• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قیامِ کربلا! قیامت سے پہلے قیامت(2،آخری حصّہ)۔۔نذر حافی

قیامِ کربلا! قیامت سے پہلے قیامت(2،آخری حصّہ)۔۔نذر حافی

اب یہی تو مقامِ اعتراض اور تعجب ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا معیار قرآن کی تعلیمات اور نبی ؐ پاک کی احادیث کے بجائے قریشی ہونا اور مہاجر ہونا بیان کیا گیا۔ حالانکہ پیغمبرِ اسلام ؐانہی نسلی و مہاجر و مقامی نیز دیگر سارے تعصبات کو مٹانے کیلئے تو مبعوث ہوئے تھے۔ خلیفہ اوّل کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ خلیفہ اوّل اپنی عُمر کے اعتبار سے دیگر صحابہ کرام خصوصاً حضرت علی ؑسے بڑے تھے۔ یاد رہے کہ جب پہلی خلافت قائم کی گئی تو اُس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی۔ اس دلیل کے بارے میں بھی تھوڑا سا سوچ لیجئے کہ اگر آپ کے پاس ایک تیس سالہ مستند پروفیسر موجود ہو، لیکن آپ اُسے اِس وجہ سے اُس کے منصب سے ہٹا دیں کہ کوئی اور عمر میں اُس سے بڑا موجود ہے تو یہ خود ایک پڑھے لکھے انسان کی توہین ہے۔ پڑھے لکھے انسان کا فائدہ ہی یہ ہے کہ کوئی چاہے اُس سے بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اُس کی اطاعت کرے۔

اگر آپ ایک بہت بڑے مستند اور جید عالم کو اُس کی عمر کم ہونے کی وجہ سے کسی بڑے بزرگ کی اطاعت کرنے پر مجبور کریں گے تو یہ خلافِ عقل ہے۔ یا تو آپ یہ کہیں کہ نبی اکرم ؐ نے حضرت علیؑ کو جتنے بھی کمالات اور اعزازات سے نوازا ہے، مثلاً آپ کو بابُ العِلم، میزانِ حق، کُلّ ایمان، حیدرِ کرار اور مولا وغیرہ وغیرہ کے خطابات عطا کئے ہیں۔ وہ سب اعزازات خاندانی تعلق، داماد ہونے نیز پرانی رشتے داری کی وجہ سے تھے اور یا پھر یہ تسلیم کریں کہ نبی اکرمؐ سب کے نبی ؐتھے اور انہوں نے کسی قسم کے مبالغے کے بغیر جیسا حضرت علیؑ کو پایا، ویسا ہی لوگوں کو بتایا۔ اب اتنی عظیم شخصیت کو تیس سال کی عمر میں چھوٹا بچہ کہہ کر منصبِ علم و ہدایت سے ہٹا دیا گیا۔ ایسا کرنے سے جہانِ اسلام کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے، چونکہ یہی تو تیس سال کی عمر (عینِ شباب) کام کرنے کی حقیقی عمر ہوتی ہے۔

سوچئے!
1۔ سقیفے میں خلافت کا معیار قریشی نسل اور مہاجر ہونے کو قرار دیا گیا، حالانکہ اسلام نسل پرستی اور علاقہ پرستی کی نفی کرتا ہے۔
2۔ سقیفے میں رائے شماری کے بغیر بیعت لی گئی۔
3۔ خلیفہ اوّل نے بھی دوسرے خلیفہ کے انتخاب کیلئے سقیفے کی روش پر عمل نہیں کیا اور اُسے مسترد کر دیا۔
4۔ خلیفہ دوّم نے جہاں سقیفہ بنی ساعدہ والے طریقہ کار کو مسترد کیا، وہیں خلیفہ اوّل کے طریقہ کار پر بھی خطِ بطلان کھینچا۔ آپ نے نہ ہی تو سقیفہ والوں کا طریقہ کار اختیار کیا اور نہ ہی خلیفہ اوّل کا۔ آپ نے ایک نیا طریقہ کار اپنایا، جو چھ رُکنی کمیٹی کا تھا۔ خلافتِ اوّل کے بعد خلیفہ دوّم کا انتخاب بھی قرآن و سنت کے مطابق یا مسلمانوں کی رائے کے بجائے خلیفہ اوّل کی ذاتی پسند سے ہوا۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہو، وہ کم از کم شفاف طریقے سے ہو۔

خلیفہ اوّل نے اپنی زندگی میں ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ منتخب کرنے کے طریقے کو مسترد کر دیا۔ آپ نے اپنے بعد سقیفہ بنی ساعدہ والے طریقے کو اپنانے کے بجائے اُس پر اپنے عمل سے خطِ تنسیخ کھینچتے ہوئے اپنے بعد والے خلیفہ کو خود منتخب کیا۔ پس خلیفہ دوّم واضح طور پر خلیفہ اوّل کی پسند تھے۔ پھر خلیفہ دوّم نے خلیفہ سوّم کا انتخاب کرتے ہوئے جہاں سقیفہ بنی ساعدہ والے طریقہ کار کو مسترد کیا، وہیں خلیفہ اوّل کے طریقہ کار پر بھی خطِ بطلان کھینچا۔ خلیفہ دوّم نے کمالِ مہارت کے ساتھ نہ ہی تو سقیفہ والوں کا طریقہ کار اختیار کیا اور نہ ہی خلیفہ اوّل کا۔ آپ نے ایک نیا طریقہ کار اپنایا جو چھ رُکنی کمیٹی کا تھا۔ اس طرح خلیفہ سوم کا انتخاب بھی قرآن و سنت یا مسلمانوں کی رائے کے بجائے چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔ پھر اُس کمیٹی کے بارے میں بھی یہ حکم دیا گیا کہ جو اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کرے، اُس کی گردن اُڑا دی جائے۔ سیاست میں اختلافِ رائے کی صورت میں گردن اُڑا دینا بھی قطعاً قرآن و سنت کے مطابق درست نہیں ہے۔

پس ختمِ نبوّت کے بعد قیامت تک کا سفر آنکھیں بند کرکے نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاً جس سفر کے بعد ایک ابدی جنت اور ابدی جہنم موجود ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کی جانشینی اور اُمّت کی قیادت و رہنمائی صرف اقتدار تک محدود نہیں۔ اقتدار اور حکومت تو رسول کی جانشینی کا ایک شعبہ ہے، جبکہ لوگوں کی ہدایت و تعلیم و تربیت اور تذکیہ نفس بھی رسول کے جانشین کی ہی ذمہ داریاں ہیں۔ رسولِ اسلام ؐکے بعد رسولؐ کے اقتدار اور حکومت کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا اور جس کے پاس اقتدار آگیا، اُسی کو ہی رسول کا جانشین اور خلیفہ کہہ دیا گیا۔ اب یہ سلسلہ اگر روکا نہ جاتا تو قیامت تک یونہی ہوتا رہتا کہ جو صاحبِ اقتدار ہے، وہی مسلمانوں کا خلیفہ ہے۔ قیامت سے پہلے اِس قیامت خیز غلط فہمی کو روکنا ضروری تھا۔

اسلامی معاشرے میں مسئلہ خلافت پر واقعہ کربلا سے پہلے کے اعتراضات اور تناو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام حسین ؑبھی اپنے باپ اور بھائی کی مانند کوئی داخلی جنگ کھڑی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آپ وارثِ پیغمبر تھے، آپ نے اُمّتِ پیغمبر کو قیامت تک کیلئے متحد کرکے بارگاہِ خدا میں لے جانا تھا۔ چنانچہ حضرت امام حسینؑ سے پہلے اُن کے نانا، اُن کے والد اور بھائی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ تاریخی قرائن اور شواہد سے روشن ہے کہ آلِ رسولﷺ کو داخلی جنگ کے بجائے داخلی بیداری مطلوب تھی۔ ورنہ امام عالی مقام ؑ بھی یزید کے خلاف لشکر اور ہتھیار جمع کرتے۔ آپ نے اپنی پوری تحریک میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ میں یزید کا تختہ الٹنے جا رہا ہوں یا اُسے قتل کرنے یا اُس سے حکومت چھیننے کیلئے نکلا ہوں۔ اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس میں کامیابی نہیں ہوگی۔ ایک مدبّر قائد، رہبر اور رسولؐ کا بابصیرت وارث اور جانشین ہونے کے ناطے آپ بخوبی جانتے تھے کہ سرکاری خزانہ، فوج اور لوگوں کی اکثریت یزید کے ساتھ ہے۔ بفرضِ محال اگر آپ یزید سے وقتی طور پر حکومت لے بھی لیتے تو پھر بھی ایسی حکومت زیادہ دیر تک نہ چل پاتی۔

امام عالی مقامؑ کی نگاہیں یزید کے تخت اور حکومت کے بجائے اُس تخت تک پہنچنے والے غلط راستوں پر مرکوز تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یزید کو غلط اور بُرا کہہ کر حصولِ اقتدار کے اُن غلط اور بُرے راستوں کو چھپا دیا جاتا ہے، جِن پر چل کر یزید ملعون، بانی اسلامؐ کی مقدس مسند تک جا پہنچا۔ آپ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں نے اسلام کو بھی اچھی طرح سے نہیں سمجھا اور زمانہ جاہلیت کے عقائد و خرافات و تعصبات کو بھی پوری طرح سے نہیں چھوڑا۔ چنانچہ آپ کو مسلمانوں کی بیداری کیلئے ایک ایسی قربانی دینی تھی، تاکہ قیامت تک ایمان لانے کے بعد مسلمانوں کو غُلام بنانے کے سارے راستے بند کر دیئے جائیں۔ آپ کا ہدف لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی مروّجہ غلامی، رسومات، خرافات، نسل پرستی اور قوم پرستی سے نجات دلا کر اُنہیں آزاد کرنا تھا۔ آپ کا ہدف صرف یزید کی حکومت کو گرانے تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ کا مقصد ہر اُس راستے کو ہمیشہ کیلئے بند کرنا تھا، جس پر چل کر کوئی بھی شخص یزید بن سکتا تھا۔ آپ ایک یزید کو مارنے کے بجائے اُس کی افزائشِ نسل کو روکنا چاتے تھے۔

اُس وقت لوگوں کی ساری توجہ نمازوں، روزوں، حفظ قرآن، ادائیگی زکواۃ و حج پر تھی اور وہ غلامی کی کراہت کو محسوس ہی نہیں کرتے تھے۔ اُن دنوں مدینہ اذانوں اور تلاوتِ قرآن سے گونج رہا تھا، آپ مدینے سے نکل آئے اور مکّے چلے گئے۔ مکّے میں لوگ حج کرنے میں مصروف تھے، لیکن آپ نے باندھے ہوئے احرام کھول دیئے اور حج کو عمرے سے تبدیل کرکے مکّے سے بھی باہر نکل آئے۔ لوگ یہ محسوس نہیں کر رہے تھے کہ اُنہیں غُلام بنایا جا چکا ہے۔! امام عالی مقامؑ چاہتے تھے کہ لوگ ہوش میں آئیں، اپنے جھکے ہُوئے سر اٹھائیں اور قیامت تک دینِ اسلام کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کریں۔ اُس وقت کے حالات آج کل جیسے ہی تھے۔ جیسے آج کل ہمارے ہاں جو نمازی و پرہیزگار اپنا مسئلہ لے کر تھانے جاتا ہے، جو آدمی بجلی کا ٹرانسفارمر یا بجلی کا میٹر لگوانا چاہتا ہے، جو شخص عدالت میں انصاف کیلئے چکر کاٹتا ہے، اُسے انصاف نہیں ملتا اور اُسے قدم قدم پر رشوت دینی ہی پڑتی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ ایک آزاد مُلک میں پیدا ہو کر بھی کیوں غُلام ابنِ غلام ہے۔

سب لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور ساتھ رشوت بھی لیتے اور دیتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی ان رشوت دینے والوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ مل کر رشوت خوروں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بس رشوت دے رہے ہیں اور اس پر ہر کوئی خوش ہے کہ کم از کم میرا کام تو ہوگیا۔ دینِ اسلام تو لوگوں کو آزاد کرانے آیا تھا، نبی اکرمؐ کی اطاعت اور فرمانبرداری تو اُن کے رسولؐ ہونے کی وجہ سے تھی، اُن کے بعد مسلمان دوبارہ اپنے جیسے لوگوں کے ہی غُلام بن گئے اور اِس غلامی کے درد کو آج بھی محسوس بھی نہیں کرتے۔ اب اگر ایسے میں قیامت آجائے تو اِن نسل در نسل غُلاموں نے رسول ؐ کے بعد رسول کے معیّن شدہ خلیفے کی اطاعت ہی نہیں کی اور بغیر اطاعت کے ہی اِس دنیا سے چلے گئے تو پھر قیامت تک کی نسلوں کو دین کے مکمل ہونے اور ختمِ نبوّت سے تو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس لئے کہ فائدہ تو اُسے پہنچے گا، جس نے نبی ؐ کے بعد بھی نبیؐ کی اطاعت کی ہوگی۔ فائدے اور ثواب کا تعلق تو اطاعت اور عمل سے ہے۔

چنانچہ امام عالی مقام کا مقصد قیامت تک کے انسانوں کی ایسی تربیت کرنا تھا کہ جب بھی لوگوں کو نبی اکرم ؐ کے حقیقی خلفاء کی اطاعت سے ہٹا کر اُنہیں کسی حاکم، حکومت یا سلطنت و تخت کا غلام بنایا جائے تو وہ غُلام بننے سے انکار کر دیں۔ آپ جانتے تھے کہ اس کیلئے عوام کی عملی و شعوری تربیت کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی تربیت جو نسل در نسل قیامت تک منتقل ہوتی رہے۔ چنانچہ آپ نے قرآن و سنّت کے مطابق مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اُتر کر لوگوں کو زبردستی کی بیعت اور غُلامی سے انکار کرنے کا طریقہ بتا اور سکھا دیا۔ آپ کی شہادت کا مقصد لوگوں کو غُلامی کے نشے سے بیدار کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ ذکر و فکر اور نماز و روزے میں مست ہونے کے بجائے قیامت تک آزادی، حریّت اور سربلندی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ آپ نے لوگوں کو یہ سمجھا دیا کہ بیعت سے پہلے خلیفہ کو منتخب کرنے کا راستہ قرآن و سنّت کے مطابق ہونا چاہیئے، ورنہ قیامت تک ہر طاقتور اور صاحبِ حکومت یزید کی طرح مسلمانوں سے بیعت لیتا رہے گا۔

آپ نے ہمیشہ کیلئے یہ سمجھا دیا کہ پیغمبر کی جانشینی اور خلافت کا معیار پیغمبر کی رشتے داری اور قبیلہ نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنّت کی نصوص ہیں۔ رسولِ خداﷺ کے وصال کے بعد اُمّت کو دوبارہ پیغمبرِ اسلامﷺ کے راستے پر لانے کیلئے حضرت امام حسینؑ کیلئے یہ قیام ناگزیر تھا۔ یعنی قیامت سے پہلے یہ قیامت ضروری تھی۔ آپ نے تختِ اسلام کی طرف جانے والے قرآن و سنّت کے علاوہ وہ سارے راستے بند کر دیئے، جن پر چل کر کوئی بھی شخص یزید بن سکتا تھا۔ اگرچہ آپ کو اس کی بہت بڑی اور بھاری قیمت چکانی پڑی، تاہم آپ نے قرآن و سنّت سے ہٹ کر تختِ اسلام تک پہنچنے والے دیگر ہر راستے کو اپنے خون کے ساتھ ہمیشہ کیلئے مسدود کر دیا، یوں حسین ابن علی ؑ تو شہید ہوگئے، لیکن ہم ہمیشہ کیلئے آزاد ہوگئے۔ اب قیامت تک دنیا کا ہر آزاد منش اور حریّت پسند انسان حسین ابن علی کا شکر گزار ہے، چونکہ اگر حسین نہ شہید ہوتے تو آج گھر گھر یزید ہوتے۔ قیامِ کربلا، قیامت سے پہلے ایک قیامت ہے۔ قیامت سے پہلے یہ قیامت ضروری تھی، تاکہ قیامت تک کی ہماری نسلیں آزادی اور حریّت کے ساتھ جی سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

فتحِ مکہ کے روز جب مکہ فتح ہوگیا تو قریشیوں کا مورچہ ہی ختم ہوگیا۔ یہ اپنا مورچہ ختم ہونے کے بعد اسلام کے مورچے میں آنے پر مجبور ہوئے، چونکہ اب ان کے پاس کوئی دوسرا مورچہ باقی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے نبی ؐ کی بعثت سے فتح ِمکہ تک اسلام کے خلاف تلوار کھینچے رکھی، لیکن نبی ؐ نے فتح مکہ کے روز بھی اِن پر تلوار نہیں کھینچی اور ان سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا۔ آپ نے فتح کے روز کسی قسم کا جشن بھی نہیں منایا اور کوئی ایسی مجلس بھی نہیں سجائی کہ لوگ آکر واہ واہ کریں۔ آپ نے اپنے عمل کے ساتھ قریشِ مکہ کو یہ بات سمجھا دی کہ قریشیوں کے نزدیک فضیلت و برتری کا معیار اور جنگ و فتح کا انداز نبی ؐ پاک کی سیرت سے قطعاً مختلف ہے۔ آپ نے ایک قطرہ خون بہائے بغیر، متکبر و مشرک قریشیوں کی ناک کو خاک پر رگڑا۔ تاہم مع الاسف سقیفہ بنی ساعدہ میں اسی قریشی اور مہاجر ہونے کو ہی اسلامی خلافت کا معیار قرار دیا گیا۔ چنانچہ یہاں پر سوچنے، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی طرف سے یہ اعتراض اور سوال تو بنتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply