سوشلزم کیوں ناکام ہوا؟۔۔سیتا رام یچوری

سو سال قبل پیش آئے اکتوبر کے زبردست ’’سوشلسٹ ریولیوشن‘‘ کے صدسالہ مشاہدے میں حصہ لینا میرے لئے گوناگوں تجربہ ثابت ہوا۔ مختلف النوع جذبات اُبھر آئے ۔ایسی کامیابی کا احساس کہ استحصال سے پاک سوسائٹی کی تشکیل ممکن ہے؛ غیرمعمولی انسانی سعی پر فخر کہ سرمایہ دارانہ ترقی کی تین صدیوں کی کارگزاری کی تین دہائیوں  کی مدت میں برابری کی گئی، بڑی حوصلہ افزاء بات ہے کہ اس انقلاب نے مزدور طبقہ اور دنیا بھر کے دیگر مظلوم طبقات کی جدوجہد کو  نئی توانائی بخشی، لگ بھگ تمام ممالک میں کمیونسٹ پارٹیوں کا قیام اور چینی، ویتنامی، کیوبائی، کوریائی انقلابات کی کامیابیاں، وہ فیصلہ کن رول جو سویت ریڈ آرمی نے دوسری جنگ عظیم میں فاشزم (فسطائیت) کو شکست دینے میں ادا کیا، اس کے نتیجے میں نوآبادیوں کا نظام ختم کرنے کی جدوجہد جو ساری دنیا کے تمام براعظموں میں پھیل گئی، علم و دانش کی سرحدوں کو خلائی سفروں کے ذریعے پھیلانا، اور مختلف شعبوں جیسے سنیماٹوگرامی، میوزک اور پینٹنگ میں اشتراکیت کی حقیقیت کے اطلاق کے ساتھ فنون اور جمالیات کے معاملوں میں دیرپا حصہ داریاں ،یہ سب باتیں بہ یک وقت ذہن میں کوند آتی ہیں۔

ماسکو میں موسم سرما کا یہ سرد دن رہا۔ 1917ء میں یہ اس سے زیادہ سرد نہ سہی مگر اتنا ہی سرد ضرور رہا ہوگا، کیونکہ تب سنٹرل ہیٹنگ جیسی جدید سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ پھر بھی، استحصال کے شکار اور مظلوم روسی مزدور طبقہ اور کھیتی باڑی کرنے والوں نے کمر باندھ لی اور سینٹ پیٹرزبرگ میں ’زار‘ کے سرمائی محل پر ہلہ بول دیا۔ 130 کمیونسٹ، ورکرز اور لیفٹ پارٹیوں کے نمائندہ بین الاقوامی مندوبین میں واضح عزم دکھائی دیا کہ اگر روسی لوگ ایسے حالات میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو ہمیں یقیناً ہمارے اپنے ملکوں میں سوشلزم یا اشتراکیت کیلئے عوامی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی اپنی کوششوں میں شدت لانے کی ضرورت ہے۔
7 نومبر 2017 کو منعقدہ مارچ میں ہزارہا روسیوں نے جو پوسٹرز اور بینرز تھام رکھے تھے ان میں اسٹالین کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ’اچھے قدیم دنوں‘ کی یاد کا دلکش احساس ہورہا تھا۔ اس موقع پر روسی قوم پرستی کا بھی ٹھوس جذبہ دیکھنے میں آیا جس سے ہٹلر کے فاشزم کی شکست میں فیصلہ کن عنصر بننے کی فخریہ یادیں تازہ ہوگئیں۔

تاہم، اس کلیدی سوال کے بارے میں کس طرح اور کیوں طاقتور  یو ایس ایس آر بکھرگیا اور اشتراکیت کو زوال آگیا، چند سائنسی نقطہ نظر والی وضاحتیں پیش کی گئیں ماسوائے وہ سبب جس میں گورباچوف کی دغابازی والی قیادت کو کھلے طور پر موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ بے شک، دغابازی ہوئی۔ لیکن کس طرح جوابی انقلاب ایک بھی گولی چلائے بغیر کامیاب ہوسکتا ہے؟
جہاں تک سی پی آئی (ایم) کا معاملہ ہے، اس نے سوشلزم کے اس بکھراؤ کے اسباب کا جنوری 1992 میں اپنی 14 ویں کانگریس میں تجزیہ کیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ اشتراکیت کو فروغ دینے کیلئے انسانی تاریخ یا علمی مارکسسٹ ادب میں کوئی منصوبہ عمل کا خاکہ نہیں رہا، چنانچہ روس اور سویت یونین بے نقشہ راستے پر چل پڑے۔ ان 70 سال کے دوران دو معاملے ایسے رہے جہاں غلط اندازے قائم کیے  گئے اور ان سے نمٹنے میں غلطیوں کا ارتکاب ہوا۔۔

پہلا ہم عصر عالمی سرمایہ داریت اور حقائق کا جائزہ سے متعلق ہے، اور دوسرا  خود سوشلزم کے چارٹر سے تعلق رکھتا ہے۔ اشتراکیت کا مفہوم یوں لیا گیا کہ یہ ترقی کی ہموار یک رخی راہ ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کیا گیا کہ سوشلزم طبقوں میں تقسیم سرمایہ داریت اور طبقہ سے عاری کمیونزم کے درمیان عبوری مرحلہ ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں طبقہ کی جدوجہد شدت اختیار کرتی ہے اور مفقود نہیں ہوتی۔ جوابی انقلاب کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے درکار تیاری بادی النظر میں واضح طور پر ناکافی رہی۔
سی پی آئی (ایم) نے چار شعبوں کی نشاندہی کی جہاں فروغِ اشتراکیت کے عمل میں غلطیوں کا ارتکاب ہوا۔ ان کا تعلق سوشلسٹ مملکت کے ’طبقاتی کردار‘؛ اشتراکیت پر مبنی جمہوریت؛ اشتراکیت پر مبنی معاشی فروغ؛ اور نظریاتی ادراک سے غفلت برتنے سے ہے۔ ان کوتاہیوں کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوگئی جہاں جوابی انقلابی قوتیں (بیرونی اور داخلی دونوں) نے باہم مل کر سوشلزم کو زوال سے دوچار کرنے کا کام کیا۔لہٰذا، سوشلزم کو یہ جھٹکے اس لئے برداشت کرنے نہیں پڑے کہ مارکسزم ۔ لیننزم کے بنیادی اُصولوں میں کوئی کوتاہیاں ہیں۔ اس کے برخلاف یہ ناکامیاں پیش آنے کی بنیادی وجوہات مارکسزم۔ لیننزم کے سائنسی اور انقلابی نظریے سے انحراف؛ عالمی سرمایہ داریت اور سوشلزم کی تقابلی طاقتوں کے غیردرست اندازے، مارکسزم کے اختراعی اُصول کا متشدد اور میکانیکی مفہوم پیش کرنا ہیں اور اس کے ساتھ اشتراکیت کو فروغ دینے کے عمل میں بڑی کوتاہیاں بھی اس بکھراؤ کا سبب بنیں۔

غیردرست اندازہ کی شروعات انقلاب کی 70 ویں سال کی تکمیل کے موقع پر 1987ء میں منعقدہ کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین (سی پی ایس یو) کی خصوصی کانگریس میں واضح ہوئی۔ اس کانگریس کیلئے سی پی آئی (ایم) وفد کی قیادت ہمارے جنرل سیکریٹری ای ایم ایس نمبودری پد نے کی اور اس میں ہرکشن سنگھ سرجیت کے ساتھ ساتھ خود میں بھی شامل تھا۔ گورباچوف نے اس کانگریس کو جو رپورٹ پیش کی اس میں تشکیل و تدوین شامل تھے، جو ہمارے خیال میں، بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک اور طبقاتی جدوجہد کے مارکسسٹ تجزیہ کے اصل حصہ کے فہم و ادراک سے راست طور پر اختلاف کے حامل رہے۔ گورباچوف نے ایسی ناگزیر اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والی دنیا کی بات کی جس کے نتیجے میں سامراجیت اور اشتراکیت کے درمیان تضاد؛ سرمایہ داریت اور مزدور طبقہ کے درمیان، سامراجیت اور تیسری دنیا کے ممالک کے درمیان، اور خود سامراجیت پسند ممالک کے درمیان تضاد کو نئی شکل میں پیش کیا گیا۔ تضادات کی نئی صورت گری کا ایسا نظریہ دنیا بھر کی انقلابی تحریکات کے تجربات سے راست ٹکراؤ  والا رہا۔ سامراجیت کی مخالفت تب بھی تھی اور آج بھی ہے جو طبقاتی جدوجہد میں شدت لانے اور انقلابی پیشرفت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اصلاحات اور کھلے پن کے دوہرے نظریات نے سوشلسٹ نظریہ کو مضبوط کرنے کی کوششوں کو مزید ماند کیا اور کمیونسٹ پارٹی کو اس کی انقلابی طاقت سے محروم کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors
 گورباچوف کی تقریر کے بعد اس کی ترجمہ والی نقول دستیاب کرائی گئیں، اور اگلی صبح کامریڈ ای ایم ایس اپنے معمول کے مطابق جلد بیدار ہوئے، رپورٹ پڑھی اور مجھے اپنے روم میں طلب کیا۔ انھوں نے کہا کہ گورباچوف کے اس مقالے میں سنگین مسائل ہیں۔ ہم نے کامریڈ سرجیت کو بلانے کا فیصلہ کیا اور پھر یہ طے کیا گیا کہ ہم ہماری نااتفاقیوں سے سی پی ایس یو قیادت کو واقف کرائیں گے۔ سی پی آئی (ایم) شاید واحد پارٹی رہی جس نے تب اپنے اختلافات کا اظہار کیا تھا۔ سی پی ایس یو قیادت نے شائستگی کے ساتھ ہمیں مطلع کیا کہ وہ ان مسائل پر تبادلہ خیال کیلئے تیار ہیں لیکن ابھی اِس وقت نہیں کیونکہ وہ زائد از 150 پارٹیوں کی میزبانی کررہے ہیں۔ بعد میں ایک سی پی آئی (ایم) وفد دوبارہ ماسکو گیا اور ہمارے اختلافات پر اناتولی دوبرینن، سی پی ایس یو سنٹرل کمیٹی سکریٹری کے ساتھ بات چیت کی۔ تاہم، یہ اختلافات قائم رہے۔ اس کے بعد سی پی آئی (ایم) سنٹرل کمیٹی نے مئی 1988ء میں ان نظریاتی اختلافات پر تفصیلی قرارداد منظور کی۔

تضادات کی جزوی اصلاح کے نظریہ اور سامراجیت اور اشتراکیت کے درمیان تضادات کے فہم و ادراک کے نتیجے میں ایسی دنیا سامنے آئی جو آفاقی انسانی اقدار قائم کرے گی لیکن یہ بات دنیا کی حقیقی صورتحال کے مغائر  ہے  جہاں سرمایہ دارانہ استحصال میں شدت اور سامراجیت کی عالمی غالب جارحیت کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اور مزدور طبقہ کے درمیان عملی مخالفت کبھی بھی عدم معاندانہ نہیں بن سکتی۔ اس تضاد کی یکسوئی صرف سرمایہ داریت کو ختم کرنے سے ہی ہوسکتی ہے اور اسی لئے مزدور طبقہ کا قاعدہ ہے اور اُجرت پر کام کرنے والوں کے طبقہ کا قیام ہوا ہے۔ یہی مارکسزم کے اُصول کا اصل حصہ ہے۔ مارکس کے مشہور بیان کا یہی خلاصہ ہے: ’’فلسفیوں نے دنیا کا مفہوم مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے: اصل بات یہ ہے کہ اسے تبدیل کیا جائے‘‘۔
اکتوبر  والے انقلاب نے دکھایا کہ دنیا کو تبدیل کرنا ممکن ہے۔20 ویں صدی میں انسانی تہذیبی ترقی کے خط و خال پر ناقابل تنسیخ اثر ڈالتے ہوئے دنیا کو تبدیل کیا جائے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply