اسلام میں شورائیت کا دائرہ کار۔محمد عمران/قسط2

دنیا میں کوئی ذی شعور انسان شورائیت کی افادیت سے انکار نہیں کرسکتا ہے،  چنانچہ باہمی مشاورت سے امور کو سرانجام دینا از روئے عقل ونقل دونوں ثابت ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ شوری کا دائرہ کار کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں علمائے امت کی تین آراء سامنے آتی ہیں:

اول: فقط عسکری امور میں:

علامہ کلبی رحمہ اللہ اور بقول علامہ ابن حجر علامہ داودی کی رائے یہ ہے کہ شوری کا دائرہ کار جہاد وعسکری امور تک محدود ہے۔

حافظ ابن حجر فتح الباری 13\340  میں لکھتے ہے:

فمنہم من قال: انہ خاص فی امور الحرب ممن لیس فیہ حکم۔

کہ بعض علماء فرماتے ہیں: کہ یہ حکم یہ امور جنگ کے ساتھ خاص ہے جس میں کوئی وحی موجو دنہ ہو۔

اسی طرح  ابو بکر جصاص رحمہ اللہ اس قول کی نسبت کلبی رحمہ اللہ کی طرف کرتے ہے، اور مزید ابن  العربی کے حوالے سے بھی لکھتے ہے:وقال ابو بکر بن العربی : قال علمائنا المراد بہ الاستشارہ فی الحرب ۔

اور ابن عربی رحمہ اللہ فرماتے ہے کہ ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ وشاورہم فی الامر سے مراد امور حرب میں مشاورت ہے۔ (احکام القرآن 1\297)

دوم: دنیاوی امور: 

صاحب کشاف علامہ زمحشری  کی رائے کہ مشاورت صرف دنیاوی امور میں کی جائے گی چاہے اس کا تعلق عسکری امور سے ہو یا غیر جہادی سے ۔چنانچہ علامہ دمیجی لکھتے ہیں :ومنہم من قال : بانہ خاص فی الامور الدنیویة فقط الحربیة وغیر الحربیة قال الزمحشری: فی امر الحرب ونحوہ ممن لم ینزل فیہ وحی۔  (الامامة العظمی)

یہ حکم فقط دنیاوی معاملات تک ہے، چاہے امور حرب وجنگ ہو یا اس کے علاوہ  ، زمحشری فرماتے ہے کہ امور حرب یا اس کی طرح اور معاملات دنیویہ جس میں وحی موجود نہ ہو۔

سوم: دنیوی ودینی دونوں امور  میں:

جمہور علماء کی رائے کہ جس معاملہ میں وحی موجود نہ ہو چاہے وہ اس کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے دونوں میں مشاورت ہوگی۔انہ فی کل امر لیس فیہ نص: قال سفیان بن عیینہ فی قولہ تعالی: وشاورہم فی الامر: ہو للمؤمنین ان یتشاور فیما  لم یاتیہم عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہ اثر۔

بے شک یہ حکم ہر غیر منصوص امر سے متعلق ہے، سفیان بن عیینہ فرماتے ہے کہ وشاورہم والا حکم مسلمانوں کے لیے ہے کہ وہ غیر منصوص امور میں باہم مشاورت کرے۔ (الامامة العظمی، تفیسر الطبری)

قول فیصل:

مذکورہ بالا تینوں آراء کو اگر سامنے رکھا جائے اور عہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،عہد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مجموعی طور پر تعامل امت کو دیکھیں  تو یقیناً  تیسری رائے متوازن اور قرین عقل   نظر  آتی ہے۔ کیونکہ خیر القرون کی مشاورتوں کی استقصاء سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مشاورت کا دائرہ کار نہ فقط امور حرب تک ہے اور نہ ہی فقط دنیاوی امور تک  بلکہ جس امر سے متعلق وحی موجود نہیں ہے ان تمام امور میں مشاورت کی جاسکتی ہے۔اس کی طرف علامہ دمیجی اشارہ فرماتے ہے:

بعد النظر واستعراض المجالات التی تشاور النبی فیہا اصحابہ نجدہا لیست محصورة فی الامور المتعلقة بشؤو ن الحرب صحیح ان ا کثر حالات الشوری التی تمت فیہ عہدہ کانت فی امور الحرب ولکنہا لم تقصر علی ذلک بل شملت ایضا کثیرا من الامور الدنیویة الاخری ذات الاہمیة والخطر بالنسبة الی الجماعة ومستقبلہا، والامور الشرعیة الاجتہادیة التی لم یرد فیہا نص او فی التی ورد فیہا نص بعد الاجتہاد یقرر ہذہ الاجتہاد او یقومہ ویصلح اعوجاجہ۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ سے مشاورت کے  مواقع پر تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف جنگی امور تک محصور نہیں تھے،  ہاں یہ بات صحیح ہے  کہ مشوروں کے اکثر مواقع جنگی تھے لیکن صرف جنگ تک محصور نہیں تھے بلکہ بہت سارے  دنیوی و شرعی اجتہادی غیر منصوص  امور  میں مشاورت پر وہ مواقع مشتمل ہیں۔الغرض: جمہور علمائے امت کے نذدیک مہتم بالشان غیر منصوص  تمام امور میں مشاورت کی جائے گی۔ اور اس پر  خیر القرون کا تعامل شاہد ہے، اشیرو ا علی فی اللکعبہ کا مسئلہ ہو یا  آذان کا مسئلہ، جہاد کا مسئلہ ہو یا حضور کے بعد تقرر حکمران  ہر قسم کے امور  غیر منصوصہ میں مشاورت ثابت ہے۔  واللہ اعلم۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلی قسط کا لنکhttps://www.mukaalma.com/14687

Facebook Comments

محمد عمران
رئیس دار الافتاء دار السلام۔اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اسلام میں شورائیت کا دائرہ کار۔محمد عمران/قسط2

Leave a Reply