دھرتی کے سنگ بیتے دنوں کی یادیں۔۔شاہد محمود

کنالی (جس میں دہی جمایا جاتا ہے “مٹی کی پرات”) میں سوڈا تیل ملا کے صابن بنا لیا جاتا اور کسی قدرتی ندی نالے نہر وغیرہ کے کنارے یا کسی چلتے ٹیوب ویل کے کھالے پاس بیٹھ کے کپڑے دھو لئے جاتے اور وہیں پھیلا کر سکھائے جاتے، ساتھ ہی ماہیئے ٹپے گا کے گانے سننے سنانے کا ذوق بھی پورا کر لیا جاتا۔ عورتوں میں سے ہی کوئی بی بی سی لندن کا کردار ادا کرتی اور گاؤں بھر کی خبریں ایک دوسرے تک پہنچ جاتیں ۔ آوٹنگ outing یعنی سیر و تفریح بھی ہو جاتی، پکنک کی پکنک، کپڑے بھی دھل جاتے، بچوں کو بھی نہلا لیا جاتا اور گاؤں بھر کی خبریں بھی اک دوجے تک پہنچ جاتیں بسا اوقات تو بچوں کے رشتے ناطے تک طے ہو جاتے ۔ دوسری طرف صبح تڑکے بیلوں کو ہل میں جوت کے کھیتوں میں ورزش و پکنک کاشتکاری (سخت جان جوکھوں کا کام) مرد حضرات کرتے اور مرد شام میں چوپال میں بیٹھ کے حقہ پیتے ہوئے علاقے کیا دنیا بھر کی باتیں کر لیتے ۔ مسئلے مسائل، خوشی غمی سب وہیں درختوں کی چھاؤں تلے حقے کی گڑگڑاہٹ میں بانٹ لئے جاتے، خوشیاں بانٹنے سے بڑھ جاتیں اور غم بانٹنے سے ہلکے ہو جاتے ۔ وہیں کوئی سیف الملوک سناتا، تو کوئی ہیر تو کوئی سسی پنوں یا مرزا صاحباں کی تان چھیڑ دیتا ۔ مرد حضرات میں سے بھی کوئی نہ کوئی وائس آف امریکہ بنا خبریں ادھر سے ادھر پہنچا دیتا ۔ لڑکے بالے زیادہ ہوا تو چھپڑ جسے آپ جوہڑ کہتے ہیں یا نہر میں مجیں (جی جنہیں آپ بھینسیں بلکہ Buffalo کہتے ہیں) نہلاتے ہوئے خود بھی تیراکی چمپئن شپ منعقد کر لیتے ۔ کبھی کبڈی یا والی بال کھیل لیتے اور لڑکیاں شٹاپو، کیکللی کلیر دی پگ میرے ویر دی وغیرہ کھیل لیتیں یا برسات میں پینگ پہ جھولے جھولتیں اور سردیوں کہ لمبی راتوں میں اپنے جہیز کے سرہانوں (جی جی وہی جنہیں آپ تکئے کہتے ہیں) کے غلافوں پہ کڑھائی کرتیں اور بسا اوقات شعر بھی لکھتیں ۔ عورتیں بچے ڈرائی فروٹ کے طور پہ گاچی کھا لیا کرتے تھے جس سے کیلشیئم کی کمی انجانے میں ہی پوری ہو جاتی تھی ۔شام پڑے ماچھن خالہ / چاچی بھٹی تا (آگ جلا کے گرم کرنا) لیتی اور بچے بالے دانے لے کے بھنانے پہنچ جاتے اور جس کے پاس گڑ ہوتا وہ گرما گرم دانوں پہ گڑ ڈال کپڑے میں لپیٹ گڑ والے دانے بنا لیتا ۔ کیا مکئی، گندم، چنے جو میسر ہوتے سب بھنائے جاتے ۔ مکئی کے دانوں کو بھنانے سے پہلے وتر لگا لیتے (ہلکا سا گیلا کرنا) تو بھنائی کے دوران آدھے دانے کھڑ کھڑ پاپ کارن بن جاتے  اور انہی دانوں میں سے کچھ دانے ماچھن خالہ / چاچی بھاڑے (معاوضے) کے طور پہ رکھ لیتی تھی ۔ اور سب سے اہم سوغات تو دودھ دہی گھی بلکہ روز تازہ رڑڑکی جانے والی چاٹی کی لسی تھی ۔ اللہ جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطاء فرمائے میری نانی جان بہشتن کو (آمین) انہیں ہم بےبے جی کہتے تھے وہ جب نور پیر ویلے چاٹی میں مدھانی سے لسی رڑڑک رہی ہوتی تھیں تو جو کلام پاک انہیں زبانی یاد تھا اس کی تلاوت کرتی جاتی تھیں اور ہماری آنکھ کھلتی تھی تو ہم چنی منی آنکھوں ساتھ انہیں دیکھتے ان کے پاس جاتے تو وہ ہمیں گود میں بھر لیتیں اور پھر لسی کے اوپر آیا مکھن ہمارے منہ میں ڈالتیں ، یا اللہ کریم میری نانی اماں جان و تمام مرحومین کی کامل مغفرت فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطاء فرما آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply