موت کا سفر۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

زرخیز اذہان جنگ و اقتدار کے کھیل کو لے کر زندگی سے لڑتے آئے ہیں، یہ حیران کن امر ہے کہ ان کی اکثریت موت کے خلاف کیوں نہ اٹھ کھڑی ہوئی؟
اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں موت کے ساتھ انسان کے تعلق کو جاننا ضروری ہے، قدیم دور کا انسان اپنی پوری قوت اپنی بقاء پر خرچ کرتا رہا، بھوک اور خطرے سے بچنے کیلئے انسان کے ہر فعل کے پیچھے اس کی یہی جبلتیں کارفرما رہیں، قدیم دور کا یہ فرد موت کے بارے شعور نہ رکھتا ہے، کسی عزیز کی موت پر اس کا رویہ وہی ہوتا جو کسی جانور کے مرنے پر دوسرے جانوروں کا ہوتا تھا، چونکہ آنے والے دن کا تصور یا یقین ابھی تک ذہن پہ نہ ابھرا تھا، اس لئے مرحوم کے مستقبل بارے اس کی سوچ آہنی تالوں میں بند رہی، ارتقاء کے سفر میں جب اگلے دن کی خوراک کو ذخیرہ کرنے کا فن انسان نے سیکھ لیا تو تب پہلی بار اس نے ہمکلامی کرتے ہوئے یہ سوال سامنے رکھا کہ مرنے کے بعد انسان کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور وہ کہاں جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب یہ صوفی منش انسان ہر وجود، جیسے پتھر، آسمان، درخت، دریا، بکری گویا کہ ہر چیز کو زندہ گردانتا تھا، ایسے میں موت جیسے ہولناک حادثے کا تصور ناپید تھا، کسی فرد کی موت پر یہ سمجھا جاتا کہ سانپ کی پرانی کھال کی طرح فرد نے اپنا لاغر جسم اتار پھینکا ہے، اب وہ پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ہمارے درمیان رہ رہا ہے، طاقتور اس لئے کہ اب وہ نظروں سے پوشیدہ ہے لیکن موجود ہے۔
اس صوفیانہ دور کے بعد مذہب کا دور آتا ہے، جس کے مطابق اخروی زندگی کا نظریہ سامنے آتا ہے کہ مرنے والا اس دنیا میں نہیں رہتا بلکہ آخرت کی دائمی زندگی کو کوچ کر جاتا ہے، اوائل میں دنیوی اور اخروی زندگی کے درمیان کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا، سمیری تہذیب کے مطابق فرد موت کے بعد اس دنیا میں واپس نہیں آتا، بلکہ بعد از مرگ ایک نئے جہان کا باسی ٹھہرتا ہے، ان کے مطابق فرد کی اخروی زندگی کا تعلق آپ کے اعمال سے نہیں بلکہ دنیوی حیثیت سے ہے، سمیریوں سے یہ نظریہ بابلی تہذیب کا حصہ بنا، وہاں سے یہودیوں کے ہاں سرایت کر گیا، وقت گزرنے کے ساتھ جہاں سماج اور ریاست کے قوانین سامنے آتے گئے، اور قانون و رسوم کی پابندی کا تقاضا بڑھتا گیا، وہیں اخروی زندگی کا دارومدار اب حیثیت کی بجائے اعمال کے گرد گھومنے لگا کہ دنیا میں جو بوو گے آخرت میں وہی کاٹو گے ۔
وقت کے ساتھ جدید تاریخ میں مذہب کی بجائے پڑھے لکھے انسانوں کی بڑی تعداد نے الحاد کی طرف جھکاؤ رکھنا شروع کیا، اس کے مطابق حواس خمسہ سے باہر کے کسی بھی وجود کی نفی کی گئی، حواس خمسہ کے اندر فرد کو قید کر دیا گیا، دنیا اس سے قبل اتنی محدود کبھی نہ تھی، چونکہ اخروی زندگی اس حد سے باہر کی چیز ہے، اس لئے اس کا انکار کرتے ہوئے دنیوی زندگی اور انسانی جان کو کائنات کا اعلی ترین وجود مانتے ہوئے اسی پر فوکس کیا جانے لگا، یہیں سے ہیومینزم کی بنیاد پڑی، انسانی جان اور دنیوی زندگی کو اعلی ترین مقصد بتاتے ہوئے خدا کے وجود کا انکار کیا گیا ، الحاد اور ہیومینزم کی اپنی کوئی نصابی کتاب یا باقاعدہ فلسفہ موجود نہ تھا، اس لئے ہر شخص نے اس کی اپنی تشریح کی، یوں نظریاتی افراتفری پروان چڑھی، اس افراتفری نے ہیومینزم کو تین حصوں میں تقسیم کیا،
کیمونزم
لبرل ازم
فاشزم۔
عام ذہن کیلئے یہ تصور ہی محال ہے کہ فاشزم جیسا نظریہ درحقیقت ہیومینزم ہی کی اولاد ہے، کیونکہ ہیومینزم گویا کہ انسان کیلئے دودھ اور شہد کی بہتی نہروں کی وعید دیتا ہے جبکہ فاشزم اپنی اصل میں انسان دشمنی کا علمبردار ہے، لیکن غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ فاشزم کا بنیادی فلسفہ وہی ہے جو ہیومینزم کا ہے، کہ انسان ہی سب سے بلند ، اعلی اور قیمتی ہے، فاشزم نے کروڑوں انسانی جانوں کی قربانی انسان ہی کیلئے دی، جرمنی کے انسان کیلئے- بنیادی فلسفہ یہی تھا باقی تفصیلات ہیں۔
ہیومینزم کے مفکر اس نظریے کا بین الااقوامی سطح پر پرچار کرتے ہیں، سیاست و ریاست میں اس کی موجودگی کو لازمی قرار دیتے ہیں، نظریہ جب اپنی فتح پاتا ہے تو ان مفکرین کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ان کی جگہ تکنیکی عملہ اور بیوروکریٹس لے لیتے ہیں، نتیجے میں ہیومینزم کی جگہ میٹیریالزم غالب آجاتا ہے، جس نے کنزیومر ازم کی داغ بیل ڈالی ، اس داغ بیل کی منڈیر پر محبت، تخلیقیت، حسن و معصومیت کا باقاعدہ جنازہ پڑھا گیا۔
نظریاتی ارتقاء کے اس سفر میں انسان کا سب سے بڑا مقصد موت پر قابو پانے کا ہونا چاہیے تھا، ممکن ہے کہ لاشعور میں ایسا مقصد موجود ہو، لیکن تمام تر توانائیاں چند افراد کے تسلط پر خرچ کی گئیں اور کی جا رہی ہیں، انسانی ذہن کو مخصوص سوچ میں بند کر دیا گیا اور اب وہ اسی دلدل کا عادی ہو چکا ہے، مختلف اور اعلی سوچ کا فقدان موت کو اٹل حقیقت ماننے کا قائل ہو چکا ہے، مقاصد مختلف ہیں اور زیادہ تر ضمنی ہیں، موت پر قابو پانا ناممکنات میں سے نہیں، اس کیلئے سب سے پہلا اور ضروری کام یہ ہے کہ قابل مشاہدہ حقیقت کو جزو مانتے ہوئے اس کی سرحدوں سے باہر نکلنا ہوگا۔
جس طرح کمپیوٹر پر گیم کھیلتے ہوئے، آپ اس گیم کے پروگرام اور اصولوں سے باہر نہیں جا سکتے، اسی طرح انسان اپنے تخیل میں ایک ایسے ہی پروگرام کا پابند ہے، گیم کے دوران آپ اینٹ سے گھر بنا سکتے ہیں، گھر سے محلہ اور پھر شہر، اسی طرح شہر کو تباہ کر سکتے ہیں، محلے کے پرخچے اڑا سکتے ہیں، لیکن اینٹ کو نہ توڑ سکتے ہیں، نہ بدل سکتے ہیں، کیونکہ یہی اینٹ گیم کے پروگرام کی بنیاد یا اکائی ہے، اگر اینٹ توڑنی یا بدلنی ہے تو پراگرام بدلنا ہوگا۔۔۔
اساطیری دور کا انسان ہو یا مذہبی، ملحد ہو یا کہ پھر ہیومینسٹ، ہم سب اسی پراگرام کے تحت چل رہے ہیں، جس کی بنیادی اکائی فنا ہے، یعنی موت، ہمارا ادب، ہماری نفسیات سب اسی کے گرد گھومتی ہے، لیکن پراگرام بدلا بھی جا سکتا ہے، اصول بدلے جا سکتے ہیں، سوفٹویئر بلکہ ہارڈ ویئر تک بدلا جا سکتا ہے، اس کیلئے آؤٹ آف دا بکس سوچنا ہوگا۔
“میری تمناؤں کا خون کر ڈالو، میرے خوابوں کو آگ لگا دو، لیکن اس سے بلند تر مقصد میرے سامنے لاؤ تو میں تمہارے ساتھ چل پڑوں گا “- داستایوسکی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply