ابنِ مُلجم یا شطرنج کا مُہرہ۔۔نذر حافی

تاریخِ اسلام میں 21 رمضان المبارک یومِ سیاہ ہے۔ ایک رِقّت آمیز اور غم انگیز دِن۔ اُس کے بعد قافلہ بشریت منحرف ہوگیا۔ مسلمانوں سے صراط مستقیم چھوٹ گیا۔ انسانیت کے کعبے کو گرا دیا گیا، ہدایت کے چراغ کو بجھا دیا گیا، کشتی نجات کے بادبان کو سرنگوں کر دیا گیا، ایمان کے ستون کو منہدم کر دیا گیا، بلکہ یوں سمجھئے کہ کشتیِ نجات کے ملّاح کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ پھر اس کے بعد آج تک یہ امت کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہوسکی۔ اس سے بڑا صدمہ تو یہ ہے کہ مسلمان اس عظیم شہادت سے کوئی رہنمائی بھی نہیں لے سکے۔ رہنمائی لینا تو دور کی بات اصل قاتل کو بھی نہیں پہچان سکے۔ اب یہ سانحہ ایک سُنی سُنائی کہانی میں بدل چکا ہے۔ ہم یہ فراموش کرچکے ہیں کہ علمِ تاریخ ریاضی کی مانند ہے۔ یہ کسی ڈائجسٹ یا اخبار کی مانند مطالعہ کرنے کیلئے نہیں۔ اس کا مقصد ریاضی کی مانند مسائل کو حل کرنا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی تاریخ سے مطلوبہ کام نہیں لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمان اپنے ماضی کی بنیاد پر اپنے مستقبل کا کوئی فیصلہ کرنے سے عاجز ہیں۔ ہمیشہ پاگلوں کی طرح افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ جہاں بھی دیکھیں حدِ اعتدال سے آگے یا پیچھے نظر آئیں گے۔

حضرت امام علیؑ کی شہادت کو بھی مسلمانوں نے سنجیدہ نہیں لیا۔ بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ آپؑ کے قاتل خوارج ہیں۔ بس خوارج کو برا بھلا کہا اور بات ختم۔ حالانکہ خوارج سے ہی اصل قاتلوں کا سراغ ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ پہلے یہ تو پتہ کیجئے کہ خوارج کب اور کیسے وجود میں آئے۔؟ خوارج کے جرائم کی جڑوں کو سمجھنے کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خوارج کو وجود میں لانے والا کون ہے۔؟ خوارج تو ہمارے آج کل کے داعش اور دیگر دہشت گرد ٹولوں کی مانند کرائے کے قاتل اور آلہ کار تھے۔ ماضی کے خوارج کو آج کل کے داعش کی طرح بدنام کیا گیا ہے۔ سادہ لوح افراد نے کبھی یہ تجزیہ نہیں کیا کہ خوارج کس کی چال سے متولّد ہوئے تھے، اس کے بعد کس کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور خوارج نے امام علیؑ کو شہید کرکے کس کے ایجنڈے کی تکمیل کی۔؟

تاریخی حقائق کے مطابق سارے غزوات میں نبی اکرمﷺ کے مدِّمقابل کفر کا پرچم ابوسفیان نے بلند کئے رکھا۔ فتحِ مکّہ کے موقع پر کُفر کا مورچہ ہی ختم ہوگیا تو ابوسفیان کے پاس بیعتِ پیغمبرﷺ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ نبی اکرمﷺ کے بعد، خلیفہ اوّل کے دور میں ابو سفیان نے حضرت امام علی ؑ کو بغاوت پر ابھارنے کی پوری کوشش کی۔ یعنی بنو امیّہ کی طرف سے حصولِ اقتدار کی کوششیں خلیفہ اوّل کے زمانے میں ہی شروع ہوگئی تھیں۔ ابوسفیان نے حضرت امام علیؑ کو بھی بغاوت پر اکسانا چاہا۔ اس نے امام علیؑ سے کہا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ بغاوت نہیں کر رہے، اگر آپ کہیں تو میں خلیفہ اوّل کے خلاف مدینے کو سواروں اور پیدل لشکروں سے بھر دوں۔ اس پر امام علیؑ نے ابو سفیان کو دندان شکن جواب دیا کہ اے ابوسفیان واپس پلٹ جا، تو نے ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں ہی کی ہیں۔۔۔ امام علیؑ نے تو اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا، تاہم خلفاء کے خلاف سازشیں اور چالیں جاری رہیں۔

اسی طرح خلیفہ دوّم کے قاتل ابو لولو فیروز کو ہی لیجئے۔ وہ دراصل مُغِیرَہ بن شُعبَہ کا غُلام تھا۔ خلیفہ دوّم نے مدینے کے امن و امان کی خاطر مدینے میں کسی عجمی کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اسے جنابِ مُغِیرَہ بن شُعبَہ کی خاص سفارش اور تاکید کی بنا پر خلیفہ دوّم نے مدینے میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ بعد ازاں اسی آدمی نے جنابِ مُغِیرَہ بن شُعبَہ سے اختلافات کا بہانہ بنا کر خلیفہ دوّم پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ اس کے بعد ابو لولو فیروز کو ایک مجوسی کہہ کر گالیاں دی جاتی ہیں اور اصل بات چھپا دی جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ابو لولو مجوسی جنابِ مُغِیرَہ بن شُعبَہ کا خاص آدمی تھا اور مُغِیرَہ بن شُعبَہ کے خود معاویہ ابنِ ابی سفیان سے گہرے روابط تھے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ خلیفہ سوّم کے ساتھ بھی ہوا۔ خلیفہ سوّم کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کا سلسلہ بھی مروان بن حکم، بنو امیّہ اور معاویہ ابنِ ابی سفیان تک جا پہنچتا ہے۔

یہانتک کہ امیرالمومنینؑ حضرت علی ؑ تخت ِخلافت پر رونق افروز ہوئے۔ اس کے بعد ہر تجزیہ و تحلیل کرنے والے کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ خلیفہ چہارم کے قتل میں وہ اشعث ہو، قطام ہو، خوارج ہوں یا ابن ملجم، یہ سب ثانوی کردار ہیں۔ اصلی محرک اور حقیقی قاتل وہ ہے، جس نے اس واقعے کے بعد جہانِ اسلام کے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ یاد رکھئے کہ خلافت ملوکیت میں آسانی سے تبدیل نہیں ہوئی، اس کیلئے تین خلفاء کے سمیت خلیفہ اوّل کی دُختر اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ اور خلیفہ اوّل کے فرزند عبدالرحمن بن ابی بکر جیسی متعدد شخصیات کو پے درپے مخفیانہ طور پر قتل کیا گیا۔ دینِ اسلام کے ساتھ ابو سفیان کی جنگ اوائلِ اسلام سے رہی۔ یہ جنگ تینوں خلفاء کے بعد حضرت امام حسنؑ کی شہادت اور واقعہ کربلا کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسینؑ نے بھی اپنے خطاب میں فرمایا کہ وَيْحَكُمْ يا شيعَةَ آلِ أَبي سُفْيانَ! إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دينٌ، وَ كُنْتُمْ لا تَخافُونَ الْمَعادَ، فَكُونُوا أَحْراراً في دُنْياكُمْ هذِهِ۔۔۔ (افسوس تم پر! اے ابو سفیان کی اولاد کے پیروکارو! اگر تم دین دار نہیں ہو اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی اس دنیا میں تو آزاد رہو۔۔۔) اسی طرح یزید کے دربار میں حضرت زینب ؑنے یزید کو مخاطب کرکے کہا تھا: “اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کرکے پردے میں بٹھا رکھا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔” یاد رہے کہ اس مشہور و معروف خطبے میں حضرت زینب ؑ نے یزید کے دربار میں ابو سفیان اور اُس کے خاندان کے چہرے سے خوب نقاب کشائی کی ہے۔ صاحبانِ مطالعہ و تحقیق اس خطبے کا مطالعہ ضرور کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نتیجہ:
تاریخ تجزیہ و تحلیل کیلئے ہے۔ تاریخی واقعات کو ریاضی کی طرح حل کرنا چاہیئے۔ تاریخی واقعات، کرداروں اور شخصیات کو فرضی اور خیالی کہانیوں کی طرح سننے اور بیان کرنے کے بجائے اُن کا عمرانی لحاظ سے جوڑ توڑ اور حساب کتاب کیا جانا ضروری ہے۔ تاریخ کسی پر لعن طعن کرنے یا محض رونے دھونے کے بجائے سچائی اور حقیقت کو سمجھنے کا وسیلہ ہے۔ تاریخ کی چھان پھٹک کرکے جو حقائق حاصل ہوں، انہیں تسلیم کرنے سے انکار کرنا، یہ فہم و فراست، تہذیب و شائستگی، عقل و منطق اور علم و شعور کے ساتھ جنگ ہے۔ ایک مہذّب قوم کی پہلی تہذیب اُس کی تاریخی اقدار ہوتی ہیں۔ لہذا تاریخی اقدار کو چھپانے کے بجائے جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سلفِ صالحین کے نقشِ قدم پر چلنا ہے تو پھر تاریخ کو چھپایئے نہیں بلکہ جانچئے۔ آپ ابنِ مُلجم کو ضرور ملعون کہیں، اُس پر لعنت بھی کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ تاریخ میں اُس کا کردار ایک کرائے کے قاتل سے زیادہ کا نہیں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply