عدالتی نکاح اور ہمارا معاشرہ۔۔محمد اسد شاہ

کہانی روایتی اور پرانی ہے ، البتہ کردار ، حالات ، واقعات اور مقامات بدلتے رہتے ہیں – کسی بہت بڑے شہر کے کسی پوش علاقے کے کسی متمول گھرانے کی ایک نوخیز لڑکی ایک دن اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے چھپ کر اپنے گھر سے نکلی اور دوسرے صوبے کے بڑے شہر میں ایک لڑکے کے گھر پہنچی – لڑکے کے والدین نے اس لڑکی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنے ارادے پر قائم رہی – عدالت کے رو بہ رو لڑکا اور لڑکی شادی کے بندھن میں بندھ گئے – لڑکی کے پیچھے والد نے اپنے ارد گرد ہر طرف اسے تلاش کیا ، مساجد میں اعلانات کروائے ، پولیس کو اطلاع دی اور ایک یا دو دن تک الیکٹرانک میڈیا پر بھی خبریں چلتی رہیں – اس دوران لڑکی نے ایک وڈیو پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے بھیج دیا اور بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ عدالتی نکاح کر لیا ہے – اس نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ تین سال سے وہ اس لڑکے کی محبت میں مبتلا تھی اور والدین بھی جانتے تھے – نکاح نامے کی تصاویر بھی میڈیا پر آ گئیں تو لڑکی کے والد نے لڑکے کے خلاف اغواء کا پرچہ درج کروا دیا اور پھر دو صوبوں کی پولیس اس لڑکے کو گرفتار کرنے کے لیے بھاگی پھری – نکاح خوان کو گرفتار کر لیا – لڑکے کے اہل خانہ اس نوبیاہتا جوڑے کو ساتھ لیے ، پولیس کے ڈر سے در بہ در ، مختلف شہروں اور دیہات میں جگہیں بدل بدل کر چھپتے پھرے – عدالت عالیہ نے مختصر وقت میں لڑکی اور اس کے “اغواء کنندہ لڑکے” کو گرفتار کر کے پیش کرنے کے احکامات جاری فرمائے – جب مقررہ وقت میں “اغواء کار” کو گرفتار نہ کیا جا سکا تو عدالت عالیہ نے پولیس کے صوبائی سربراہ یعنی انسپکٹر جنرل کو سخت سرزنش کے بعد عہدے سے برطرف کر دیا ، اور صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ نیا آئی جی تعینات کیا جائے – آخر کار دونوں  صوبوں کی پولیس کے باہمی تعاون اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے لڑکی کو “اغواء کنندگان کے چنگل سے بازیاب” کروا لیا گیا ، جب کہ “اغواء” کرنے والے لڑکے کو گرفتار کر کے قید کر لیا گیا – لڑکے کے بعض قریبی رشتہ داروں کو بھی ، “رشتے دار ہونے کے جرم میں” گرفتار کیا جا چکا تھا – عدالت میں پیشی کے موقع پر لڑکی نے اپنے میڈیا بیان کی توثیق کر دی کہ وہ خود اپنی ذاتی مرضی سے اپنے گھر سے نکلی، فلاں شہر گئی، اور عدالت میں جا کر شادی کر لی – اس موقع پر لڑکی کے والدین نے لڑکی سے علیحدگی میں ملاقات کی بہت کوششیں کیں لیکن لڑکی نے سختی سے انکار کر دیا – بہت جذباتی مناظر تھے جو میڈیا کے ذریعے عوام تک بھی پہنچے –

دوسری پیشی پر بھی یہی سب کچھ ہوا اور لڑکی نے واضح طور پر اپنی بات دہرائی اور شوہر کے ساتھ رہنے کے ارادے پر قائم رہی – اس کی والدہ عدالت کے باہر میڈیا کے سامنے دھاڑیں مار مار کر روتی رہی اور بے ہوش ہو کر گر گئی – یہ مناظر جب نیوز چینلز نے دکھائے تو ہر نرم دل شخص کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں – لڑکی کے والدین بضد تھے کہ لڑکی کو ان کے ساتھ ان کے گھر بھیجا جائے – لیکن لڑکی نے بھری عدالت میں ان کے ساتھ جانے یا ملنے سے بھی مسلسل انکار کیا – جج نے انسانی ہم دردی کی بنیاد پر لڑکی کو حکم دیا کہ وہ ایک بار اپنی والدہ سے مل ہی لے – اس مقصد کے لیے جج نے اپنا ہی دفتر کھلوا دیا – لڑکی اپنے والدین سے ملی تو سہی ، لیکن مبینہ طور پر اس نے ان کی کسی بات کا جواب نہ دیا اور والدہ کی منتوں اور آنسوؤں کے باوجود اس کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہ کیا – والدہ بار بار کہتی رہی کہ “اپنے گھر چلو” لیکن لڑکی نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرے رکھا ، اور اس بات پر بہت غصے کا اظہار بھی کیا کہ اس کے شوہر کے خلاف اغواء کا جھوٹا پرچہ کیوں درج کروایا؟” –

حالات و واقعات واضح ہونے پر عدالت نے لڑکے کے خلاف درج اغواء کا جھوٹا مقدمہ خارج کرنے کا حکم جاری کیا – لڑکی کی عمر کے حوالے سے بھی ایک تنازعہ کھڑا کیا گیا – والدین نے اس کی جو عمر سرکاری کاغذات اور سکول میں درج کروائی وہ شاید تیرہ یا چودہ سال بنتی ہے ، لیکن جب باقاعدہ طبی و جسمانی معائنہ ہوا تو اس سے ثابت ہو گیا کہ لڑکی دراصل 17 سال کی ہے ، اور یہ کہ والدین نے شروع سے ہی لڑکی کی پیدائش کا اندراج غلط کروا رکھا تھا – یہ بھی اس ملک کا ایک پرانا رواج ہے –

اس طرح کے واقعات ملک میں عام ہو چکے ہیں – شرعی لحاظ سے کنواری لڑکی کے نکاح میں والد یا ولی کی رضا مندی لازمی ہے – لیکن یہاں گھروں کا ماحول دینی نہیں – والدین کی بہت بڑی تعداد خود اپنی زندگیوں میں بھی دینی تعلیمات  پر عمل نہیں کرتی اور بچے بچیوں کو بھی لادین قسم کا ماحول فراہم کر رکھا ہے – سوشل میڈیا بے لگام ہے اور والدین اس معاملے میں بھی بے بس ہیں یا بے حس – لیکن جب کوئی حادثہ (نعوذ باللّٰہ) ہو جاتا ہے تو فوراً شرعی دلائل اور جواز تلاش کیے جاتے ہیں – لڑکیوں کو ہر قسم کا بے لگام ماحول دینے کے بعد جب وہ مرضی کی شادی کریں تب شرعی جواز یاد آ جاتا ہے کہ “والد کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا” – لیکن جب یہ پوچھا جائے کہ بالغ لڑکی کی بات کیوں نہیں مانتے تو شریعت کو پس پشت ڈال کر کہا جاتا ہے کہ دنیاوی قانون میں 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی نہیں ہوتی – یعنی بیک وقت آپ تضادات کے داعی ہیں – جہاں آپ کی پسند کو شرعی جواز ملے وہاں ملکی قانون کو چھوڑ دیا – اور جہاں ملکی قانون سے فائدہ نظر آیا وہاں شریعت کو چھوڑ دیا –

ایک منافقت یہ ہے کہ کوئی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ رابطے میں ہو تو مغربی تہذیب کے دل دادہ بعض والدین جانتے بوجھتے بھی اپنی لڑکیوں کو نہیں روکتے – پھر جب وہی لڑکی خود گھر سے چلی جائے اور عدالت میں جا کر اپنی پسند کے لڑکے کی منکوحہ بن جائے تو سب سے پہلا گھٹیا، غیر اخلاقی ، غیر شرعی اور غیر قانونی کام یہ کرتے ہیں کہ لڑکے اور اس کے گھر والوں کے خلاف اغواء کا جھوٹا پرچہ درج کروا دیتے ہیں – اس قدر ظلم !

آپ کے ساتھ جو ہوا ، وہ غلط ہے اور اس میں خود آپ کی بھی کوتاہیاں شامل ہیں – لیکن جھوٹا پرچہ درج کروانا کہاں کی انسانیت ہے – کسی بھی مظلوم یا پریشان حال انسان کو کسی بھی صورت یہ حق تو نہیں دیا گیا کہ وہ کسی شخص کے خلاف جھوٹا پرچہ درج کروائے – صدمہ اپنی جگہ ، لیکن صدمے سے نجات کا طریقہ ظلم نہیں ہونا چاہیے – بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ عدالت اس لڑکی کو والدین کے ساتھ کیوں نہیں بھیجتی – سوچیے کیا ایسا ممکن ہے؟

اگر جج لڑکی کے بار بار انکار کے باوجود اسے زبردستی اس کے والدین کے ساتھ جانے پر مجبور کرے تو کس قانون کے تحت؟ اس ملک میں تو کئی بار یہ بھی ہو چکا کہ عدالتوں کے احاطے میں کھڑی مائیں دھاڑیں مار مار کے بے ہوش ہوئیں ، باپوں نے بھری عدالتوں میں پگڑیاں اتار کر بیٹیوں کے قدموں میں ڈال دیں ، بھائیوں نے سر پر مقدس کتابیں اٹھا کر وعدے کیے کہ چند دن بعد باقاعدہ اسی لڑکے ساتھ رخصتی کر دیں گے —- آخر لڑکیوں کے دل پسیج گئے اور وہ عدالت کو بتا کر اپنے والدین کے ساتھ چلی گئیں – پھر یا تو یہ ہوتا ہے کہ ایسی لڑکیاں چند دن بعد عدالت میں پیش ہو کر اپنے ہی شوہروں کے خلاف بیان دے کر انھیں اغواء کے جھوٹے پرچے میں گرفتار کروا دیتی ہیں یا پھر ایسی لڑکیوں کی لاشوں کے ٹکڑے جنگلوں یا ویرانوں میں کتے اور بھیڑیئے بھنبھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں – ایسے حالات میں کسی لڑکی کے بار بار انکار کے باوجود جج اسے زبردستی والدین کے ساتھ جانے پر کیسے مجبور کرے؟

یہاں ایک مسئلہ اور بھی سامنے آیا – پاکستان میں اس طرح کی شادیاں ، اور اغواء کے جھوٹے مقدمات جیسے قبیح معاملات عام ہوتے جا رہے ہیں – لیکن ایسے معاملات دو گھرانوں اور عدالتوں تک ہی محدود رہتے ہیں – دیگر لوگ ایسے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے – لیکن جو کہانی میں نے اس کالم میں بیان کی ہے ، اس میں چند اور قباحتیں بھی شامل ہیں – لڑکی کے والد نے پہلے تو یہ دعویٰ کیا کہ کسی مسجد کے امام نے کہا کہ وہ اس کے فرقہ کی لڑکی کی گم شدگی کا اعلان نہیں کر سکتا – اس طرح لڑکی کے والد نے خود ایک فرقے کی ہم دردیاں سمیٹنے کی نیت سے فرقہ واریت کا زہر اس معاملے میں شامل کر دیا – لیکن اگلے ہی دن جب پولیس اور میڈیا نے اس مسجد اور امام کا نام پوچھا تو موصوف مکر گئے – پھر اس سراسر نجی معاملے کو ایک مخصوص فرقہ کے لوگوں نے اب تک سوشل میڈیا پر اٹھا رکھا ہے – ان کا بھی غالباً مسئلہ یہ ہے کہ لڑکی نے دوسرے مسلک کے لڑکے سے شادی کیوں کی – جب کہ ظاہراً تو اتحاد و یک جہتی کے نعرے لگائے جاتے ہیں –

ایک مسئلہ طبقاتی نفرت کا بھی ہے – ایک امیر گھر کی لڑکی نے کسی غریب گھرانے میں شادی کیوں کر لی؟ امیروں کے جذبات مجروح ہوئے؟ صوبائی منافرت بھی پھیلائی جا رہی ہے کہ فلاں صوبے کی لڑکی فلاں صوبے میں کیوں گئی؟ یعنی ایک لڑکی اور لڑکے کے ناپسندیدہ قدم پر مزید ناپسندیدہ خیالات کو فروغ دیا جا رہا اور معاشرے کو تقسیم کیا جا رہا ہے – اب اگر والد سپریم کورٹ چلا گیا تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عدالت لڑکی کو زبردستی والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور کرے تو اس کے دل میں والدین کی محبت ٹھاٹھیں مارنے لگے گی؟

Advertisements
julia rana solicitors

میرا خیال تو اس کے برعکس ہے – بہتر یہ ہے کہ بچوں کی تربیت میں کوتاہی پر اپنی غلطی تسلیم کی جائے – صرف یہ نہیں کہ نکاح کے وقت ہی ، بل کہ زندگی کے ہر قدم پر دینی تعلیمات کو اپنایا جائے – جو ہو چکا ، اسے اللّہ کی رضا مان کر قبول کیا جائے – اپنی ہی بیٹی کو جگہ جگہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار کروانے اور پیشیاں بھگتوانے سے پرہیز کیا جائے – بیٹی کی مستقبل کی زندگی کو معاشرے میں داغ دار نہ کیا جائے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”عدالتی نکاح اور ہمارا معاشرہ۔۔محمد اسد شاہ

  1. اسد شاہ صاحب نے لگتا ہے بغیر معلومات حاصل کیے جلدی میں تحریر لکھ ڈالی۔ ان مزہبی ملاوں کی پرابلم ہی یہ ہی ہوتی ہے۔

    عدالت کے زریعے ان دونوں کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اگر پوتی تو شناختی کارڈ کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی

    نکاح خواں اور گواہ دونوں جیل میں ہیں، جس ڈاکٹر نے میڈیکل ایکزیمینیشن کیا وہ ملازمت سے جھوٹا عمر کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانے کی وجہ سے سسپینڈ ہے، تو کیسے یہ شادی ہو گئی؟
    اس بچی کی عمر چودہ سال ہے اور چودہ سال کی بچی کی پاکستانی قانون کے تحت شادی نہیں ہو سکتی۔ جب ہر معاملے میں نادرہ کا ریکارڈ دیکھا جاتا ہے تو شادی کے وقت کیوں نہیں شناختی کارڈ مانگا جاتا؟

    یہ اسلامی شریعت کہاں سے حاصل کی ہے کہ بغیر ولی کے عورت کی شادی نہیں ہو سکتی۔ قران میں کم از کم ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔

  2. مکالمہ پر ہی ہماری تحریر موجود ہے مکمل فیکٹس اینڈ فگرز کے ساتھ۔ وہ تسلی کے ساتھ پڑھ لیں

    اور آئیندہ تحقیق کر کے لکھا کریں۔

Leave a Reply