رودادِ سفر (28) ۔۔شاکر ظہیر

رودادِ سفر (28) ۔۔شاکر ظہیر/دو دن بعد سردار صاحب نے پھر شکایت کی کہ انہیں پھر اسی مقام پر کمر میں درد ہو رہا ہے ۔ میں نے نرس کو بلا کر بتایا تو اس نے جواب دیا کہ مسٹر وانگ ( Wang ) شام کو آئیں گے تو ڈاکٹر سے مل لیں گے ۔ اس وقت تک یہ دو گولیاں لے لیں ۔ شام کو مسٹر وانگ ( Wang ) آئے تو انہیں بتایا وہ ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ ڈاکٹر صاحب ان کے ساتھ ہی کمرے میں آ گئے اور کیفیت پوچھی ۔ اس کے بعد اگلے دن صبح دوبارہ ٹریٹمنٹ کا کہہ دیا ۔ اگلے دن دوبارہ وہی گاؤن پہن کر آپریشن تھیٹر پہنچ گئے وہی پراسس دوبارہ دوہرایا گیا ۔ زیادہ سے زیادہ بیس پچیس منت لگے یوں گے ۔ اس کے بعد کچھ دوائیاں لکھ کر دیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ روزانہ شام دوسرے فلور سے آکو پنچر کی سوئیاں بھی لگوانی ہیں ۔ پھر روازنہ شام میں اور سردار صاحب دوسرے فلور پر ایک ایک کرسی پر بیٹھ جاتے اور سوئیاں لگواتے اور ساتھ ان کے ساتھ گپ شپ بھی لگاتے ۔
دو تین دن سکون سے گزرے روازنہ رات کو مسٹر وانگ کسی نہ کسی کے ساتھ آتے اور سردار صاحب سے ملاتے تھے ۔ کہ یہ ہیں جن کی لیز پر ہم نے کام کرنا ہے ۔ مسٹر چھن ( Chen ) بھی تقریبآ روزانہ ہی چکر لگتے تھے ۔ ہفتے کے دن مسٹر چھن ( Chen ) گاڑی لے کر آئے اور ہمیں ساتھ لے کر دریا کے کنارے ایک بہت بڑے پارک میں آ گئے ۔ بہت صاف ستھرا پارک تھا ۔ بہت سے لوگ کپڑے کے بنے پتنگ اڑا رہے تھے ۔ پارک کے درمیان میں چیرمین ماؤ ( Mao ) کا مجسمہ بھی لگا تھا ۔ مسٹر چھن نے مجھے بتایا کہ سخت سردی کی راتوں میں چیرمین ماؤ اس دریا میں نہاتے تھے تاکہ سخت جان بنیں اور تحریک کی کمانڈ کر سکیں ۔ چیرمین ماؤ نے یہاں کے غریب کسانوں کے اندر انقلاب کی روح پھونک دی اور انہیں کرپٹ حکومت کے خلاف اٹھنے کا جذبہ دیا ۔ جو لانگ مارچ کی صورت میں سامنے آیا ۔ یہاں کے غریب کسان جو پہلے ہی کم پیداور اور حکومتی عہدوں کی کرپشن کی وجہ سے انتہائی مشکلات میں تھے اس نعرے کہ دولت چھین کر سب میں برابر تقسیم کر دو کے پیچھے اپنا سب کچھ لٹانے کےلیے تیار ہو گئے ۔ اس علاقے کے لوگ اپنے چیرمین ماؤ پر فخر کرتے ہیں ۔ مسٹر چھن نے بتایا کہ اس صوبے کی ایک اور بڑی پہچان یہ بھی ہے کہ یہاں آتش بازی کی بہت سی فیکٹریاں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ہفتے اور اتوار کی رات کچھ اپنی پروڈکٹس کی نمائش کےلیے اس پارک میں دریا کے کنارے آتش بازی کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ سو ہم نے بھی وہ نظارہ دیکھنے کا فیصلہ کر لیا اور وہیں پارک میں شام تک گھومتے رہے ۔ اندھیرا شروع ہوا اور مظاہرہ بھی واقعی کمال کا تھا ۔ رات واپس ہسپتال آ گئے ۔
اگلے دن شام کو مسٹر چھن نے سردار صاحب سے اجازت لی اور مجھے ساتھ اپنے گھر لے گئے ۔ ان کا گھر ایک اونچی بلڈنگ کے بارویں منزل پر تھا ۔ بہت نفیس اور صاف ستھرا اور بہت ہی روایتی انداز کا بنا ہوا گھر تھا ۔ فرش پر ٹائیل کی جگہ چوڑی اینٹیں لگی ہوئی تھی فرنیچر انتہائی سادہ اور پروقار اور دھیمی دھیمی روشنی ۔ بہت ہی روایتی اور رومیٹک ماحول جو مجھے بہت پسند آیا اور میں نے کھل کر اس کی تعریف کی ۔ گھر میں ان کی بیوی اور ایک بیٹی تھی اور ساتھ ان کی والدہ اور والد ۔ تعارف ہوا تو ان کے والد اور والدہ جو کہ ٹیچر کی جاب کرتے تھے اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے ۔ ان کی بیوی بھی بہت دھیمے لہجے کی انتہائی نفیس خاتون ۔ میں نے مسٹر چھن سے کہا کہ آپ دونوں انتہائی پڑھے لکھے اور انتہائی نفیس ہیں آپ کے درمیان تو کبھی لڑائی ہو ہی نہیں سکتی ، گھر میں بس خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی ۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا یہی کیسے ہو سکتا ہے کہ دو انسان اکٹھے رہتے ہوں اور ان میں اختلاف نہ ہو ۔ وہ پھر کھانے کےلیے بیٹھ گئے اور میں نے عشاء کی نماز وہیں ایک کونے میں ادا کی اور مسٹر چھن کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ انہوں نے کچھ باتیں مجھے سے پاکستان کے متعلق پوچھیں کیونکہ ان کا پروگرام سردار صاحب کا علاقہ دیکھنے کا تھا ۔ مسٹر چھن سے میں نے ان کے مذہب کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں کے لوگ تاؤ ازم سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہر علاقے کی اپنی رسومات ہیں ۔ میں نے ان سے کائنات کی ابتداء کے متعلق پوچھا تو انہوں نے یہ بتایا کہ اس کائنات کی پیدائش سے پہلے ہر طرف اندھیرا تھا . دوسرے لفظوں میں کچھ پتہ نہیں کیا تھا ایک کنفیوژن تھی ۔ 18000 سال کے عرصے میں اس کنفیوژن نے اکٹھے ہو کر ایک انڈے کی شکل اختیار کی ۔ اس انڈے کے اندر ساری کاسموز ( cosmose ) بند تھی ۔ ین ( yen ) اور ینگ ( Yang ) دو قوتوں ( dark and light , negative positive ) نے اس انڈے کے اندر ایک دوسرے کا مقابلہ کیا . آخر کار مناسبت اور بیلنس پیدا ہو گیا جس سے ایک سپر بینگ ( super being ) پینگو (pengu ) وجود میں آ گیا ۔ اس پینگو ( pengu ) نے اپنی کلہاڑی سے انڈے کو توڑا ۔ اس سے یونیورس باہر آ گئی روشنی پھیل گئی اور سیارے اور ستارے وجود میں آ گئے ۔ یہ انڈہ دو حصوں میں ٹوٹا ، ایک حصہ زمین اور ایک حصہ جنت ۔ یہ جو سپر بینگ ( pengu ) ہے اس آدم سمجھ لیں ۔ اور اکثر کتب میں پینگو ( pengu ) ہتھوڑا اور راڈ لے کر اس کی نک سک درست کر رہا ہے ۔ یعنی مختلف حصوں کو مختلف شکلیں دے رہا ہے ۔ یہ ساری میتھالوجی سب سے پہلے ریکارڈ میں 220 سے 280 CE میں سامنے آئی ۔
پھر اس کے بعد ان کے دیوتاؤں کے چار مختلف مدارج ہیں ۔پہلے نمبر پر وہ دیو مالائی شخصیات ہیں ( mythologycal Beings ) یا یوں کہہ لیں کہ تصوراتی شخصیات ۔ دوسرے درجے پر نیچرل ارواح ( Natural sprits ) تیسرے درجے میں تاریخی شخصیات ( legendary historical humans elevated to realm of the god ) خود دیوتاؤں کی طاقتیں رکھتی ہیں اور چوتھے درجے پر علاقائی دیوتاؤں کی طاقتیں رکھنے والی شخصیات ( deties tied to the there major religion of the land confusim . Buddhism and Taoism ) جو کسی دور میں آپ یوں سمجھ لیں کہ اعلی خصوصیات رکھتی تھی یا ان کے نام سے کچھ کارنامے منسوب ہیں ۔ یعنی طاقت مختلف درجوں میں تقسیم ہے ۔ ایک بڑا دیوتا ہے اور کچھ چھوٹے اس کے چیلے ۔ اسے آپ ہمارے تصوف میں اوتار ، ابدال ، قطب سے سمجھ لیں ۔ کچھ کی طاقتیں زیادہ کہ ان سے زیادہ کیا تصور کیا جا سکتا ہے تو باقی اس کے چیلے جو کچھ تھوڑی بہت ملی اسی ہر قناعت کر لی ۔ یا لوگوں کے تصورات پہلے والوں کے بارے میں بہت پختہ ہو چکے تھے اس لیے اس کے نیچے کے درجے کی طاقت کے لحاظ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی ۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ ان عقائد کی بنیاد کیا ہے یا یہ ساری باتیں انہیں کہاں سے ملیں ۔ کیونکہ وہ تو ایک ماورائی دنیا کی بات ہے جس وقت انسان کی پیدائش بھی نہیں ہوئی ۔ تو خبر دینے والا کوئی وہ ہونا چاہیے جو اس سارے پراسس کو جو کنفیوژن سے ہو رہا ہے اور جو انڈے کے اندر اور باہر ہو رہا ہے اسے دیکھ رہا ہو اور وہ اس سارے پراسس کے باہر کھڑا ہو ۔ یعنی جب کچھ بھی نہیں تھا جسے آپ کنفیوژن کہہ رہے ہیں اور اس سے پہلے ، اس سے باہر موجود ہو اور پھر وہ اس انسان کو جس کی پیدائش اس کنفیوژن کے بعد انڈے کے اندر ایک لمبے عرصے کے پراسس کے بعد ہوئی وہ اسے خبر دے ۔ ورنہ تو یہ صرف ایک فلسفہ اور اپنی ذہنی اختراع ہی ہو سکتی ہے یا اندازے ہی ہو سکتے ہیں ۔ پھر وہ دو طاقتیں جو انڈے کے اندر تھیں ین اور یانگ( yen Yang ) وہ کہاں سے آئیں اور پھر وہ بیلنس کیسے ہو گئی کہ ان سے ( pengu ) کی پیدائش عمل میں آئی ۔ پھر پینگو ( pengu ) کے پاس وہ کلہاڑی کہاں سے آئی جس سے اس نے انڈے کو توڑا اور کاسمو ( cosmos ) اور روشنی کو پھیلنے کے لیے آزاد کیا ۔ پھر جنت اور دینا کا خالق کیا وہ ہینگو ( pengu ) ہے جس نے ہتھوڑے کی مدد سے انڈے کے دونوں حصوں کی تراش خراش کی اور ایک کو جنت اور دوسرے کو زمین بنا دیا ۔
ان کے پاس میرے اس سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ بلکہ انہوں نے الٹا مجھے سے کہا کہ تم اتنی گہرائی میں کیوں جاننا چاہتے ہو ۔ یہ تو ایک روایت ہے جو نسل در نسل ہمیں ملی ۔ یعنی وہ اس روایت پر سوال اٹھانے کو تیار نہیں تھے ۔ سوال تو اور بھی بہت سے تھے کہ یہ جو نیچے شکتیوں والے ہیں کیا یہ دعوے انہوں نے خود کیے یا لوگوں نے خود ان کے بارے میں تصور قائم کر لیا ۔ کیا یہ بھی اس بڑی شکتی والے کے حصہ دار بنتے ہیں اور اس بڑی شکتی والے نے یہ اختیارات اس چھوٹی شکتی والے کو منتقل کیے ہیں ۔ لیکن مسٹر چھن نے کبھی شاید اتنی گہرائی میں سوچا ہی نہیں ۔ دین آباء تھا جسے وہ لے کر چل رہے تھے ۔ یہ وہی حالت ہوگئی جو قرآن نے سوال اٹھایا کہ کیا ان کی کے ان دیوتاؤں کے پاس اختیارات کا کوئی حصہ ہے ، ہے تو کوئی سند پیش کریں ۔
وقت کافی ہو گیا وہ مجھ اپنی گاڑی میں بیٹھا کر ہسپتال سردار صاحب کے پاس چھوڑ آئے ۔ میں نے بستر پر لیٹے ہوئے سوچا کہ یہ انسان اس سوال سے جان چھڑا ہی نہیں سکتا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اس کی ابتداء کیا ہے ۔ جواب نہ ملے تو اپنے فلسفے ہی تراش کر دل کو تسلی دے دیتا ہے ۔ لیکن یہ سوال اس کی جان چھوڑتا نہیں ہے ۔جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply