خلا کہاں ہے؟۔۔۔۔اسد الرحمان

پاکستان میں اکیڈیمیا اور ایکٹوسٹ دونوں ہی کسی حد تک تبدیلی کے خواہاں ہیں اور تبدیلی کو قریباً  انہی بنیادی تناظرات میں دیکھتے ہیں جن میں شاید روبزپیری سے لے کر ہوچی منہ اور سائمن بولیوار سے لے کر چی گویرا  تک دیکھتے رہے ہیں۔تاہم ان تمام طرح کی سیاسی تبدیلیوں کے پیچھے جڑے سماجی و تاریخی عوامل کا تجزیہ خواہشات ( یا نظریاتی پوزیشن) سے پھوٹتا ہے۔ دائیں اور بائیں بازو دونوں کے نزدیک مسئلہ معروض کا نہیں ہے بلکہ موضوع کا ہے۔ حالات پک کر تیار ہو چکے ہیں لیکن انقلابی تنظیم کی کمی کے باعث ہم ابھی جنت میں داخل نہیں ہو پا رہے ہیں۔ یہ نکتہ نظر اپنی تمام تر جزئیات میں مادی نہیں ہے (چاہے مادی حالات کو بدلنے کی خواہش اس کی مرکزی اساس ہی کیوں نہ ہو) بلکہ کلاسیکل فلسفے کی رو سے خیالی یا آئیڈیا لزم پہ زیادہ انحصار کرتا ہے۔

اسی طرح سے لبرل۔ڈیموکریسی کے اصولوں سے تبدیلی کے خواہش مند بھی زمینی حقائق ، جمہوریت کے عوامی تصورات ، شہری اور ریاست کے باہمی تعلق اور ثقافت و سیاست کے گنجلک رشتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی نمائندگی کا کیا تصور ہے؟ عام لوگ سیاست دانوں سے کیا چاہتے ہیں؟ سیاسی طاقت کیسے حاصل کی اور برقرار رکھی جاتی ہے؟ ان سب جمہوری تصورات میں جمہور اور اسکی رہتل نظر انداز کی جاتی ہے یا ہو جاتی ہے۔

میرے خیال میں خلا تصور اور حقیقت یا تھیوری اور پریکٹس میں بہت بڑھ چکا ہے۔ معاشرہ آگے بڑھ چکا ہے، رہتل بدل چکی ہے، اچھی اور بری زندگی سے متعلق خیالات اپنی شکل میں نہیں تو ما فیہ یا کونٹینٹ میں بدل چکے ہیں۔ لیفٹ کے تخمینے کے برعکس جمہوری تصورات پنجابی سماج میں اور خاص کر اس کی بڑھتی ہوئی مڈل کلاس میں نفوذ پذیر ہو چکے ہیں حتٰی کہ اس بات کو تمام تر دائیں بازو کے نمائندے بھی مان چکے ہیں اور طالبان کو بھی آج یا کل اس بات کو  ماننا ہی  پڑے گا۔ اور ’جمہوریت پسندوں’ کے خیالات کے برعکس جمہوریت کا پاکستانی ماڈل اپنی پریکٹس میں ویسا نہیں جیسا کہ وہ یورپ اور امریکہ میں دیکھتے آ رہے ہیں۔ جاپان ، لاطینی امریکہ اور بھارت کی مثال زیادہ قریب ترین ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور نظری بنیادوں پہ اہم نکتہ یہ ہے کہ تمام تر سیاسی نظریات جیسے لبرل ازم، کمیونزم ، سوشل ازم اپنا مخصوص اچھائی اور برائی کا نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ تاہم ایسا ہی نظریہ ہر سماج ثقافتی معنوں میں بھی رکھتا ہے۔ مثلاً  ایک کسان سماج کا اچھی زندگی، انصاف وغیرہ سے متعلق نکتہ نظر کسی کیمونسٹ پارٹی یا معتدل جمہوریت پسندوں سے مختلف بھی ہو سکتا ہے ۔ کوئی بھی ادارہ جو اس سے مختلف نکتہ نظر سماج پہ لاگو کرے گا وہ سماجی اور سیاسی انجینئرنگ ہی کرے گا۔ زیادہ بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ چاہے انسان ہو یا سماج دونوں میں تصورات ذہنی اور جسمانی تعامل سے ابھرتے ہیں ۔ پریکٹس تھیوری یہی نکتہ نظر پیش کرتی ہے اور ہم وہ سارے لوگ جو کہ ’تبدیلی‘ چاہتے ہیں بنا پریکٹس کو اہمیت دئیے شاید اس خلا کو پاٹ نہ سکیں۔

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply