ہم سب پاکستان کے مجرم ہیں۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

میں نے بہت سے دوستوں کے اصرار پر سیاست پہ لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ دوست روحانیت پہ مبنی آرٹیکل پڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میری روحانیت کےٹاپک پہ گرفت کافی مضبوط ہے ۔ مجھے خود بھی روحانیت پہ لکھنا بہت بھاتا ہے کیونکہ کچھ خاص لمحوں میں لکھے گئے چند لفظوں کا مجموعہ کبھی کبھی مجھے بھی حیران کر دیتا ہے کہ ایسے الفاظ کہاں سے آئے۔
لیکن آج میں بہت تکلیف میں ہوں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ میرے پاک وطن کو دو ماہ میں ہی ” لیر و لیر ” کر دیا گیا ہے ۔ تقسیم ہند کے وقت کتنے لاکھ لوگ در بدر ہوئے۔۔ کتنی ماؤں نے اپنے زندہ معصوم بچے بہتی نہروں میں پھینک دیے۔ میں نے چشم دید گواہوں کے  منہ سے ایسی خوفناک و ہولناک داستانیں سنی ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے ۔ عزتیں لٹیں, معصوم بچیوں کے آنچل  تار تار کر کے تہہ و تیغ کر دیے  گئے , نسلیں تبدیل ہوئیں , مسلمان بچیوں کے پیٹ میں ہندوؤں سکھوں کے بچے پنپنے لگے لیکن رسول اللہ ﷺ کے عاشقوں نے ہار نہ مانی اور قدرت کے پُراسرا راز کی تخلیق ” لا الہ الا اللہ ” کے نام پہ وجود میں آنے والی عرض پاک ” پاکستان ” قائم ہو گئی ۔

آج پاکستان کے حالات دیکھ کر بے ساختہ میرے آنسو بہہ نکلے۔ حیران ہوں کہ کسی ایک انسان کی اَنا اتنی بڑی بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پاک سر زمین میں بسنے والے 22 کروڑ لوگوں کی زندگیاں جہنم بنا دے ۔ یہ وطن تو رب تعالیٰ نے عطا  کیا ہے ۔ اس جنت نظیر بستی کو چند لوگوں نے جہنم بنا دیا ہے۔

عمران خان نے 2018 میں ملک سنبھالا تو اس وقت ملک کی حالت بڑی دگرگوں تھی۔ حالات اتنے سنگین تھے کہ الیکشن سے پہلے مفتاح اسماعیل نے ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ صاحب سے کہا تھا کہ سر دعا کریں کہ اگلا الیکشن ن لیگ نہ جیتے کیونکہ ہم نے اکانومی کا بیڑہ اتنا غرق کر دیا ہے کہ آئندہ حکومت تین سال تک سمجھ ہی نہیں پائے گی کہ معیشت کے ساتھ ہوا کیا ہے ؟ میٹنگ میں موجود تمام افراد مسکراتے رہے  ۔ یہ بات اینکر عمران ریاض صاحب بھی اپنے ایک وی لاگ میں بتا چکے ہیں۔

عمران خان نے حکومت سنبھالی اور اسد عمر کو وزیر خزانہ مقرر کر دیا۔ اسد عمر نے بہت محنت کی۔ وہ IMF کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے شاید وہ کامیاب ہو بھی جاتے لیکن سازشیں زور پکڑنے لگیں۔ ترین صاحب کسی کے اشارے پہ حرکت میں آئے اور اسد عمر کو اسٹیبلشمنٹ, ترین گروپ اور پرنسپل سیکریٹری کے دباؤ پہ وزارت کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔ ترین صاحب مکافات عمل کا شکار ہوئے اور اب سیاست میں ان کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے۔

اسد عمر کے بعد عمران خان اور اسکی ٹیم نے دن رات محنت سے ملک کو ترقی کے ٹریک پہ چلایا اور ملک دو ہی سالوں میں تنزلی سے ترقی کی جانب گامزن ہو گیا۔

عمران خان نے کورونا سے بھی جنگ لڑی اور اپنے ملک کے بچوں کو بھی بچایا۔ منفی اعشاریے مثبت میں تبدیل ہوتے گئے۔ معیشت پروان چڑھنے لگی۔ جی ڈی پی گروتھ  5.97 تک پہنچ گئی لیکن پھر کہیں عمران خان سے صاحب بہادر کی شان میں گستاخی ہو گئی اور آناً فاناً سب کچھ ملیامیٹ کر دیا گیا۔

آج ملک کی یہ حالت ہے کہ بچہ بچہ بھوک پیاس سے بلک رہا ہے۔ مجھے آج دِلی تکلیف پہنچی ہے کہ پٹرول و ڈیزل کی بے تحاشا  قیمتیں بڑھنے کے بعد ملکی حالات اتنے سنگین ہو جائیں گے کہ جان بچانے کے لالے پڑ جائیں گے۔

ہم ہر بات کو مذاق میں ٹال دینے کے عادی ہیں فیول پرائس میں اتنا بڑا اضافہ کوئی مذاق کی بات نہیں۔۔ اس کے اثرات اتنے سنگیں ہوں گے کہ جس کا آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ غریب تو بیچارہ موت کے قریب ہے لیکن اب بڑے پیٹ والوں کی باری آ گئی ہے۔ 22 کروڑ آبادی میں صرف چند لاکھ لوگ ہی ہوں گے جو متاثر نہیں ہوں گے باقی تمام عوام شدید متاثر ہو گی۔
زیادہ پریشان کُن بات یہ ہے کہ آئندہ سال  ہم گندم چاول سبزیاں کہاں سے لائیں گے۔ ہمارے ملک میں نہری پانی کی شدید کمی ہے۔ کسان ٹیوب ویل سے پانی حاصل کرتا ہے۔ مہنگی بجلی یا مہنگے ڈیزل سے کیا اُگائے گا۔ 40 سال کے بعد کسان بیچارے نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ ہر سیزن کی بمپر کراپ ہوئی اور وہ بیچارہ کچھ خوشحال ہوا لیکن اب کیا ہو گا۔ وہ اتنا مہنگا ڈیزل کیسے خریدے گا۔ ڈیزل کی قیمت کا بڑھنا براہ راست  ملکی معیشت پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ زندگی کا ہر پہیہ ڈیزل پہ انحصار کرتا ھے۔ بجلی, ٹرانسپورٹ, پانی, ٹیوب ویل, کنسٹرکشن غرض یہ کہ زندگی ہی ڈیزل پہ انحصار کرنے لگی ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھ جائے تو لوگ  مینج  کر لیتے ہیں لیکن ڈیزل کی قیمت میں بے پناہ اور اچانک اتنا بڑا اضافہ ملک کی جڑیں ہلا کے رکھ دیتا ہے۔

عمران خان نے کورونا کے دوران بہت بڑا رسک لیکر کنسٹرکشن انڈسٹری کو ریلیف دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو گیا کیونکہ کنسٹرکشن انڈسٹری ہی وہ واحد انڈسٹری ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی کا زینہ ثابت ہوتی ہے۔ آپ کو شاید اندازہ نہیں۔ ۔کنسٹریکشن انڈسٹری کے ساتھ 100 سیکٹرز جڑے ہیں اور کروڑوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ میرا اپنا تعلق چونکہ اسی انڈسٹری سے ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کام کو جاری رکھ پاؤں لیکن آج کے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ میں پراجیکٹ جاری رکھ سکوں۔ اب آپ خود اندازہ لگائیے کہ کتنے خاندان اجڑیں گے،کتنے لوگ بیروزگار ہوں گے، کتنے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوں۔ کتنے بچے بھوک سے بلکیں گے۔ آپ یقین مانیئے آجکل لوگ ذرا ذرا سی بات پہ رو پڑتے ہیں۔ یہ صرف میرا حال نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کا حال ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے آج یہ کہا جا سکتا ھے کہ ملک اب عمران خان کے علاوہ کوئی نہیں سنبھال سکتا۔
ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کوئی مافوق الفطرت انسان ہے،چشم زدن میں سب ٹھیک کر دے گا۔لیکن مجھے یقین ہے کہ اب بھی وقت ہے۔ عمران خان کی قیادت میں ملک سنبھل جائے گا کیونکہ پوری قوم عمران خان پہ اعتماد کرنے لگی ہے۔ ایک نفسیاتی اعتقاد ہے لوگوں کا ۔لوگ اسے اپنا مسیحا ماننے لگے ہیں کہ یہی ان کے درد کا مداوا کر سکتا ہے۔ لوگ روکھی سوکھی کھا لیں گے اور اچھے وقت کا انتظار کریں گے۔ محنت کریں گے۔ عمران خان کی قیادت میں مایوس نہیں ہوں گے۔عمران خان کی قیادت میں لوگ امید کا دامن پکڑے صبر کر لیں گے ورنہ اگر یہی حالات رھے تو پھر ملک خون ریزی کی طرف جا رہا ہے۔ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ بھوک سارے رشتے مٹا دیتی ہے۔ انسانیت اور بھوک کا آپس میں دور دور تک کوئی رشتہ نہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم اس سنگین وقت کا شکار ہوں۔ بہتر یہی ہے کہ غلطی کا ازالہ کر دیا جائے تو ہم بہت بڑے بحران سے بچ سکتے ہیں۔
یہ میری اپنی لاجک ہے۔ آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میری نظر میں ان کڑے حالات میں عمران خان ملک اور قوم کو بچا سکتا ہے اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس معاشی و بدمعاشی بحران سے نکلنے کا واحد حل الیکشن ہیں۔ اس وقت کوئی کچھ بھی کر لے۔ دنیا جہاں کے ماہرین بلا لے۔ ملک نہیں سنبھلے گا بلکہ ہر گزرتا لمحہ بھاری پڑے گا جو کہ مسلسل پڑ رہا ہے۔ ہر آنے والا دن ملک کو مزید گہرائیوں میں دھکیل رہا ہے۔
یہ ملک اب اس وقت سنبھلے گا جب قوم کسی پہ اعتماد کرتے ہوئے محنت کرے گی اور اس وقت عمران خان ہی وہ واحد شخصیت ہے جس پہ قوم اعتماد کر سکتی ہے ۔
اللہ رب العزت میرے ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply