محبت کے چالیس اصول (از شمس تبریزی)/2آخری حصّہ -مترجم:محمو داحمد غزنوی

21- اُس نے ہم سب کواپنی صورت پر پیدا کیا ہے لیکن اسکے باوجود ہم سب ایک دوسرے سے مختلف اور یکتا و ممتاز ہیں۔ کوئی بھی دو انسان ایک جیسے نہیں۔ کوئی بھی دو دل یکساں طور پر نہیں دھڑکتے۔ اگر وہ چاہتا تو کہ سب لوگ ایک جیسے ہوجائیں، تو وہ انکو ایک جیسا ہی بناتا۔ چنانچہ اب ان اختلافات کی توہین و تنقیص کرنا اور اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا دراصل پروردگارِ عالم کی قضا و قدر اور بلند پایہ حکمت کی توہین کے مترادف ہے۔

22- جب اسکا سچا چاہنے والا کبھی میکدے میں جا پہنچے، تو وہ میکدہ اسکے لئے محراب و مصلے کی صورت اختیار کرلیتا ہے، لیکن اگر کوئی بہکا ہوا مئے خوار مسجد میں بھی چلا جائے تو وہ اسکے لئے میخانہ بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اس میں اصل کردار تو ہمارے دل کا ہے، ہمارے اندر کا ہے ، ظاہر کا نہیں۔ صوفی لوگوں کو انکے حلئے اور انکی وضع قطع سے نہیں جانچتے۔ جب ایک صوفی کسی پر اپنی نگاہ جماتا ہے تو وہ دراصل اپنی دونوں آنکھوں کو بند کرچکا ہوتا ہے اور ایک تیسری آنکھ سے(جو اسکے قلب میں ہے) اس منظر کے اندر کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔

23- زندگی تو ایک ادھار کی مانند ناپائیدار ہے اور اصل حقیقت کا ایک دھندلا سا خاکہ اور نقل۔ صرف بچے ہی اصل حقیقت کی بجائے کھلونوں سے بہلتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود، لوگ کھلونوں پر فریفتہ ہوتے ہیں یا بے قدری سے انہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ اس زندگی میں ہر قسم کی انتہاؤں سے دور رہو، کیونکہ انتہاپسندی تمہارے اندرونی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ صوفی اپنے رویوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے بلکہ متوازن اور نرم ہوتے ہیں۔

24- پروردگار کی سلطنت میں انسان کو بہت خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اللہ نے کہا ، ” اور میں نے اسکے اندر اپنی روح میں سے پھونک دیا”۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس قابلیت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اسکا خلیفہ بن سکے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تمہارے اعمال اسکے خلیفہ جیسے ہیں؟ یاد رکھو کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس رحمانی روح کو (جو ہم میں پھونکی گئی ہے) کو اپنے اندر دریافت کریں ، پہچانیں اور اسکے ساتھ جئیں۔

25- جنت اور دوزخ کے بارے میں فکرمند رہنا چھوڑدو کیونکہ جنت اور دوزخ یہیں ہیں اسی لمحہءِ موجود میں۔ جب بھی ہم محبت محسوس کرتے ہیں، جنت کا ایک زینہ طے کرتے ہیں اور جب بھی نفرت ، حسد اور جھگرے میں پڑتے ہیں، دوزخ کی لپٹوں کی زد میں ہوتے ہیں۔ کیا اس سے بھی بد تر کوئی دوزخ ہوسکتا ہے جب کوئی شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس پائے کہ اس سے کوئی بیحد غلط اور برا کام سرزد ہوگیا ہے۔ اس شخص سے پوچھ کردیکھو وہ تمہیں بتائے گا کہ دوزخ کسے کہتے ہیں۔ اور کیا اس سے بڑی بھی کوئی جنت ہوسکتی ہے جب کسی شخص پر خاص لمحات میں وہ سکینت نازل ہوتی ہے جب اس پر کائنات کے دریچے کشادہ ہوتے ہیں اور انسان اپنے رب کے ساتھ قرب کی حالت میں ابدیت کے اسرار سے ہمکنار ہوتا ہے؟ پوچھو اس شخص سے، وہ تمہیں بتائے گا کہ جنت کیا ہوتی ہے۔

26-کائنات ایک وجودِ واحد ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے واقعات کے غیر مرئی دھاگوں سے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹا ہوا ہے۔ ہم سب جانے انجانے میں ایک خاموش مکالمے کا حصہ ہیں۔ کسی کو دکھ نہ دو، نرمی اور شفقت کا برتاؤ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھ اسکی برائی مت کرو خواہ ایک بے ضرر سا جملہ ہی کیوں نہ ہو۔ الفاظ جو ایک بار ہماری زبانوں سے نکل آتے ہیں، وہ کبھی فنا نہیں ہوتے بلکہ ایک لامحدود وسعت میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتے ہیں اور اپنے مقرر وقت میں واپس ہم تک آن پہنچتے ہیں۔ بالآخر،کسی بھی آدمی کی تکلیف، ہم سب کو ایک اجتماعی دکھ میں مبتلا کرجائے گی اورکسی بھی آدمی کی خوشی ہم سب کے ہونٹوں پر مسکان کا باعث بنے گی۔

27- یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہان بلند کی گئی ہر آواز، پہاڑوں سے ٹکرا کر بازگشت کی صورت میں واپس ہم تم پہنچتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس ضرور پلٹ کر آئے گی۔ چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کیلئے برے کلمات منہ سے نکالو، جو ہر وقت تمہارا برا سوچتا رہتا ہے، تو یہ اس معاملے کو اور بھی گھمبیر بنادے گا اور تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔ بجائے اسکے کہ تم اسکے لئے کچھ برا کہو، چالیس دن تک اسکے لئے اچھا سوچو اور اچھی بات منہ سے نکالو، تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شئے مختلف محسوس ہوگی، کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے اور اندر سے تبدیل ہوگئے۔

28- ماضی ایک تعبیر ہے ایک نقطہ نظر ہے، جبکہ مستقبل مایا (Illusion) ہے ، ایک سراب ہے۔ دنیا ایک خطِ مستقیم کی شکل مین وقت کے دھارے میں سے نہیں گذرتی جو ماضی سے مستقبل کی طرف جا رہا ہو، بلکہ وقت ہمارے اندر سے بتدریج پھیلتے ہوئی لامتناہی قوسوں (Spirals) کی صورت میں گذرتا ہے۔ ابدیت لامحدود وقت کو نہیں بلکہ وقت سے ماورا ہونے کا نام ہے۔ اگر تم ابدی روشنی کے حامل ہونا چاہتے ہو تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے نکال دو اور فقط لمحہءِ موجود میں باقی رہو۔ یہ لمحہءِ موجود ہی سب کچھ تھا اور سب کچھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

29- تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ تمہاری زندگی کو مکمل طور پر باندھ کر رکھ دیا گیا ہے۔ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دینا اور کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوئی کوشش نہ کرنا ،محض جہالت کی علامت ہے۔ کائناتی موسیقی ہر طرف سے پھوٹ رہی ہے اور اسکے چالیس مختلف درجات ہیں۔ تمہارا مقدر وہ درجہ ہے جس پر تم اپنا ساز بجا رہے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارا ساز تبدیل نہ کیا جاسکے، لیکن اس ساز سے جو نغمہ اور جو دُھن تم نکالتے ہو اسکا انحصار صرف اور صرف تم پر ہے۔

30- سچا صوفی ایسا فرد ہے کہ اگر اس پر کوئی ناحق تہمت لگائی جائے، اور ہر سمت سے اس پر ملامت کی بوچھاڑ ہو، تب بھی وہ صبر کے ساتھ یہ سب جھیلتا ہے اور تنقید کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا۔ وہ الزام کے جواب میں الزام نہیں لگاتا۔ اورکوئی اسکا مخالف اور دشمن حتیٰ کہ “غیر” ہو بھی کیسےسکتا ہے جب اس کے نزدیک کسی غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے، چنانچہ وہ کسطرح کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟

31- اگر تم اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہو تو اسکے لئے تمہیں اپنے اندر کی سختی دور کرنا ہوگی۔ چٹان کی طرح مضبوط ایمان کیلئے کسی پرندے کے پروں سے بھی زیادہ نرم دل درکار ہے۔ زندگی میں بیماریاں، حادثات ، نقصان ، تمناؤں کا ٹوٹنا اور اس قسم کے کئی دیگر معاملات ہمارے ساتھ اسی لئے پیش آتے ہیں تاکہ ہمیں رقتِ قلب عطا کریں، ہمیں خودغرضیوں سے نکالیں، نکتہ چینی کے رویے تبدیل کریں اور ہمیں کشادہ دلی سکھائیں۔ کچھ لوگ تو سبق سیکھ کر نرم ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ کے قریب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے قلوب اتنے کشادہ ہوں کہ تمام انسانیت اس میں سما سکے اور اسکے بعد بھی ان میں مزید محبت کی گنجائش باقی رہے۔

32- کوئی امام، کوئی پادری، کوئی ربی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی تمہارے اور تمہارے رب کے بیچ حائل نہیں ہونا چاہئیے۔ حتیٰ کہ تمہارا ایمان اور تمہارا روحانی مرشد بھی نہیں ۔ اپنے اقدار اور اصولوں پر ضرور یقین رکھو، لیکن انکو دوسروں پر مسلط مت کرو۔اگر تم لوگوں کے دلوں کو توڑتے رہتے ہو، تو کوئی بھی مذہبی فریضہ انجام دینا تمہارے لئے سود مند نہیں ۔ ہر قسم کی بت پرستی سے دور رہو کیونکہ یہ تمہاری روحانی بینائی کو دھندلا دے گی۔ صرف اپنے رب کو اپنا مرشدِ حقیقی سمجھو۔ علم اورمعرفت ضرور حاصل کرو، لیکن ان علوم و معارف کو اپنی زندگی کا مقصد مت بناؤ۔

33- اس دنیا میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے اور کچھ نہ کچھ بننے کی جدو جہد کرتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن اسے یہیں چھوڑنا پڑجاتا ہے، ایسے میں تم صرف اور صرف نایافت اور نیستی کو اپنا مقصد قرار دو۔ زندگی میں اتنے سبک بن جاؤ جتنا کہ صفر کا ہندسہ ہوتا ہے۔ ہم ایک برتن کی طرح ہیں۔ برتن پر خواہ کتنے ہی نقش و نگار کیوں نہ ہوں، لیکن اسکا کارآمد ہونا صرف اس خلا کی وجہ سے ہے جو اسکے اندر ہے، یہ خلا ہی اسے برتن بناتا ہے اور یہی نایافت اور خلا ہمیں بھی درست رکھتے ہیں۔ کسی مقصد کا حصول ہمیں متحرک نہیں رکھتا ، بلکہ یہی خالی پن کا شعور ہے جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔

34- سرِ تسلیم خم کرنے اور راضی برضا رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے عمل ہوکر عضوِ معطل ہوجائیں اور نہ ہی یہ جبریت (Fatalism) یا تعطیل (Capitulation)ہے۔ بلکہ یہ تو اسکے بالکل برعکس ہے۔ اصل قوت تسلیم و رضا میں ہے، ایسی قوت جو ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی الوہی(Divine) حقیقت کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں، و ہ ایسے دائمی سکون اور سکینت میں رہتے ہیں کہ اگر سارا جہان موج در موج فتنوں میں مبتلا ہوجائے تب بھی اس سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔

35- اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں، یکسانیت اور ہمواریت ہمیں آگے لیکر نہیں جاتی، بلکہ مخالفت اور تضاد آگے لیکر جاتا ہے۔ اور دنیامین جتنے بھی متضاد امور ہیں، وہ سب ہم میں سے ہر ایک کے اندر بھی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک مومن کیلئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کے کافر سے ضرور ملے۔ اور ایک کافر کو بھی اپنے اندر کے خاموش مومن کو دریافت کرنا چاہئیے۔ ایمان ایک تدریجی سفر ہے جسکے لئے اسکے مخالف یعنی بے یقینی کا ہونا لازم ہے تاوقتیکہ انسان، انسانِ کامل کے مقام تک جاپہنچے۔

36- دنیا عمل اور اسکے ردعمل کے اصول پر قائم ہے۔ نیکی کا ایک قطرہ یا برائی کا ایک ذرہ بھی اپنا ردعمل یا نتیجہ پیدا کئے بغیر نہیں رہتے۔ لوگوں کی سازشوں، دھوکہ دہیوں اور چالبازیوں کا خوف مت کھاؤ ۔ اگر کوئی تمہارے لئے جال تیار کر رہا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ بھی خیر الماکرین ہے اور سب سےاچھامنصوبہ ساز ہے۔ ایک پتا بھی اسکے علم اور اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ بس اللہ پر سادگی کے ساتھ اور پوری طرح یقین رکھو۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے، بہت خوبصورت طریقے سے کرتا ہے۔

37- خدا بہت باریک بین اور بڑا ہی کاریگر گھڑی ساز ہے۔ اتنا درست کہ زمین پر ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔، نہ ایک لمحہ وقت سے پہلے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے۔ اور یہ عظیم گھڑی، بغیر کسی استثناء کے، سبھی کیلئے بالکل ٹھیک اور درست طور پر کام کرتی ہے۔ ہر ایک کیلئے محبت اور موت کا ایک لمحہ مقرر ہے

38- کوئی حرج نہیں اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ” کیا میں اپنا طرزِ زندگی اور اپنی روش بدلنے کیلئے تیار ہوں؟ کیا میں اپنا آپ بدلنے کیلئے تیار ہوں؟”۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی کا ایک دن بھی گزرے ہوئے دن کے مساوی گذرے تو بڑی حسرت کا مقام ہے۔ ہر لمحہ ، ہر آن ، اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہئیے،نیاجنم لیتے رہنا چاہئیے۔ اور نیا جنم لینے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔موت سے پہلے مرجانا۔

39- جزو تبدیل ہوتا رہتا ہے، لیکن اسکا کُل ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ دنیا سے جب بھی کوئی چور ڈاکو رخصت ہوتا ہے، اسکی جگہ لینے کیلئے ایک نیا شخص پیدا کردیا جاتا ہے۔ اور ہر صالح اور ولی کے رخصت ہونے پر کوئی دوسرا صالح اور ولی اسکی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اس طریقے سے بیک وقت ہر شئے تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن مجموعی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

40- محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ مت سوچو کہ مجھے کس قسم کی محبت کی تلاش ہے؟ روحانی یا جسمانی، ملکوتی یا ناسوتی، مشرقی یا مغربی۔۔۔ محبت کی یہ تقسیم مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔ محبت کا کوئی عنوان نہیں ہوتا ، نہ ہی کوئی مخصوص تعریف (Definition) ۔ یہ تو ایک سادہ، اور خالص چیز ہے بس۔ محبت آبِ حیات بھی ہے، اور آتش کی روح بھی ہے۔ جب آتش آب سے محبت کرتی ہے، تو کائنات ایک مختلف روپ اور نئےانداز میں ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔
فیسبُک سے کاپی کیا گیا

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply