مستشرق کون ہے؟۔۔ادریس آزاد

مستشرق اس مؤرخ، ادیب، لکھاری اور رپورٹر کو کہتے ہیں جو مشرق کے بارے میں لکھے۔ مستشرقین، مستشرق کی جمع ہے۔ انگریزی میں انہیں اورینٹلسٹس (Orientalists) کہا جاتاہے۔ ڈاکٹرناصرعباس نیّر کے بقول مستشرقین کے کُل ادوار تین ہیں۔ ۱۔ رومۃ الکبریٰ کے مستشرقین، ۲۔ مسلمانوں کے سنہرے دور میں آنے والے مستشرقین، ۳۔ انگریز کے مستشرقین۔

۱۔ جب سلطنتِ رومۃ الکبریٰ (great Roman Empire) پھیلی تو اس کے دوحصے شمار کیے جانے لگے۔ وہ حصہ جو مشرق میں تھا اور وہ حصہ جو مغرب میں۔ چنانچہ اس وقت مغرب کے جن لوگوں نے مشرق کے مطالعات کیے وہ پہلے دور کے مستشرقین ہیں۔

۲۔ دوسرا دور وہ ہے جب عربوں کا عروج تھا۔ یورپ سے طلبہ بغداد اور دیگر مشرقی ممالک میں آتے اور علم حاصل کرتے۔ انہی ادوار میں مغربیوں نے مشرق کی سیّاحتوں کا علمی شغل اپنایا اور مارکو پولو سے شروع ہونے والا تجسس واسکوڈے گاما کے زمانے تک قائم رہا۔

۳۔ تیسرا دور انگریزی استعمار کے زمانے میں شروع ہوا اور مغربی مستشرقین ایک مغلوب و مفتوح قوم کے علوم حاصل کرنے کی غرض سے مشرق آنا شروع ہوئے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے رچرڈ پارکر کی کتاب، ’’مشرقی ادب کی افادیت پر ایک مضمون‘‘( An Essay on the Usefulness of Oriental literature) کے حوالے سے لکھا ہےکہ،

‘‘رچرڈ پارکر نے اپنے رسالے میں کلدانی، عبرانی، عربی، شامی، مصری زبانوں اور ان کے ادب کی غیر معمولی تحسین کی ہے۔ اس کتاب میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ مغربی دنیا ارسطو سے اس وقت واقف ہوئی جب عربی سے لاطینی میں اس کے تراجم ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ پارکر صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’مشرق نہ صرف مذہب بلکہ فطری علوم کا منبع ہے۔ مشرق کا میلان ان دونوں کی ترقی ہے‘۔ یعنی انسانی عقل اور مذہب میں نہ تضاد تھا نہ تصادم۔‘‘

لیکن تیسرا عہد جسے ہم نوآبادیاتی عہد بھی کہتے ہیں، اس دور کے مستشرقین کا رویّہ غیر منصفانہ ہے۔ ڈاکٹرناصر عباس کے الفاظ میں،

’’اگر ہمیں یہ کہا جائے کہ جدید عہد کے سب سے بڑے تشدد کا نام لیں تو ہم بلاتوقف استعماری مستشرقین کے اس علمیاتی تشدد کا نام لیں گے جو انہوں نے مشرق کے تصور میں سے فطری علوم کے خارج کرنے کی صورت میں کیا۔ اور اگر سب سے بڑے المیے کو نشان زد کرنا پڑے تو اہل مشرق اور خصوصاً مسلمانوں کے اِس علمیاتی تشدد کو سہہ جانے یعنی اپنی ثقافتی شناخت میں مذہب کو واحد عنصر کے طورپر تسلیم کرنے اور مادی علوم و فنون کی عہد وسطیٰ کی اپنی ہی روایت سے دستبردار ہونے کو کہیں گے۔‘‘

سید سلیمان ندوی کے حوالے سے ڈاکٹرناصر عباس نیّر نے لکھا کہ انہوں نے 1800 عیسوی سے پہلے اور بعد کے مستشرقین کے علمی رویّوں میں فرق کو ’’استفادہ‘‘ اور ’’افادہ‘‘ کے ذریعے واضح کیا۔ استفادہ بھلائی کے لیے ہوتا ہے جبکہ افادہ خود غرض ہے۔ استفادہ کرنے والا یہ تسلیم کرتاہے کہ جس قوم سے وہ علمی استفادہ کررہاہے، وہ قوم علمی لحاظ سے قابلِ تقلید ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتاہے کہ علم کل دنیا کی میراث ہے اور اس لیے جن کے پاس زیادہ ہے، ان سے حاصل کرنے میں کوئی عار نہیں۔ بایں ہمہ وہ انکساری اور اخلاص کا مظاہرہ کرتاہے۔ اس کےبرعکس افادہ ایک خالصتاً عملی رویہ ہے۔ افادہ پرست کسی قوم کے ہنر اور علوم و فنون میں سے فقط وہ چیزیں سیکھتاہے جو اس کی اپنی قوم کی ترقی کے لیے مفید ہوں۔ وہ ان کے باقی اثاثوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کے بقول، جب تک مسشرقین استفادہ کرتے رہے وہ علم کو روح کی پیاس بجھانے کا ذریعہ سمجھتے رہے اور جب انہوں نے افادہ اختیار کیا تو علم ایک طاقت ہے کہ تصور کے تحت کیا۔ جس سے لامحالہ یہ ہوا کہ انہوں نے مشرقی علوم پر نگاہِ حقارت ڈالی اور اپنی نوآبادیوں کو یہ جتلایا کہ ان کا ماضی شرمناک، ثقافت جاہلانہ اور علمی اثاثہ مبالغوں اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔ جن ادیبوں نے اس بیانیے کو قبول کیا انہوں نے اس مہیب خلا کو مغربی جدیدیت سے پُر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کوشش میں کامیابی کے لیے لازم تھا کہ وہ پہلے اپنی قوم کو بھی اس احساس میں شریک کرتے جو ان کے اندر پیدا ہوچکا تھا۔ یعنی یہ کہ ان کا ماضی شرمناک، ثقافت جاہلانہ اور علمی ادبی اثاثے مبالغوں اور جھوٹ کا مجموعہ ہیں۔

الغرض یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ سرسید کی تحریک سے ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں میں مغربی جدیدیت کی عقیدت پیدا ہوئی تو یونہی نہ ہوگئی۔ بلکہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ عقیدت پیدا ہوئی، انہیں پہلے اپنے ماضی کو شرمناک ماننا پڑا۔ لیکن جنہوں نے نہ مانا، ان میں اقبال جیسے عالمگیریت کے حامل مفکرین، جنہوں نے سرسید کی تحریک سے کئی گناہ بڑی تحریکوں کی بنیادیں رکھیں، پیدا ہوئے۔

چنانچہ مستشرقین کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے کہ وسطی عہد کے مستشرقین جنہوں نے مشرقی علوم سے استفادہ کیا، یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ مشرقی علوم بیک وقت مذہبی اور فطری دونوں ہیں۔ اور تنقیدی مطالعات کے نتائج لکھتے وقت یہ بھی لکھنا چاہیے کہ کسی اجنبی جدیدیت کو قبول کرنے کے لیے پہلے اپنے آپ کو حقیر تسلیم کرنا لازمی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم اگر آج تک ’’انہی‘‘ کی غلامی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ طاقتور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج تک اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اپنے ماضی کو شرمناک، اپنی ثقافت اور اقدار کو جاہلانہ اور اپنے ادب کو جھوٹ کا پلندہ سمجھتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply