حساب/سیّد محسن علی

‘‘خیر سے اپنی آسیہ بھی شا دی کی عمر کو پہنچ رہی ہے، ہمیں اس کے جہیز کی تیاری ابھی سے شروع کرلینی چاہیے تاکہ جیسے ہی کو ئی مناسب رشتہ ملے اس کے ہا تھ پیلے کر دیں ’’
اس رات یہ بو ل کر صدیقی صا حب کی بیگم نے ان کی آنکھوں سے نیند چھین لی تھی ۔ وہ بیگم کو یہ جواب نہیں دے پائے کہ پچھلے چند ماہ سے وہ اپنے حساب میں گڑبڑ محسو س کر رہے ہیں بچت تو دور کی بات ، مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی تنخواہ ختم ہونے لگی ہے اور آخر کے دن جب نہایت تنگدستی میں گزرہے ہوں تو ایسے میں جہیز کی تیاری فحلال ناممکن امر ہے ۔
(۲)
صدیقی صاحب کی زندگی میں حساب کتاب کو خاصی اہمیت حاصل تھی جس کی دووجوہات تھیں ایک تو حساب، ـ زمانہ طالب علمی سے ہی ان کا پسندیدہ مضمون رہاتھا اور دوسری وہ ایک فیکٹری میں کھاتوں کی دیکھ بھال پر ہی ملازم تھے بننا تو وہ بہت کچھ چاہتے تھے لیکن نو عمری میں ہی یتیم ہوگئے اور گھر کی کفالت کی زمہ داری ان کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی ۔ وہ تو بھلا ہو فیکٹری کے مالک کا جس نے ان کے مرحوم باپ کی نمک حلالی کی لاج رکھتے ہوئے انہیں مل میں ملازم رکھ لیا اور یوں وہ زندگی کی مزید تلخ آزمائشوں سے بچ گئے اور گھر کے دال دلیے کا بندوبست ہو گیا ۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب ، خواب ہی ر ہ گیا اور وہ فیکٹری کے کھاتوں میں ایسے الجھے کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ آج ان کا لڑکایو نیوورسٹی میں اور لڑکی کا لج میں زیر تعلیم تھے ۔ یہ ان کی زندگی کے ہر معاملے میں حساب کتاب کی اہمیت اور شروع ہی سے کم آمدنی میں کفایت شعاری کے ساتھ زندگی گزارنے کی مشق کا ہی نتیجہ تھا جو وہ اس قلیل آمدنی میں نہ صرف اپنے بچوں کو تعلیم دلوارہے تھے بلکے اپنا سفید پوشی کا بھرم بھی قائم کیے ہو ئے تھے ۔ باقی ان کی زندگی میں سادگی ہی سادگی تھی اور یہی تربیت انہوں نے اپنی اولاد کی بھی کی تھی ۔ وہ تنخواہ ملنے سے قبل ہی گھر کا بجٹ بنالیتے اور اس کے مطابق خرچہ کرتے لیکن اب تو مہنگائی کے عفریت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔ جب ملک کے حکمران عوام کی جانب سے کروٹ لے کر غفلت کی نیند سوجاتے ہیں تو صد یقی صاحب جیسے کتنے محنت کشوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں ۔ انہیں اب احساس ہورہا تھا کہ اب ان کی اتنی حیثیت نہیں جو وہ بجٹ بنائیں ، بجٹ بنانا تو صر ف حکومت کا کھیل ہے جس میں عام آدمی کے لیے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اس دن بھی جب دکاندار نے مہینے کے راشن کا بل ان کے سامنے رکھا تو وہ جھلا گئے
ـ‘‘میاں کیا اب ہمیں بھی زیادہ دام لگا رہے ہو ، آٹا اور تیل کے اتنے بھاؤ ؟ ’’
(۳)
اس شکوے پر دوکاندار بھی پھٹ پڑا :
ـ‘‘ اماں صدیقی صاحب کس دنیا میں ہو ہر چیز پر تو قیامت مچی ہو ئی ہے، اب جب ہمیں ہی آگے سے مہنگا مال آئے گا تو پرانے دامو ں میں کسیے بیچیں گے آپ بتادو، اور اب جو آٹا آئے گا وہ اور بھی مہنگا ہوگا یہ تو پچھلے نرخ کا مال رکھا تھا ۔ ’’
اور صد یقی صاحب اپنا سا منہہ لے کر خاموش ہوگئے انھوں نے چپ چاپ حساب شدہ رقم دکاندار کے حوالے کی اور بقایہ اگلے ماہ کے کھاتے میں ڈلوا کر واپس آگئے۔
صدیقی صاحب کے لڑکے نے بھی کئی بار کوشش کی کہ یونیورسٹی کے بعد کو ئی چھوٹی موٹی نوکری کر لے تا کہ باپ کا ہا تھ بٹاسکے لیکن انہوں نے ہر بار اسے سختی سے ڈانٹ دیا اور ساری توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز کرنے کی تاکید کی ۔ اس غریب کی تربیت میں چونکے سعادت مندی اور قناعت پسندی کا عنصرزیادہ غالب تھا اس لیے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی باپ کی حکم عدولی کی جرات نہیں کرسکا۔
دراصل وہ نہیں چاہتے تھے کہ جن حالات کا سامنا انہیں کرنا پڑا وہی کٹھن وقت ان کی اولاد کے بھی آگے آئے۔ خواہ انہیں کچھ بھی کرنا پڑے لیکن ان کا بیٹا اپنی تعلیم مکمل کرکے بڑا آدمی بنے تاکہ انہیں اپنے خواب کی تعبیر مل جائے ۔ لیکن اب تو اس ہو شربا مہنگائی کے آگے صدیقی صا حب جیسا سفید پوش شخص بھی سہم گیا تھا انہیں ڈرلگ رہا تھا کہ کہیں حالات ایسے نہ ہو جا ئیں جو ان کے فرزندکو بھی کہیں ملازمت نہ کرنی پڑجائے ۔ اب یہی حل ہے کہ کچھ نہ کچھ تو آمدنی میں اضافہ ہو نا چاہئے مگر کیسے ؟
کبھی وہ سوچتے کہ وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلیں لیکن پھر اگلے ہی لمحے وہ اس خیال کو اپنے دل سے ہنس کر نکال دیتے کیونکے کسی چھوٹے کاروبار کے لیے بھی وقت ا ور سرمایہ دونوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اوران کے پاس فلحال دونوں ہی نہیں تھے ۔

(۴)
کا فی سوچ بچار کے بعد صدیقی صاحب نے فیصلہ کیا کہ جیسے ہی سیٹھ صاحب لندن سے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس آئیں گے وہ ان سے ضروراپنے لیئے درخواست کریں گے۔ اﷲبخشے جب مرحوم بڑے سیٹھ صاحب زندہ تھے تو ہر سال ملازمین کو بونس ملتا تھا یا تنخو اہوں میں اضافہ ہوتا تھا لیکن چھوٹے صاحب تو۔۔۔ما ضی کی یاد آتے ہی ا ن کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی کہ کاش اگر وہ کوئی سرکاری ملازمت حاصل کرلیتے تو ہر سال تنخوہ میں اضافہ تو ہوتا رہتاچاہے بلکے اب تو وہ ریٹائرمنٹ لینے والے ہوتے ورنہ عام غریب آدمی تو تاحیات ریٹائر نہیں ہوتا۔ ملک کے حالات جیسے بھی ہوں سرکاری ملازمین احتجاج کرکے تنخواہ بڑھوالیتے ہیں جب کہ عام آدمی اپنی تنخواہ بڑھوانے کا مطالبہ بھی کردے تو اسے نوکری سے ہی فارغ کردیا جاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن صدیقی صاحب نے نہ صر ف فیصلہ کیا بلکے عرضی لے کر چھوٹے سیٹھ صاحب کے دفتر میں جانے لگے ۔ منیجر صاحب کو جب ان کے ارداے کا پتہ چلاتو انھو ں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنتے ہوئے انہیں اس جائز مطالبے سے باز رہنے کی ہدایت کی اور سمجھا نے لگے ۔
‘‘ـصدیقی تم تو جانتے ہو اب پہلے جیسے حالات کہا ں رہے ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی کو نوکری سے نکلا جا رہا ہے، ایسے وقت میں تنخواہ میں اضافے کی بات کرنا ہی سر ا سر غلط با ت ہے۔ شکر کرو تنخو اہ تو وقت پر مل رہی ہے۔’’
دراصل منیجر صاحب سوچ رہے تھے کہ اگر آج ان کی تنخواہ میں اضافہ ہو گیا تو کل اور بھی لوگ کھڑے ہوجا ٰ ئیں گے اور ان کے لیے نئی مشکل آ جائیگی۔ صدیقی صاحب جواب میں اتنا ہی کہہ سکے۔
(۵)
‘‘ صاحب مجھے سیٹھ صاحب سے ملنے دیں میں انھیں صرف یہ بتاوں گا کہ اب میرے حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہے، باقی جو سرکار کی مرضی۔’’ صدیقی صاحب جواب میں اتنا ہی کہہ سکے۔
دراصل انہیں یہ احساس تھا کہ چھوٹے سیٹھ صاحب جانتے ہیں کہ وہ اور ان کے والد، بڑے سیٹھ صاحب کے زمانے سے ہی ان کے سچے نمک خوار رہے ہیں اور یہی سبب بھی تھا جو وہ اپنی نوکری کو اتنا طول دینے میں کامیاب بھی ہوگئے تھے ۔ لہذا وہ بڑے بھروسے کے ساتھ چھوٹے صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ خلاف توقع انہوں نے نہ صرف صدیقی صاحب کی دراخوست سنی بلکے خوب غور و خوض کے بعد ان کی تنخواہ میں تھوڑا بہت اضافہ بھی کر دیا وہ الگ بات ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے زمے چند برخواست شدہ ملازمین کے کاموں کا اضافہ بھی کردیا گیا تھا۔ اب وہ گھر واپسی پر اتنا تھک جاتے تھے کہ انہیں کسی سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس رات صدیقی صاحب نے خبریں سننے کے لئے ٹی وی لگایا تو اسکرین پر بریکنگ نیوز کی پٹی چل رہی تھی اور نیوز کاسٹر خوب جوش و خروش کے ساتھ چیخ چیخ کے کہہ رہی تھی ۔
ــ”حکومت کا عوام پر ایک اور بم گرانے کا فیصلہ، پیٹرول کی دام بڑھانے کے بعد بجلی کے نرخو ں میں بھی ہوشربا اضافہ کیا جارہاہے ، یاد رہے یہ خبر سب سے پہلے ہمارے چینل نے ہی بریک کی ہے، ہم آپ کو ایک بار پھر سے بتاتے ہیں کہ………….،،
صدیقی صاحب نے فورا ٰ ً ٹی وی بند کردیا اور آنکھیں بند کر کے بستر پر ڈھیر ہوگئے صبح انہیں بہت کام کرنا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply