نوکری،نوکری،نوکری-غلامانہ سوچ کو بدلیں۔۔چوہدری عامر عباس

ہمیں آزاد ہوئے 75 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ذہن میں آج بھی وہی غلامانہ سوچ اٹکی ہوئی ہے. ملک میں اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کرنے کی بجائے ہر کوئی نوکری ڈھونڈنے کے چکر میں ہے، میں نے بہت کھاتے پیتے گھرانوں کے بچے بھی دیکھے ہیں جو ہاتھ میں سی وی تھامے اپنے ایم این اے، ایم پی اے کے ڈیروں پر ماتھا ٹیک کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بچے کو نوکری دلوانی ہے۔

میں کئی ایسے اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں بچیوں کو جانتا ہوں جو نائب قاصد، چپڑاسی یا دیگر کلاس فور کی نوکریاں کر رہے ہیں۔ دراصل من خیث القوم ہمارا مزاج غلامانہ اور نوکروں والا ہے۔گورے برصغیر پاک و ہند سے چلے گئے مگر غلامی کا کیڑا آج تک ہمارے دماغ سے نکل نہیں پایا اسی لئے ہم ہر وقت نوکری نوکری کا راغ الاپتے رہتے ہیں کہ ایک لگی بندھی آمدن آتی رہے۔ رشتہ ڈھونڈنے کے وقت بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لڑکا نوکری والا ہو چاہے چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہو، کاروبار ترجیح نہیں ہے۔
حالانکہ اگر آپ اپنے اردگرد مشاہدہ کریں تو معمولی سے معمولی کاروبار بھی اچھی بھلی نوکری سے زیادہ آمدن دیتے ہیں۔آزادی، خودمختاری، ذہنی سکون اور وقت گزرنے کیساتھ یقینی ترقی اس کے علاوہ ہے جس کا کوئی مول ہی نہیں ہے۔
پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔یہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بچے انھے واہ ڈگریاں لے لے کر آنکھوں میں پرتعیش نوکریوں کے خواب سجائے یونیورسٹیوں سے نکل رہے ہیں مگر جب مارکیٹ میں آ کر حالات دیکھتے ہیں تو ان میں سے بعض لوگ دلبرداشتہ ہو کر خودکشی تک کر لیتے ہیں یا فارغ رہ کر فضول سوچوں میں نشہ کی لت میں پڑ کر اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی برباد کر لیتے ہیں،میرا ٹارگٹ اس وقت تباہی کے دھانے پر کھڑے یہی بچے بچیاں ہیں،پاکستان میں اتنی نوکریاں کہاں ہیں، جو بچے ڈگری کر چکے ہیں وہ کان کھول کر سن لیں کہ انھیں جلدی نوکری نہیں ملنے والی، کسی ریفرنس کے بغیر کوئی نوکری ملنا دیوانے کا خواب ہے۔ اگر بالفرض نوکری ملے گی بھی تو چند ہزار روپے میں خجل خوار ہونا انکا مقدر ہے۔ پرائیویٹ نوکری میں تو آپکا سیٹھ جب چاہے آپکو نوکری سے نکال دے اور آپ پھر سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوں گے، جو بچے ڈگریاں کر رہے ہیں وہ یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لیں کہ انھیں مستقبل میں نوکری ملنےکا امکان صرف پانچ فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔
بندہ کام کرنے کی پختہ نیت کر لے تو اللہ پاک بھی راستے کھول دیتا ہے بس رہنمائی ہونی چاہیے۔ میرا ارادہ ہے کہ ایک ایسی کیمپن شروع کی جائے جس میں لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ نوکری کے بجائے اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کیجئے جو چار پانچ سال میں اچھی خاصی ترقی کر جائے گا کہ نوکری ڈھونڈنے کے بجائے چند سال میں بہت سے لوگوں کو روزگار آپ خود دے رہے ہوں گے۔ میں نے اپنے اردگرد بغور مشاہدہ کیا ہے اور پورے دعوے  سے کہتا ہوں کہ اگر ایک پڑھا لکھا لڑکا یا لڑکی بہت چھوٹے پیمانے پر بھی اپنا ذاتی کاروبار شروع کرتا ہے تو وہ اَن پڑھ کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے ترقی کرتا ہے، میں نہیں چاہتا کہ جس طرح ہم نے سرکاری و پرائیویٹ نوکریاں کر کر کے اپنی زندگی برباد کی نئے آنے والے بچوں کیساتھ بھی یہی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دراصل ہمارے ہاں صرف رہنمائی کی کمی ہے،میں ذاتی کاروبار شروع کرنے کی ایک کیمپن سوشل  میڈیا پر لانچ کرنا چاہتا ہوں جس میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایک لاکھ روپے سے لے کر پانچ لاکھ روپے تک کے سرمائے کیساتھ اپنے علاقے میں چھوٹا سا کاروبار شروع کرنے سے لے کر اسے مکمل چلانے کے متعلق تمام تر رہنمائی کی جائے۔ کیا میرے دوستوں کی لسٹ میں کوئی ایسا دوست ہے جو  ایسی کمپنی کو جانتا ہے جو مناسب سے معاوضہ کے عوض یہ رہنمائی کر سکیں اور اپنا مناسب سا معاوضہ لے کر ایسے لاکھوں بچوں کو اپنے علاقے میں ہی چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کروا کر اپنے قدموں پر کھڑا کر دیں تاکہ یہ بچے چند سال کے اندر معاشی طور پر مستحکم ہو سکیں۔پلیز مجھ سے رابطہ کیجئے۔ ہم اس پر کام کرتے ہیں اور ان بچوں بچیوں کی رہنمائی کریں گے۔ یاد رکھیں نوکری صرف ایک خاندان پالتی ہے جبکہ کاروبار نسلیں پالتے ہیں۔ ہم اسی طرح ہی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں، چراغ سے چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply