارکان کی تعداد پوری تھی۔ تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد اجلاس شروع ہوا۔ اِسی دوران یہ افواہ بھی گرم ہوئی کی چودھری شجاعت حسین نے قاف لیگ کے صدر کے طور پر ڈپٹی سپیکر کو خط لکھ دیا ہے کہ قاف لیگ کے ارکان کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ووٹنگ کے بعد ڈپٹی سپیکر نے چودھری شجاعت کا خط پڑھ کر سنایا جس کے مطابق قاف لیگ کے ارکان کو حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کا کہا گیا تھا۔ یوں 10 ارکان منہا کرکے حمزہ شہباز کو 3 ووٹوں کی برتری سے منتخب وزیرِاعلیٰ پنجاب قرار دے دیا گیا۔ حمزہ شہباز 23 جولائی صبح 8 بجے گورنر ہاؤس میں حلف اُٹھا چکے۔ عمران خاں کہتے ہیں “میں حیرت میں ہوں جو پنجاب اسمبلی میں ہوا”۔ ہم بھی اُس وقت حیرت میں تھے جب واضح برتری کے باوجود سینٹ میں نوازلیگ کا چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہار گیا اور عمران خاں کا اُمیدوار صادق سنجرانی اقلیت کے باوجود جیت گیا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply