خواہشات کے حصار۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

دنیا خواہشات کا گھر ہے ،جو ہمارے دل کی سجاوٹ کا وہ آئینہ ہے جس میں ان خواہشات کی تصویر بار بار نظر آتی ہے ۔ظاہر ہے جو چیز بار بار نظر آئے گئی وہ چیز انسان کے مصمم ارادے میں شامل ہو جائے گی اور انسان پھر اسی کے حصول کے لیے شب و روز تگ و دو شروع کر دے گا ۔
اگر اس بات کا فطری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت کو خواہشات کے انباروں نے جکڑ رکھا ہوتا ہے جو ہر وقت ہر روح و قلب میں اچھلتے کودتے رہتے ہیں ۔لیکن جب ان خواہشات کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے تو یہ طبیعت میں تند مزاجی کی لہریں پیدا کر دیتی ہیں ۔پھر یہ لہریں زور زور سے اچھل کود کرقلب و ذہن میں شور پیدا کرتی ہیں ۔
جو اچانک ایک آہٹ کی صورت میں دماغ کے حسی پردوں سے آکر ٹکراتی ہیں اور کان میں سرگوشیاں کرنا شروع کر دیتی ہیں ۔چونکہ یہ غائبی آوازوں کا تلاطم ہوتا ہے جو انسان کو یکدم چوکنا کرتا ہے اور کہتا ہے اے بنی آدم اٹھ۔ اپنے ہاتھ میں عصا تھام لے اور اپنی خواہشات کی پیروی کر ۔وہ جو تیرے دل و دماغ میں بڑے زور و شور سے اچھک کود رہی ہیں ۔
انہیں روکنے کی بھرپور جدوجہد کر ۔ورنہ وہ تیرے خیالات میں اس قدر آگ لگا دیں گئی کہ تو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے گا ۔یہ تیرے وجود کو رسیوں کی طرح باندھ لیں گی ۔تو ان کے ساتھ زور آزمائی بھی کرے گا لیکن تیری قوت حیات اس وقت تک سلب ہو چکی ہوگی۔
تو چاروں طرف سے گھیرا جا چکا ہوگا ۔میں ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا ۔کے اچانک میری آنکھوں میں خواہشات کا عکس منتقل ہوا
۔جس نے میرے ارمانوں میں اچانک ایک شمع جلا دی ۔
اور میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے وجود کے گرد ان خواہشات کے حصار کی گرہ سخت ہوتی گئی ۔میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوں اور میرے ہاتھ میں اپنی حفاظت کے لیے سفری آلات بھی موجود ہیں ۔میں وہم و خوف کی رو سے نکل کر اپنے سفر پر گامزن ہوگیا ۔
لیکن میرا وجود مجھے ملامت کی راکھ کھلا رہا تھا ۔
لیکن میں اپنی خواہشات کی تکمیل میں بضد تھا ۔میں اپنی خواہشات سے آزاد بھی ہونا چاہتا تھا ۔لیکن مجھے دو قوتوں نے باندھ رکھا تھا ۔ایک قوت ان کی تکمیل کے لیے ابھار رہی تھی۔جبکہ دوسری مجھے آگے بڑھنے سے میرے قدم روک رہی تھی ۔میں مجبور و بے بس ہو گیا ۔البتہ جس چیز نے مجھے جکڑ لیا وہ میری خواہشات کے حصار تھے ۔
میں نے جو نہی اپنے وجود کے گرد دوبارہ نگاہ کی تو مجھے خواہشات کی کونپلیں پھوٹتی نظر آئیں ۔وہ میرے دل کی زمین سے نمکیات حاصل کر رہی تھی ۔مجھ پر گہری سوچ کا بھوت طاری تھا ۔اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ۔کہ انہوں نے مجھے دوبارہ صحت و توانا کرکے اسی سفر پر گامزن کردیا ۔میں بار بار سوچ کا لقمہ کھاتا ۔وہ میرے بدن میں جزو خوراک کا سبب ضرور بنتا تھا ۔لیکن وہ توانائی میری خواہشات کی شہ رگ کو کاٹنے کے لئے کافی نہ تھی ۔میں بار بار اس عمل کو دہراتا ہوں ۔لیکن میری قوت معدافعت بحال نہیں ہوتی ۔
میں اسی کشمکش میں کبھی آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور کبھی زمین کی طرف ۔البتہ انسان ہوتے ہوئے میری دلی کیفیت اور لگاؤ خواہشات کے گچھوں کی بنت کاری کی طرف راغب ہو گیا ۔میری آنکھوں میں ان کا بار بار جنم ہورہا تھا ۔میری سرشت خواہشات کے حصار میں ڈوبی ہوئی تھی۔
میری ہمکلامی کے وعدے ٹوٹ گئے ۔بالآخر میں اوندھے منہ گر پڑتا ہوں اور کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ خواہشات کے حصار نے مجھے جکڑ لیا ۔ انہوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ لیے ۔میرے قلب و ذہن کو ماؤف کردیا ۔میری قوت حیات سلب گئی ۔مجھے غلامی کی بیڑیوں نے جکڑ لیا ۔حتیٰ کہ میں نے ایمان کا عصا بھی تھاما لیکن اس نے بھی میری کوئی مدد نہ کی ۔میں نے اپنی سوچ کے سارے دروازے کھولے ۔لیکن مجھے کسی دروازے سے بھی آس کی ہوا نہ ملی۔
آخر اس ساری آزمائش کے بعد میرے کانوں میں ایک ہلکی سی سرگوشی ہوتی ہے۔
اے میرے بیٹے !
اگر تجھے میری مدد کی ضرورت ہے تو اپنا ہاتھ آگے بڑھا ۔میں اسے تھام کر اپنی قوت کا زور اس میں منتقل کروں گا ۔تب تیرے لیے فتح اور کامیابی کا دروازہ کھل جائے گا ۔میں تیرے وجود کے گرد بندھی ہوئی خواہشات کو جلا کر راکھ کر دوں گا ۔تو فقط مجھ پر ایمان رکھ میں تیرے لئے بڑے بڑے کام کروں گا ۔اگر تم مجھے آزما کر دیکھنا چاہتا ہے تو دنیا پر بھروسا کرنے کی بجائے میرا ہاتھ تھام لے ۔تب تیرے وجود کے گرد بنی ہوئی ہر فصیل گرجائے گی ۔
یہ خواہشات کے حصار تو ہوا کے ایک جھونکے سے کاٹ کر تجھے آزاد کر دیں گے ۔تیرا جسم و روح خواہشات کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply