سنہرے لوگ۔مرزا مدثر نواز

آج کا دور بلاشبہ معاشی سبقت کا دور ہے‘ انسان نے سرمایہ کو اپنی منزل بنا لیا ہے اور شب و روز اپنے بینک بیلنس کو بڑھانے کی فکر میں ہے ‘سرمایہ دارانہ نظام کے طفیل اس کو صرف اپنی ذات سے غرض ہے۔ گزشتہ ادوار میں لوگ معاشی تنگی کے باوجود ایک پر مسرت زندگی بسر کرتے تھے کیونکہ انہیں اپنی کوٹھی اونچی کرنے،مہنگی گاڑی خریدنے‘ ڈیفنس میں پلاٹ بک کروانے، برانڈڈ خریداری کرنے، بچوں کو انٹر نیشنل سکولوں میں تعلیم دلوانے کی فکر نہیں تھی۔کیا سادہ لوگ تھے جیب خالی ہوتی لیکن آپس میں پیار و الفت، ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس، منہ پہ میٹھے بول اور چہروں پر مسکراہٹ تھی۔

آج جیبیں بھری ہوئی ہیں‘ تنخواہیں لاکھوں میں لیکن زبان پر ناشکری، چہرے مرجھائے اور ڈپریشن کی بیماری پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لیتی۔ہم نے خوشیوں کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے اور یہ بھول گئے کہ خوشی کسی کو خوشی دینے سے ملتی ہے چھیننے سے نہیں‘ جو سکون و اطمینان نادار کو کھانا کھلانے سے ملتا ہے وہ اپنا پیٹ جانوروں کی طرح بھرنے سے نہیں مل سکتا‘دوسروں کی عزتوں کو پامال کر کے، ان کا حق مار کر، ناجائز قبضے کر کے اور مال ہتھیا کر میں اپنے اور اولاد کے لیے پرسکون زندگی کے خواب دیکھوں تو یہ شیطان کا دھوکہ و رنگینی ہے۔

آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں امانت و دیانتدار، صادق و امین، ایفائے عہد کے پیکرڈھونڈے نہیں ملتے۔ کسی بھی سرکاری دفاترکا چکر لگا لیں ہر ایک کی نظر آپ کی جیب پر ہو گی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اساتذہ کرام سکول کے بعد طالبعلموں کو صدقہ جاریہ کے لیے مفت ٹیوشن پڑھاتے تھے‘ آج ایسا کوئی ڈھونڈ کے دکھائیں کیونکہ ہم نے موجودہ زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اخروی زندگی کو بھلا چکے ہیں‘ کیا اب اس دنیا میں پیسہ ہی سب کچھ رہ گیا ہے؟ کیا اس کے آگے تمام رشتے و ناتے ہیچ ہیں اور یہی ہمارا دین و ایماں ہے؟ کہاں گئیں ہماری مذہبی ، معاشرتی اور اخلاقی قدریں؟کہاں گئے وہ لوگ جو دوسروں کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتے تھے؟کیا اب ایسے لوگ کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے؟

آئیے عفوودرگزر، مدد، ایفائے عہدو صداقت، عدل و رحمدلی کے ایک واقعہ پر نظرڈ التے ہیں۔
دو نوجوان سیدنا عمرؓ کی محفل میں داخل ہوتے ہی وہاں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ یا عمر! اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ آپ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟ یا امیر المومنین ان کا باپ اپنے اونٹ کے ساتھ میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر دم توڑ گیا۔پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا، سیدنا عمر کہتے ہیں۔

وہ شخص کہتا ہے اے امیر المومنینؓ: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جا ؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔حضرت عمرکہتے ہیں: کون تمہاری ضمانت دے گا ؟ مجمع پر خاموشی چھا جاتی ہے۔ خود سیدنا عمر سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں، سر اٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ، معاف کر دو اس شخص کو۔نہیں امیر المو منین جو ہمارے باپ کو قتل کر ے اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ سناتے ہیں۔عمر ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔۔

اے لوگو، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟ ابوذرغفاریؓ اپنے زہدو صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!عمر: جانتے ہو اسے؟ ابوذر: نہیں جانتا۔عمر: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟ ابوذر: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔ عمر: دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔ عمرسے تین دن کی مہلت پا کر وہ رخصت ہو جاتا ہے۔ تین راتوں کے بعد عصر کے وقت شہر میں منادی پھر  کی جاتی ہے۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کے لئے بے چین اور مجمع اللہ کی شریعت کا نفاذ دیکھنے کے لیے جمع ہو چکا ہے۔

ابوذر بھی آ کر حضرت عمر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ عمر:کدھر ہے وہ آدمی؟ابوذر: مجھے کوئی پتہ نہیں یا امیر المومنین۔ ابوذر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ محفل میں ہو کا عالم ہے۔ اللہ کے سوا کو ئی نہیں جانتا آج کیا ہونے والا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔۔مغرب سے چند لمحات پہلے وہ شخص آ جا تا ہے، بے ساختہ عمرکے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا بھر پور نعرہ لگاتا ہے۔ عمر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص! اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، کوئی تیرا گھر جانتا ہے نہ ہی پتہ۔

امیر المومنینؓ اللہ کی قسم بات آپ کی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کا جاننے والاہے۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اٹھ گیا ہے۔ عمر نے ابوذر سے پوچھا تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دی تھی؟ ابوذر نے جواب دیا، اے امیر المومنینؓ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حضرت عمرنے ایک لمحے کے لیے توقف کیا اور پھر ان نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہواب؟ انہوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المومنینؓ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفوودرگزر ہی اٹھا لیا گیا ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply