شریعت میں شورائیت کا دائرہ کار ۔ مفتی محمد عمران/قسط3

شریعت میں شورائیت کا طریقہ کار!

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق بنیادی اصول پائے جاتے ہیں،  ان اصول پر ہر دور کے تقاضوں کے مطابق  اداروں کی تشکیل ممکن ہے، چنانچہ شریعت محمدی میں شورائیت کے حوالے سے بھی  کوئی خاص صورت متعین کرکے نہیں دی گئی ہے بلکہ اس سے متعلق بنیادی اصول دئیے گئے ہیں۔  

عہد نبوی  اور عہد صحابہ کی مشاورتی اجلاسوں  کا اگر استقصاء کیا جائے تو اس سے مجموعی طور پر یہی درس ملتا ہے کہ اسلام میں شورائیت کے لیے کوئی خاص صورت متعین نہیں کی گئی ہے، بلکہ موقعہ محل کے مطابق سیدھے سادے انداز سے مشاورت وجود میں آئی ہے اور اس پر عمل کیا گیا ہے۔

تفسیر وحدیث  اور تاریخ کی کتابوں سے شوری کی مختلف  صورتیں جو سامنے آئی ہیں  اس میں کبھی حضور صلی اللہ  علیہ وسلم نے مشورہ طلب کیا ہے تو کبھی بن مانگے صحابہ نے مشورہ دیا ہے ،  جیسے غزوہ احد  سے قبل جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے حملے کے بارے میں سنا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنے تمام اصحاب کو جمع فرمایا : اشیروا  علی ما اصنع؟ مجھے مشورہ دوں میں کیا کروں اس مشاورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے  عبد اللہ بن ابی جیسے منافق سے بھی مشاورت لی ۔  (بخاری ، طبقات ابن سعد)

دوسری صورت جس میں بن مانگے صحابہ نے مشورہ دیا  جیسے غزوہ بدر میں حباب بن المنذر نے مشورہ دیا اور اس پر اتفاق رائے ہوئی اور عمل کیا گیا۔اسی طرح ہمیں اس میں یہ تنوع بھی نظر آتا ہے کہ کبھی پوری جماعت سے مشاورت ہو رہی ہے اور کبھی صرف  چنیدہ اشخاص سے،  پوری جماعت کی مثال غزوہ احد کی مشاورت میں موجود ہے اور خاص لیڈران سے جیسے غزوہ خندق میں عیینہ  اور حارث سے مصالحت کی مشاورت  سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ سے کی گئی تھی۔  (ابن سعد وابن ہشام)

کبھی عمومی امر سے متعلق خصوصی مشورہ ہوا ہے جیسے  صلح حدیبیہ میں ہدی کے جانور سے متعلق ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشاورت ہوئی تھی۔ (ابن جریر طبری) تو کبھی خصوصی امر سے متعلق  خصوصی مشورہ ہوتا تھا جیسے  واقعہ افک میں اپنی بی بی رضی اللہ عنہا سے علحیدگی کی بابت اسامہ اور علی رضی اللہ عنہما سے مشورہ فرمایا تھا۔ (بخاری، ابوداود)

عہد نبوی سے آگے جاکر  عہد صحابہ میں سقیفہ بنو ساعدہ میں مشاورت کی صورت الگ  نظر آتی ہے تو طاعون کے مسئلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا  طرز شوری الگ انداز سے نظر آتا ہے، کہ  پہلے مہاجرین اولین کو بلایا پھر انصار کو بلایا اور آخر میں شیوخ قریش کو بلایا۔ (تفسیر طبری)

پھر  حضرت عمر کا چھ رکنی شورائیت  کا انتخاب اس کے بعد عبد الرحمن بن عوف کا گلیوں اور بازاروں میں حضرت عثمان کے بارے میں عام وخاص سے مشاورت ورائے طلبی الگ نوعیت کی حامل شورائیت ہے۔ (طبقات ابن سعد)

الغرض: اسلامی طرز حکومت کی اساس شورائیت ہے اور شورائیت  کے بارے میں بنیادی اصول تو موجود ہیں (جو گذشتہ اقساط میں ذکر کیے گئے ہیں)  لیکن کوئی متعین طریقہ کار   امت پر لازم نہیں ہے۔چنانچہ شیخ الاسلام  مفتی محمد تقی عثمانی صاحب  اسلام اور سیاسی نظریات میں فرماتے ہیں:

“شریعت نے اس شوری کا کوئی خاص طریقہ ابد الآباد تک کے لیے مقرر نہیں فرمایا۔ یعنی متعین نہیں فرمایا کہ اس مشورہ کا طریق کار کیا ہو؟ کن لوگوں کو مشورے میں شامل کیا جائے ؟ اور شوری کی ہیئت ترکیبی کیا ہو؟ بلکہ یہ تفصیلات ہر دور کے اہل بصیرت پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان باتوں کی تفصیلات طے کرسکتے ہیں ۔ لہذا اس شوری کا کوئی خاص ڈھانچہ شرعاً  ضروری نہیں ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ کوئی کمیٹی  یا باضابطہ اسمبلی ہو اور ا س کے ارکان متعین ہوں اور ہر معاملے میں اسی سے مشورہ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانے میں کوئی باقاعدہ منتخب مجلس شوری قائم کرلی جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجلس شوری متعین نہ ہوں ۔ بلکہ امام اس دور کے اہل الرائے لوگوں  کا انتخاب کرکے مشورہ کرلے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کچھی لوگوں کو جمع کرکے ان سے مشورہ کرلیا ۔ اور کبھی دوسروں سے مشورہ کرلیا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی صلاحیتوں  کے لحاظ سے ایک معاملے میں کسی ایک فریق سے مشورہ کیاگیا اور دوسرے  معاملے میں دوسرے فریق سے مشورہ کرلیا گیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام کے تعامل میں خلافت راشدہ تک ایسا کوئی مجلس شوری اس طرح باقاعدہ بنائی گئی ہو جیسے آج کل اسمبلی کے ارکان باقاعدہ مقرر کرلیے جاتے ہیں بلکہ شوری کے اصول پر سادگی سے عمل کر لیا جاتا  تھا۔ اور خلیفہ اہم حضرات سے مشورہ کرکے اس بات کا اطمینان کرلیتا تھا کہ جو بات مشورے سے طے ہوئی ہے، وہ امت کے اجتماعی ضمیر  کی نمائندگی کرتی ہے۔لیکن بدلتے ہوئے حالات میں اس کا کوئی منظم ڈھانچہ مقرر کرنا مناسب ہو تو وہ بھی شوری کے وسیع مفہوم میں شامل ہے۔  اس لیے بظاہر اس دور میں ایک باقاعدہ مجلس شوری کا تعین ضروری معلوم ہوتا ہے”۔

خلاصہ  کلام : خیر القرون میں مشاورت میں مرد وعورت ، عوام وخواص  نوجوان اور شیوخ  سب سے مشاورت ہوئی ہے، اور اس کا کوئی متعین طریقہ کار لاز م نہیں ہے۔  بس اتنا لازم ہے کہ حاکم کے لیے وشاورہم  کی وجہ سے نواب الامہ  یعنی اربات حل وعقد  سے مشورہ لینا واجب ہے اور  نظم حکومت وامرہم شوری بینہم کی وجہ سے باہمی مشاورت سے چلانا امر لازم ہے۔ اگلی قسط میں شوری کے فیصلہ کی حیثیت پر غور کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔

جاری ہے

دوسری قسط کا لنک     https://www.mukaalma.com/15124

Advertisements
julia rana solicitors london

 

Save

Facebook Comments

محمد عمران
رئیس دار الافتاء دار السلام۔اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply