گھروندا ریت کا(قسط29)۔۔۔سلمیٰ اعوان

میں یہ شادی ضرور ایٹنڈ کروں گی۔
اُس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
آرام کرسُی میں دھنسے رحمان نے اُسے مسکرا کر دیکھا اور کہا۔
اگر میں اجازت نہ دوں تو………
اُس نے نٹنگ مشین روک کر بڑی شوخی سے رحمان کو دیکھا اور بولی۔
“تو معلوم ہے میں کیا کروں گی؟”
”بولو۔وہ مسکرارہا تھا۔اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔اور اِس صورت سے لُطف اٹھا رہا تھا۔اور نیڈل میں دھاگہ ٹھیک کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔
”تو میں نہیں جاؤں گی۔“
اُس نے قہقہہ لگایا۔اپنی جگہ سے اٹھا۔اس کے قریب بیٹھا اور پیار سے اس کے بال کھینچ کر بولا۔
”تو پھر طے ہے ہم چلیں گے۔“
واقعہ یہ تھا۔
رحمان کی بھتیجی کی شادی تھی۔دعوتی کارڈ تو خاصے دن ہوئے آگیا تھا۔
اُس نے جب یہ رحمان کو دکھایا اور جانے کے متعلق پوچھا تو وہ خاموش ہی رہا”دیکھیں گے۔“کہتے ہوئے اس سلسلے میں اُس نے مزید کوئی بات ہی نہیں کی۔البتہ اس کا دل بڑا چاہتا تھا کہ وہ اولڈ ڈھاکہ جائے۔تنگ وتاریک سی گلیوں میں جہاں آسمان کی صورت بھی بمشکل نظر آتی ہے اُس گھر کو دیکھے جو بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔جس کے کمرے بالکونیاں،شہہ نشینیاں۔صنچیاں سبھی ایک خاص طرز تعمیر اور تہذیب کی نمائندہ اور بنگال کے قدیم تاریخی ورثے کی امین ہیں۔ جہاں اُس کی چار پانچ بھاوجیں تین بہنیں اور ان کے ڈھیر سارے بچے ہیں۔مگر رحمان اپنی فیملی سے بڑا الرجک نظر آتا تھا۔صرف ایک مرتبہ وہ اُسے لیکر اپنے قدیمی گھر میں گیا تھا۔جب وہ اُس کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی۔رحمان چچا، رحمان ماموں، رحمان بھائی، اپنی نئی دلہن کے ساتھ آئے ہیں۔
ایسی آوازوں سے گھر گونج گیا تھا۔
وہ ایک بڑے سے کمرے میں تخت پر بیٹھی ایک معمر خاتون جسے رحمان نے جہاں آراآپا کہہ کر اُس کا تعارف کروایا تھا کے پاس بیٹھ گئی۔انہوں نے شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھا۔محبت سے اپنے بازوؤں میں سمیٹا۔پیشانی پر بوسہ دیا اور بہت سی باتیں پُوچھیں۔جن کے جواب وہ بڑی مدھم آواز میں دیتی رہی۔
رحمان کی خواہش کے باوجود اُس نے بھاری کامدار ساڑھی نہیں پہنی تھی۔ زیورات بھی الماری کے سیف سے نہیں نکالے تھے۔ایسے کپڑوں اور زیورات سے لدپھند کر جانا ایک ایسے گھر میں جہاں بہرحال طاہرہ کی کسی نہ کسی حوالے سے رشتہ داری تھی۔بُہت ناپسندیدہ تھا۔یوں بھی خوامخواہ ہی آدمی تکلف اور مصنوعی پن کا لبادہ اوڑھ لے۔لیکن جب رحمان نے اصرار کیا۔سمجھنے کی کوشش کرو۔میری اُن رشتہ دار خواتین کا ذہنی ا‘فق اتنا بلند نہیں کہ وہ کپڑوں زیوروں سے بالا ہوکر بھی کچھ سوچیں۔تمہیں ننگی بچھی دیکھ کر وہ یہی اندازے لگائیں گی کہ میں دیوالیہ ہوگیا ہوں۔
وہ روہانسی سی اُس کے سینے پر سرمارتے ہوئے بولی۔آپ سمجھتے کیوں نہیں؟
”انکی سوچیں انکے ساتھ۔ ہمارا طرز عمل ہمارے ساتھ۔چنانچہ اُس نے وہی کیا جو چاہا۔رحمان ہنسا بھی۔اب تم نے پرپُرزے نکالنے شروع کردئیے ہیں۔
شیفون کی جوگیا رنگی ساڑھی اور ڈائمند کے ٹاپس چین والے سیٹ کے ساتھ وہ اتنی زیادہ دلکش لگ رہی تھی۔کہ بھاری بھاری جوڑوں اور نیلی پیلی ساڑھیوں والیوں نے بیک زبان سرگوشی کی تھی۔
“بہت خوبصورت اور کم عمر دلہن ہے۔”
پہلی باراُسے دیکھا تھا۔سبھوں نے رونمائی میں کچھ نہ کچھ دیا۔بڑی جیٹھانی اور بڑی نند نے انگوٹھیاں دیں۔
رات کا کھانا انہوں نے سب کے ساتھ کھایا۔اس سارے وقت وہ خاموشی سے سب کو دیکھتی اور سُنتی رہی۔مگر خود کچھ زیادہ نہ بولی گو وہ اُس سے بنگلہ کی بجائے اُردو بول رہے تھے۔
پر جو کچھ پوچھا جا رہا تھا اُس میں اندخانے کہیں چنگاری تھی، کہیں بھڑکتی آگ سی تھی۔خودکچھ بولنے کی بجائے وہ رحمان کی طرف دیکھتی۔وہ خود ہی موزوں جواب دے دیتا۔رحمان سے ایک نمبر بڑے بھائی کی بیوی نے طنز ملی شوخی سے کہا۔
”اے کیا گونگی سے بیاہ کر لیا ہے۔“
وہ سُرخ ہوگئی تھی۔
رحمان نے محظوظ ہوتے ہوئے ہنس کر کہا۔”اب جیسی بھی ہے تمہارے سامنے ہے۔گونگی ہے یا اندھی کانی۔“
اور جب وہ واپس آرہے تھے اُس نے راستے میں اولڈ ڈھاکہ والوں کے بارے میں اُس کے تااثرات جاننے چاہے تھے۔
اُس نے جواباً کہا۔
مختصر سی ملاقات میں کیا رائے دی جاسکتی ہے۔عموعی سا تاثر تو کچھ اچھا نہیں۔بُہت تیز طراّر لگتی ہیں۔لیکن صحیح اندازہ تو ساتھ رہ کر اور میل جول سے ہی ہوسکتا ہے۔آپ کی دونوں بہنیں جہاں آرا آپا اور دلُدو آپا مجھے بہت شفیق لگی ہیں۔اُن کے لہجے اور انداز میں ممتا کی جھلک نظر آتی ہے۔
“میں بُہت الرجک ہوں اپنی اِن بھاوجوں سے۔یہ بی جمالو ٹائپ عورتیں ایک سے ایک بڑھ کر چغل خور،حاسدی اور اچھے بھلے گھروں میں آگ لگا کر تماشا دیکھنے والی ہیں۔اُسکے لہجے میں نفرت کا کھلّم کھلّا اظہار تھا۔
اِس کے بعد وہ پھر کبھی وہاں نہیں گئی۔لیکن پیچ در پیچ گلیوں میں واقع وہ محل نماگھر جس کی غلام گردشیں پیل پائے اور شہہ نشینیں اپنے اندر پُراِسرار سے ماضی کو سنبھالے ہوئے تھیں اسے بے طرح بھایا تھا۔
وہ چاہتی تھی کہ مہندی کی رات کو وہاں جائے اور بنگال میں شادی کی رسُوم دیکھے۔مگر رحمان نے اس مسئلے پر کوئی بات ہی نہیں کی اور وہ بھی خاموش ہی رہی۔
رحمان اچھی طرح جانتا تھا کہ ہر آنکھ اُس کا تنقیدی جائزہ لے گی۔اُسے دیکھا نہیں گھُورا جائے گا۔اس کی ہر بات اور ہر حرکت نوٹ ہوگی۔یہی وجہ تھی کہ اُس نے اُس کے لئے انتہائی قیمتی لباس تیار کروایا۔ جس صبح اُسے شادی میں جانا تھا وہ اُسے ڈھاکہ کے مشہور بیوٹی سیلون میں لے کر گیا اور دو گھنٹے کی محنت شاقہ کے بعد جب وہ باہر نکلی تو آسمانی مخلوق نظر آرہی تھی۔رحمان خوش دلی سے مسکرایااور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
جنت ارضی کی یہ حور آج سب چراغوں کوگُل کردے گی۔
اُس کے ہونٹوں پر رحمان کے ان تحسین بھرے جذبات سے بڑی شہد آگیں مسکراہٹ اُبھری تھی۔اُس کی پلکیں بارحیا سے جُھک گئی تھیں۔
واقعی ایسا ہی ہوا تھا جیسا رحمان نے ظاہر کیا تھا۔گلی سے گھر کے اندر تک جانے میں عورتیں مرد لڑکے اور لڑکیاں اُسے دیکھ کر یوں رُک رُک جاتے تھے جیسے کوہ قاف کے پہاڑوں سے کوئی پری اُترکر اِن گلیوں میں آگئی ہو۔اُسے جہاں آرا آپا کے پاس چھوڑتے ہوئے وہ بولا۔
آپا دھیان رکھیئے گا اس کا جلد گھبرا جاتی ہے۔
”ارے فکر نہ کرو۔“
اور انہوں نے بڑی محبت سے اُسے اپنے پاس بٹھایا۔بچے بھی پاس ہی بیٹھ گئے تھے۔رشتہ دار عورتوں نے رحم بھری نظروں سے بچوں کو دیکھا اور پیار کرنے کے لئے ہاتھ پکڑنا چاہا۔پر بچوں نے کمال بے نیازی سے اُن کے ہاتھ جھٹک دئیے حتیٰ کہ جہاں آراآپا کی بڑی بہو جو بچوں کی حقیقی خالہ تھی اُسے بھی بچوں نے لفٹ نہ کرائی۔اُس نے اس بات کو محسوس کیا اور طنز بھرے لہجے میں بولی۔
”بچوں پرتو جادو ہوگیا لگتا ہے۔“
اس کے چہرے کا رنگ بدلا۔جہاں آرا آپا نے محسوس کیا۔بات کی تلخی کم کرنے کے لئے بولیں۔
”بچہ اور کتا پیار کا۔محبت کرتی ہوگی نا۔ تبھی بچے دیوانے ہیں۔ایکا ایکی جیسے اس اپنے عقب سے سرگوشیوں کی آواز سنائی دی۔
”نصیبوں جلی سدا ہی میاں کے لچھنوں پر کڑھتی رہی۔اسی سے دوستانہ تھا جبھی تواُسے موت کی نیند سلا دیا۔“
جہاں آرا آپا سمدھیا نے کے بلاوے پر اٹھ کر باہر گئی تھیں۔تبھی ایک معمر عورت اُس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”اے بچی تم اتنی خوبصورت ہو۔ایسی پیاری ہوکہ تمہیں دیکھ کر بندہ پرودگار کی تعریف کرنے لگتا ہے۔بھلا کوئلوں کی اِس دلالی میں تم نے کا ہے کو اپنا منہ کالا کرنا تھا۔کوئی نیک شریف ہوتا تو بات بھی تھی ایسا لُچا،لفنگا،شرابی کبابی۔بھلا کون ساعیب ہے جو اس میں نہیں ارے بیٹی تم نے کچھ تو سوچا ہوتا۔کسی گرے پڑے خاندان کی بھی نہیں دکھتی ہو۔صورت شکل سے اُونچے حسب نسب کی معلوم ہوتی ہو۔
ایک اور عورت بھی پاس آکر بیٹھ گئی۔
وہ بھی بولی۔
”قربان جاؤں بنانے والے کے کیا حسن دیا۔پر قسمت پھوٹ گئی اے طاہرہ بدنصیب نے تو کچھ بھی نہ دیکھا۔
اُس نے پاگلوں کی طرح انہیں دیکھا۔اُس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
”طاہرہ مری نہیں اُسے مارا گیا ہے۔“
یہ ایسا کر بناک خیال تھا جس نے اُسے دہلا ڈالا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply