اے میرے سپہ سالار

اے میرے سپہ سالار
میری عقیدت کا سوال ہے !
چیف صاحب
میں ایک پاکستانی ہوں جسے ماں نے وطن کی محبت کی لوریاں دے کر پالا, افواج پاکستان سے عقیدت میرے جسم میں لہو بن کر دوڑتی ہے.اور میرا تعلق گجرات سے ہے جو شہیدوں اور غازیوں کا مسکن ہے, دھرتی ماں نے لہو کا خراج مانگا تو اس کے سرفروش بیٹوں نے اس کے آنچل پہ تین نشان حیدر سجا دئیے۔

پتہ ہے میرا گاؤں آزاد کشمیر کی سرحد پہ واقع ہے اور یہ علاقہ فوجی مشقوں کا مرکز بنتا ہے مجھے یاد ہے ، بچپن کے وہ سنہرے دن کہ ہر سال سردیوں میں گزرنے والے فوجی قافلوں کو دیکھنے کے لئے ہم پہروں سڑک پہ کھڑے رہتے پھر بے اختیار ہمارے ہاتھ سلیوٹ کے لئے اٹھ جاتے ،فوجی جی سلام!
یہ بول آج بھی سماعتوں سے ٹکراتے ہیں۔۔

ابھی کل کی بات ہے کچھ سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنی قیادت کے کہنے پر افواج پاکستان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے تو ہم تڑپ اٹھتے، ہمارے سینوں پر خنجر چلتے،کوئی تحقیر سے ” لمبر ون ” لکھتا،کوئی  اپنے جلسوں میں اس وردی کے خلاف نعرے لگواتا، جو ہمارے لئے انتہائی  مقدس ہے۔وطن سے اٹھتی آوازیں کہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔کوئی  وطن سے باہر بیٹھ کر اپنی سپاہ کے خلاف نام لے لے کر سنگ باری کرتا،کوئی  ملک دشمنوں سے ملاقاتیں کرتا،کوئی  آپ کو ننگی دھمکیوں پہ اُتر آتا،پھر آپ ہی ہمیں بتاتے تھے کہ یہ لوگ ریاست کے بھی دشمن ہیں اور فوج کے بھی۔۔اور آپ کے ڈی جی آئی  ایس پی آر نے ہی تو ہمیں پڑھایا کہ یہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے۔

چیف صاحب !
آپ کو یاد تو ہو گا
ہم پاکستانی خم ٹھونک کر میدان میں اُترے اور اس جنگ میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ہم نے ان وطن دشمنوں اور فوج کے بغضیوں کو دندان شکن جواب دیا۔یہ آپ کے خلاف کوئی  مہم شروع کرتے ،ہم لمحوں میں اس کو بے نقاب کر کے بُروں کو گھر چھوڑ آیا کرتے،اب پھر ایک یلغار ہے ،الزام و دشنام کی۔۔ مگر اس بار ہم ابھی تک سکتے میں ہیں۔

پوچھیں گے نہیں کیوں؟

کل تک آپ کے خلاف انتہائی  نفرت انگیز ٹرینڈ چلانے والے آپ کا نام لے لے کر گالیاں دینے والے آج آپ کے سر کا تاج بنے بیٹھے ہیں اور آپ انہیں سلیوٹ پیش کرنے پہ مجبور ہیں ۔
کیوں ؟ آخر ایسی کیا کایا کلپ ہوئی؟
ان کے سب گناہ کیسے معاف ہوئے؟
کونسی لانڈری میں دھل کے آئے یہ؟
ایک منتخب حکومت کو جس انداز میں گھر بھجوایا گیا اس نے پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔لیکن اس کہانی میں آپ کا نام آنے پر ہمارے دل ٹوٹے ،اعتماد کی کرچیاں ہوئیں،ہم کسی ایرے غیرے کی نہیں سنتے، کسی سازشی تھیوری پر یقین نہیں رکھتے،قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ کہتا ہے کہ مداخلت ہوئی۔

تو کیا ایک عام پاکستانی یہ گمان نہ رکھے کہ میری بہادر سپاہ ملکی سالمیت  و خود مختاری کے سوال پہ تو نیوٹرل نہ رہتی۔

ہم نے تو یہی پڑھا تھا کہ آپ اس وطن کی جغرافیائی ہی نہیں بلکہ نظریاتی سرحدوں کے بھی محافظ ہیں تو پھر یہ خاموشی چہ معنی دارد؟
آپ کچھ نہ کرتے
کم از کم ایک ٹویٹ ہی کر دیتے کہ ہم ملکی خود مختاری کے معاملے میں اس مداخلت کی مذمت کرتے ہیں
ہمارا مان رہ جاتا بھرم تو نہ ٹوٹتا
مداخلت تو ہے سازش نہیں ،یہ بتانے کی بجائے آپ اس کا فرق بتا دیتے۔
کیا دنیا کی نمبر ون ایجنسی سے یہ خوش گمانی رکھنا غلط تھا کہ وہ مداخلت کے بعد ہونے والی سازش کا سراغ نہ لگا پائے؟

چیف صاحب !
جس رات ایک منتخب حکومت کو گھر بھیجا گیا اور جس انداز میں آپ کے حوالے سے خبریں عام کی گئیں،کون تھا جو یہ ٹکرز چلوا رہا تھا ؟ اگر یہ افواہیں غلط تھیں تو آپ نے ان کو بے نقاب کیوں نہ کیا ؟
آج پھر ایک بار ہمارے دل دکھی ہیں۔پھر سے وہی مذموم پروپیگنڈا ہے اور ہمیشہ کی طرح ہمارے ازلی دشمن موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھانے میں پیش پیش۔سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے انداز میں اگلے پچھلے حساب چکانے میں لگی ہیں۔اور رہ گئے وہ دل شکستہ دل جلے جنہیں آپ نے ill informed ہونے کا طعنہ دیا۔وہ ill informed نہیں بلکہ well informed ہیں کھلی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ کیسے اس ملک میں آئین  و قانون کی آڑ میں تاریخی ناانصافی ،دھونس اور انسانوں کی تجارت کا مکروہ کھیل کھیلا گیا۔اور ایسے میں اپنے محافظوں سے جس رد عمل یا کمک کی توقع انہیں تھی وہ نظر نہیں آیا۔
اب اس صورتحال سے ہم پاکستانی دل گرفتہ ہیں
اور سوال عمران خان کا یا ایک حکومت کا نہیں
سوال ہے پاکستان کا
ملکی سالمیت و خودمختاری کا قومی وقار اور غیرت کا
کیا یہ مقام باعث تشویش نہیں کہ ہماری راج دلاری فوج کو اب اپنے ہی ٹی وی چینلز پہ اپنے حق میں اشتہاری مہم چلوانا پڑ گئی

پیارے چیف صاحب !
کل تک آپ کو گالیاں دھمکیاں دینے والے آج مسند و تاج اور خلعت فاخرہ کے حقدار ٹھہرے۔اور جو ففتھ جنریشن وار میں بغیر کسی تنخواہ کے آپ کی جنگ لڑتے رہے ان کو ڈنڈا دینے اور گھروں سے اٹھانے کی باتیں کیوں ؟

جو کل تک ریاست دشمن اور فوج دشمن تھے وہ آج آپ کے سلیوٹ کے سزا وار ہیں تو پھر یہ جو آج ill informed ہیں انہیں بھی معاف فرما دیجئے ان کے تمام مغالطے دور کر دیجیے۔

میرے سپہ سالار !
ایک بار بس ایک بار
ہمیں اس بات پہ قائل کر دیجئے کہ Operation Regime change پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے ناگزیر تھا اور مراسلے کی زبان ایک عام سی بات ہے۔یہ آپ کا مجھ ایسے پاکستانیوں پر احسان ہو گا جو پاک فوج کی عقیدت میں سرشار پھرتے ہیں۔یقین کریں ہم پہلے سے زیادہ قوت سے آپ کے سنگ لڑیں گے
بس ایک بار
ہماری آنکھوں پہ چھائی  یہ دُھند ہٹا دیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیونکہ یہ سوال ہے اس عقیدت کا جو ہر محب وطن پاکستانی کو اپنی فوج کے ہر سپاہی سے ہے،یہ جذبہ کانچ سے بھی نازک ہے اسے ٹوٹنے سے بچا لیجئے،قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے۔
دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply