بہترین انسان کون ہے ؟۔۔عاصمہ حسن

خیرالناس من ینفع الناس

Advertisements
julia rana solicitors

ترجمہ : بہترین انسان وہ ہے جس کا وجود دوسروں کے لئے فائدہ مند ہو ـ
ہم بحیثیت انسان اکثر اپنے بارے میں اور اپنے فائدے کے بارے میں ہی سوچتے ہیں ـ عمومی طور پر اگر کوئی ہمیں کسی بھی نوعیت کا کام کہہ دے تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اس کام کے کرنے سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہو گا ـ اگر فائدہ ہو رہا ہے تو ہم وہ کام کریں گے اگر اس کے برعکس ہے تو ہم اس کام کو کرنے سے اجتناب برتیں گے ـ ِ
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہربان ہو گا عرشِ بریں پر
اللہ تعالی نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس دنیا میں کسی خاص مقصد کے لئے بھیجا ہے یہی نہیں بلکہ ہمیں ہمارے دین نے ہمیں سکھایا ہے کہ دوسروں کا سوچو ‘ ان کے لئے آسانیاں پیدا کرو- اللہ تعالی نے ہمیں حقوق العباد کا حکم دیا ہے ـ جس میں شامل ہے کہ ہم دوسروں کا خیال رکھیں اپنے سے بڑھ کر ـ خود تکلیف برداشت کر لیں لیکن دوسروں کو تکلیف سے نجات دلانے کا ذریعہ بن جائیں ـ مل بانٹ کر کھا لیں ـ اگر ایک روٹی ہے تو آدھی دوسرے کسی بھوکے کے پیٹ میں چلی جائے تو اس کا اجر زیادہ ہے ـ ہم انسانوں کی اوقات ایک زرے کے برابر بھی نہیں ہے اگر اس مالک نے دینے والا ہاتھ بنایا ہے تو اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے ـ بلکہ ہم نے دوسروں کو دینا ہے اس دئیے ہوئے میں سے جو ہمیں عطا کیا گیا ہے تو اس میں ہمارا کیا جاتا ہے ؟
ہمیں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیے کہ دوسروں کی مدد صرف روپیے پیسے سے ممکن نہیں ہوتی بلکہ ہم دوسرے کئی طریقوں اور ذرائع سے لوگوں کی مدد کر کے ان کی زندگی بدل سکتے ہیں جیسا کہ کسی کو اپنا قیمتی وقت دے کر’ مشکل کی گھڑی میں ساتھ کھڑے ہو کر اور مناسب مشورہ دے کر (مشورہ بھی وہ جس میں انصاف ہو ‘ جس میں ہمارا مطلب شامل نہ ہو ) اگر ہم کسی کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہیں اس سے بھی کسی دوسرے کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے ارو وہ لمحہ بھر کے لئے ہی صحیح اپنا دکھ بھول جاتا ہے اس سے بڑھ کراور ہمیں کیا چاہئیے ـ دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آکر’ ان کی بات کو تحمل مزاجی سے سن کر بھی اپنا فرض ادا کر سکتے ہیں ـ
اسی طرح اپنا علم بے لوث بانٹ کر’ اپنے حاصل کردہ تجربات کی روشنی میں مدد کر کے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں ـ
ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پھر ہماری راہنمائی کے لئے سرورِ کائنات حضرت محمدؐ کو بھیجا گیا جن کی حیات ہمارے لئے مکمل نمونہ ہے ـ ان کی سنت پر عمل پیرا ہو کر ہم بہتر انسان بننے کی سعی کر سکتے ہیں ـ
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ : یعنی تمھارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ موجود ہے ”
آج کے دور میں ہم اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنے ہمساؤں ‘ رشتہ داروں ‘ دوست و احباب سے ملے ایک عرصہ گزر جاتا ہے اس کے علاوہ ہمیں ان کے حالات کا بھی قطعی اندازہ نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے ہم غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں ـ ان میں سے جب کوئی یہ فانی دنیا چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو ہم کفِ افسوس ملتے ہیں کہ کاش پہلے مل لئے ہوتے ـ
ایک زمانہ تھا کہ گھروں اور دلوں میں اتنے فاصلے نہیں ہوتے ہوتے تھے ہمسائے ایک دوسرے سے ملتے تھے اور گھر میں کچھ بھی اور جیسا بھی بنتا ایک دوسرے کے گھر ضرور جاتا تھا اس کے علاوہ اگر کوئی بیمار ہوتا تب بھی اس کے گھر کھانا اردگرد کے گھروں میں رہنے والے بھیجتے تھے کہ معلوم نہیں کچھ پکا ہے ان کے گھر یا نہیں لیکن اب اکثر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ گھروں میں کھانا ضائع تو ہوسکتا ہے لیکن کسی ہمسائے یا غریب کے منہ میں نوالا نہیں جا سکتا ‘ ان کا پیٹ نہیں بھر سکتا کیونکہ اب ہم اپنی ان قدروں کو کھوتے جا رہے ہیں جو ہماری اثاثہ ہی نہیں ہماری پہچان ہوتی تھیں ـ
آج ہم مانگنے والے کو جھڑک تو سکتے ہیں اس کو کام کرنے کا لیکچر تو دے سکتے ہیں لیکن اس کی مجبوری کو نہیں سمجھ سکتے ان کی مدد نہیں کر سکتے ـ ان کی تکلیف کو دور نہیں کر سکتے ـ
آج ہم اپنے غریب اور سفید پوش رشتہ داروں سے ملنا تو چھوڑ سکتے ہیں ‘ ان کو اپنا رشتہ دار بتاتے ہوئے شرم تو محسوس کر سکتے ہیں لیکن ان کی مدد نہیں کر سکتے اور اگر کرتے ہیں تو احسان ایک بار نہیں ساری زندگی کے لئے چڑھا دیتے ہیں انہی کو نہیں بلکہ سارے خاندان میں ان کو باتیں سنانے اوراس نیکی جو کہ ہماری اپنی وجہ سے نیکی نہیں رہتے پرچار بھی کرتے ہیں ـ کیونکہ ہم تشہیر کرنا پسند کرتے ہیں کہ ہم کتنے اچھے ہیں جو مدد کو پہنچ گئے ـ اپنی اس حرکت پر شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ فخر کرتے ہیں حالانکہ میرے پیارے رب کا حکم ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہونے دو لیکن ہم سوشل میڈیا پر تصاویر لگاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جب تک ایسا نہیں کریں گے ہماری کی گئی نیکی قبول نہیں ہو گی ـ
ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر کچھ زندگی میں کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالی کے قریب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی سوچ کو بدلیں ـ سوچ کو بدلنے کے ساتھ ہی ہمارا عمل بھی خود بخود بدلنا شروع ہو جائے گا ـ اللہ کی تخلیق کردہ مخلوق جس میں جانور’ چرند پرند سب شامل ہیں اپنی محبت نچھاور کریں ـ ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں ـ بیماروں کی عیادت کریں ‘ بھوکے کو کھانا کھلا دیں ‘ مصیبت کے ماروں کی مدد کر دیں ‘ مسافر یا بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھا دیں ‘ کسی کے مسئلے کو سن لیں ‘ کسی کو دیکھ کر مسکراہٹ کے پھول نچھاور کر دیں ‘ کسی کی راہنمائی کر دیں ‘ اپنا علم و تجربہ بانٹ دیں بس اپنے ہونے کا فرض ادا کر دیں اور صلہ اپنے عظیم و کریم رب پر چھوڑ دیں ـ
ہم دوسروں کو ان کی سوچ کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنا بھرپور کردار ادا کر کے اپنی سوچ اور عمل کے ذریعے دوسروں اور اپنی زندگی میں واضح فرق لا سکتے ہیں اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سمجھ لیں کہ ہماری زندگی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور حق ادا ہو جاتا ہے ـ جب اللہ تعالی کے سامنے پیش ہوں گے تو شرمندگی اٹھانی نہیں پڑے گی ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply