• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یمن میں سعودی مداخلت اور جنگ بندی۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

یمن میں سعودی مداخلت اور جنگ بندی۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

طاقت کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں، جب کسی کے پاس بغیر محنت کے طاقت آجائے تو وہ خود کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور دوسروں کو بھی تباہ کرتا ہے۔ یہی کچھ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بھی ہوا۔ انہیں بے تحاشہ طاقت وراثت میں مل گئی، اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے، جو کسی بھی فیصلے پر تنقید کرکے اس کے منفی نکات کو سامنے لاسکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو بھی فیصلہ محمد بن سلمان کرے، سب کے سب حواری اس کی تعریف میں لگ جائیں اور قوم بند گلی میں پھنس جائے گی، جہاں سوائے ذلت و خواری کے اور کچھ نہیں ملتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا تھا تو اس وقت پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور پاکستان پر شدید دباو تھا کہ وہ اپنی فوج یمن بھیجے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ یہ بات کہیں نہ کہیں سعودی اسٹبلشمنٹ کے شعور میں موجود تھی کہ ہم جب چاہیں گے، پاکستان فوجی دستے جدہ لینڈ کر جائیں گے۔

ان کی یہ رائے اس صورت میں تو قابل فہم سمجھی جا سکتی ہے، جب حرمین شریفین پر کسی حملے کا خطرہ ہو تو یہ ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم حرمین کے تحفظ کے لیے تمام تر اختلافات کو بھلا کر اس کے تحفظ کے لیے آگے بڑھیں۔ مگر یہاں صورتحال بڑی مختلف تھی، سعودی عرب ایک مسلمان قوم پر حملہ آور تھا اور وہ بھی خطے کی غریب ترین مسلمان قوم تھی۔ یہ بات بھی واضح تھی کہ یمن نے سعودیہ پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا کہ جس کا جواب دیا جا رہا ہو۔ یمن میں حکومت کی تبدیلی کا ایک معاملہ تھا، جس میں ایک یمنی گروہ عوامی حمایت سے اقتدار میں آگیا تھا اور سعودی عرب کے حمایتی گروہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یمن میں آنے والی تبدیلی کو یمنیوں پر چھوڑ دینا چاہیئے تھا۔ یمن پر کون حکمران ہوگا؟ اس کا فیصلہ فقط اور فقط اہل یمن ہی کرسکتے ہیں۔ کسی دوسری طاقت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ یمن کے معاملات میں مداخلت کرے اور یہ طے کرے کہ یمن پر فلاں حکومت کرے گا اور دوسرے گروپ کی حکومت آنے پر ہم جنگ مسلط کر دیں گے۔

خیر پاکستان اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے گیا، جہاں بھرپور بحث کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ہم یمن جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور یہ بات سعودی قیادت کو بتا دی گئی۔ یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا بہترین کردار تھا، جس میں پارلیمنٹ نے مشترکہ طور یمنی جنگ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے ردعمل میں سعودی عرب نے ہر فورم پر انڈیا کو ترجیح دینے کی پالیسی اختیار کی اور مسلمانوں کے قاتل انڈین وزیراعظم مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اب سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد نے اعلان کیا کہ ہم تیس مارچ سے یمن میں فوجی کاروائیاں روک دیں گے اور ہر طرح سے کوشش کریں گے کہ کوئی فوجی کارروائی نہ ہو۔ اس میں ایک طرف تو ماہ مبارک رمضان کے احترام کا بتایا گیا اور دوسری طرف یہ کہا گیا کہ اس کا مقصد مذاکرات کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنا ہے، تاکہ سیاسی بات چیت آگے بڑھ سکے۔

یمنی قیادت نے اس جنگ بندی کو مسترد کر دیا ہے اور کہا جب تک بندگاہیں اور ایئرپورٹس کی ناکہ بندی ختم نہیں ہوتی، تب تک کسی قسم کی جنگ بندی بے معنی ہے۔ اصل میں سعودی عرب جنگ بندی بھی اپنی مرضی کی چاہتا ہے، اگر آپ مخلص ہیں تو یمن کا محاصرہ ختم کر دیں۔ اس سے بات آگے بڑھنے کا امکان پیدا ہو جائے گا اور بہتر ماحول فراہم ہوگا۔ سعودی عرب کا سارا بیانیہ یمن کے موقتی صدر کی حمایت پر کھڑا تھا، جس کی بنیاد پر سعودی عرب یمن پر حملہ آور تھا۔ اب بین الاقوامی میڈیا پر خبریں آرہی ہیں کہ محمد بن سلمان نے ان کے یمن میں کرپشن کے کارنامے پبلک کرنے کی دھمکی دے کر ان سے استعفیٰ پر دستخط کروا لیے ہیں۔ اب منصور عبدالہادی سابق یمنی صدر بن چکے ہیں، جو عملی طور پر سعودی کے ایک محل نما گھر میں نظر بندی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اختیارات ایک نئی یمنی کونسل کو منتقل کرنے کا اظہار کیا گیا ہے۔

سعودی عرب نے اس استعفیٰ کا ناصرف خیر مقدم کیا بلکہ ایک بھاری رقم یمن میں اپنے اتحادیوں کو دینے کا بھی اعلان کیا۔ سعودی عرب میں خلیج تعاون کونسل کے تعاون سے ایک مذاکراتی عمل شروع کرنے کا اعلان کیا گیا، مگر یمنی قیادت نے اس مذاکراتی پروسس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر سعودی عرب ایک فریق ہے اور یمن پر جنگ مسلط کرکے اہل یمن کا دشمن قرار پایا ہے، اس لیے ہم کسی ایسے مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے، جو سعودی قیادت میں سعودی سرزمین پر ہوں گے۔ یہ بات درست ہے کہ سعودی عرب اہل یمن کے نزدیک ایک جارح ملک کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے حملوں سے ہزاروں لوگ شہید ہوچکے ہیں اور جس کی ناکہ بندی سے لاکھوں لوگ متاثر ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی مذاکراتی عمل جو سعودی عرب کی قیادت میں انجام پائے گا، وہ مداخلت سے بھرپور ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سعودی عرب بڑی بری طرح سے یمن جنگ میں پھنس چکا ہے اور ہم شروع دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ یمنیوں کے لیے تو عذاب ہے ہی، لیکن سعودی عرب کے لیے بھی کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے۔ جلد بازی میں کیے گئے فیصلے جن کی بنیاد حکمت کی بجائے طاقت کا اظہار ہو، اس کے ایسے ہی بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جنگ کو تو بند ہونا ہی ہے اور اس کے خاتمے کا وقت بھی آچکا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ وہ کس کی شرائط پر ختم ہوگی۔؟ میرے خیال میں سعودی عرب اب اسی کی کوشش کر رہا ہے کہ جنگ کی مکمل شکست سے بچ سکے، جو وہ عملی طور پر یمن کھا چکا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply