خارجی ارادہ(2،آخری حصّہ)۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ارادہ اپنی اصل میں خواہش اور عمل کا مرکب ہے، اپنی مدد آپ کے تحت مقصد کے حصول کی جدوجہد کا نام داخلی ارادہ ہے، ارادوں کی فعالیت کو بیرونی دنیا تک وسعت دینا البتہ مشکل تر ہے، یہی خارجی ارادہ ہے۔ اس کی مدد سے حالات و معاملات کو اپنی جانب جھکایا جا سکتا ہے، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ خارجی ارادے آپ کو زمان و مکاں اور مادے و توانائی کی ان ممکنات تک رسائی دیتے ہیں جو منطقی نکتہ نگاہ سے ناممکنات میں شمار ہوتے ہیں۔ اختیارات کی دنیا اپنے آپ میں بے شمار سطحوں پر موجود ہے، ایسے ہی جیسے سمندر کی مختلف لہریں تہہ در تہہ ایک دوسرے سے منسلک ہیں، حالات کا ایک سطح سے دوسری سطح یا زندگی کی کشتی کی ایک لہر سے دوسری لہر پہ منتقلی عقلی توجیہ سے ممکن نہیں کہ عقل صرف ایک سطح تک محدود ہے، اس منتقلی کو عموما پیرانارمل یا جادوئی عمل تصور کیا جاتا ہے ۔ یہی مظاہر خارجی ارادوں کی فعالیت کا پتا دیتے ہیں، جس کا رخ زمان و مکاں کی لامحدود سطحوں پر پھیلے لامحدود اختیارات تک رسائی کی جانب ہے۔
داخلی ارادے کی مدد سے آم کے باغ کو کھجور کے باغ میں نہیں بدلا جا سکتا، آم کو کھجور میں خارجی ارادہ بھی نہیں بدل سکتا، لیکن اگر خارجی ارادہ فعال ہے تو وہ آپ کو آم کے باغ سے نکال کر کھجور کے باغ میں لے جا سکتا ہے، گویا کہ آپ کو ممکنات کی ایک سطح سے دوسری سطح پر منتقل کر دیتا ہے، ایک جادوگر آپ کو کرتب دکھاتا ہے کہ میز پر رکھی پنسل بغیر کسی بیرونی مدد سے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف حرکت کر رہی ہے، درحقیقت پنسل حرکت نہیں کر رہی، جادوگر اپنے خارجی ارادے کی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے آپ کی قوت بصارت کو ممکنات کی بے شمار سطحوں میں سے گزارتے ہوئے اس سطح پہ لے آتا ہے جہاں پنسل میز کے دوسرے کونے پہ رکھی ہے۔ یہی کام داخلی ارادے یا نیت کی مدد سے بھی ممکن ہے لیکن اس کیلئے بے تحاشہ توانائی، ریاضت اور وقت درکار ہے، جبکہ خارجی ارادے کی فعالیت کی صورت میں، یک نگاہ ناز جاناں ، ہی کافی ہے۔
مقصد یا منزل کا حصول فرد کیلئے مشکل ہوتو گاہے خارجی ارادے کی فعالیت سے منزل کو آپ کے قدموں پہ لایا جا سکتا ہے، ترک زبان کے لوک محاورے کے مطابق، اگر پہاڑ محمد کی طرف نہیں آرہا تو محمد پہاڑ کے پاس چلا جائے گا۔خارجی ارادے کی قوت لیکن اگر فرد کے قابو میں نہیں تو ہر وہ ناکامی اور مایوسی جس کا انسان کو خوف ہے، وہ ہو کر رہے گی۔
فرض کیجیے کہ آپ کسی جزیرے پر اکیلے پھنس گئے ہیں، جہاں آدم خور جنگلی لوگوں کا ایک گروہ آپ کو گھیر لیتا ہے، ایسے میں اپنی زندگی بچانے کیلئے آپ کے پاس تین آپشنز ہیں، ایک یہ کہ منت سماجت اور خوشامد کی مدد سے ان سے بخشش کی التجا کی جائے، آپ کی اس کمزوری کا نتیجہ بلاشبہ آپ کی موت کی صورت نکلے گا، دوسری آپشن یہ ہے کہ مردانہ وار ان کا مقابلہ کیا جائے، آپ اکیلے اور وہ جنگجو گروہ، یقینا ہار اور پھر موت ہی آپ کا مقدر ہوگی، تیسرا اور دلچسپ آپشن مگر یہ ہے کہ آپ ایک حقیقی بادشاہ والے رویے کو اپناتے ہوئے انہیں احکام صادر کرتے ہیں، ایسا سلوک کرتے ہیں گویا کہ آپ آقا اور وہ محکوم ہیں، تن بولی، نگاہ اور اعتماد حقیقی بادشاہ والا ہو، ایسے میں اگر خارجی ارادہ فعال ہے تو آپ ان آدم خوروں کو ممکنات کی اس سطح پہ لا سکتے ہیں جہاں واقعتا وہ آپ کی رعایا اور آپ ان کے بادشاہ ہیں۔ اس فرضی کہانی میں پہلے دونوں آپشنز کا تعلق داخلی ارادے سے ہے جبکہ تیسری آپشن خارجی ارادہ ہے، خارجی ارادے کی فعالیت ہمیشہ دنیائے ممکنات کی لامحدود سطحوں کو پرکھتے ہوئے اس میں سے آپ کیلئے بہترین آپشن کا انتخاب کرتی ہے۔
طبیعیات اور مابعدالطبیعیات کے مضامین پر بحث اپنی ساخت میں ایک ثمربار مشق ہے، لیکن گزشتہ ایک دو صدیوں کے درمیان مابعدالطبیعیات کو اس لئے نظر انداز کر دیا گیا کہ اس کا تعلق غیر مادیت سے ہے، اس کا دائرہ سکڑتے سکڑتے فلسفے تک، بلکہ اس میں بھی اب صرف لسانیات تک آ چکا ہے، طبیعیات داخلی ارادے سے منسلک ہے، جبکہ خارجی ارادوں کا تعلق مابعدالطبیعیات سے ہے، جہاں کم سے کم توانائی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ منزل کا زمان و مکاں کی لامحدود سطحوں پر پھیلے ممکنات میں سے انتخاب کرنا ہے۔ فرد میں موجود ہنر، استعداد اور تخلیقی صلاحیتوں تب ہی پوری طرح کارفرما ہو سکتی ہیں جب داخلی اور خارجی ارادے، دونوں فعال ہوں اور ایک دوسرے کے معاون ہوں، ایسی صورت میں جو کرشماتی شاہکار سامنے آئیں گے، عقل اور منطق اسے اساطیری یا جادوئی کہتے ہوئے دھتکارتے چلے جائیں گے، کہیں ایسا تو نہیں کہ اہرام مصر و دیگر عجائبات دنیا کی تعمیر و تخلیق میں جدید آدمی اس وقت کے کاریگروں کے خارجی ارادوں کی فعالیت کو نظر انداز کر رہا ہو ؟
خارجی ارادے کی فعالیت عصر حاضر میں معدوم و نایاب ہے، اس کے زنگ آلود ہونے کی وجہ شعور کا لاشعور پر حاوی ہو جانا ہے، منطق و عقل نے مادیت کو پروان چڑھاتے ہوئے غیر مادی عناصر کی موجودگی اور ان کی اہمیت پہ پردہ ڈالا، یہ پردہ آج بھی اٹھ سکتا ہے، کرشمات و معجزات پر یقین اس پردے کے سرکانے میں نہایت مدد گار ہے۔
مقصد کے حصول میں تخیل کی توانائی اپنی فطرت میں تین مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے، خواہش، داخلی ارادہ اور خارجی ارادہ- خواہش درحقیقت مقصد پر توجہ دینا یا پسند کا مقصد سامنے رکھنے کا نام ہے، داخلی ارادہ اسی مقصد کے حصول میں جدوجہد پر توجہ دینا ہے، یہ بلاشبہ ضروری اور پر اثر ہے، جبکہ خارجی ارادہ اس چیز کا مشاہدہ کرنا ہے کہ کیسے منزل خود بخود تکمیل پا رہی ہے کیونکہ منزل ممکنات کی کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے، اگر آپ متضاد سطح پر براجمان ہیں تو یہ خارجی ارادہ ہی ہے جو آپ کو مطلوبہ سطح پہ لے آئے گا۔ خواب میں اڑنا خارجی ارادے کی فعالیت کا مظہر ہے جب عقل و شعور غیر فعال ہوتے ہیں، بیداری میں اڑنے کی خواہش ہمیشہ خواہش ہی رہتی ہے کہ ممکنات کی دنیا منطق و شعور کی آہنی گرفت میں رہتی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ خارجی ارادہ (نیت ) بےپناہ طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ غیر مستحکم اور لطیف بھی ہے، یہ اختیار کو بغیر دبوچے اپنے ہاتھ میں رکھنے کا نام ہے، بغیر دباؤ کے قوت ارادی کے اظہار کا نام ہے، انسانی ذہن کیلئے یہ رویہ غیر فطری ہے ، فرد داخلی ارادوں سے کامیابی پانے کا عادی ہے، وہ براہ راست حالات پہ اثر انداز ہونے کی جستجو کرتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں مشکلات کی شکل ہمیشہ ایک ردعمل سامنے آتا ہے، حالات آپ کے حق میں تب بدلنا شروع ہوتے ہیں جب داخلی اور خارجی ارادوں کے درمیان ایک توازن ہو، گویا کہ بغیر خواہش کے چاہنا، بغیر فکر کے جستجو، بغیر فریفتگی کے حصول قرب اور اصرار کے بغیر آمادہ کرنا ہی حقیقی توازن ہے، یہ توازن تب بگڑتا ہے جب خواہش، فکر، فریفتگی و اصرار جیسے احساسات معاملے کی غیر معمولی اہمیت کا باعث بنتے ہیں اور نفسیات کے مطابق مقصد جتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا فرد کیلئے اس کو پانا اتنا ہی مشکل ہوگا۔
خارجی ارادوں کی طاقت پانے کیلئے شعور اور لاشعور کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حالات، تعلقات اور معاملات کی غیر ضروری اہمیت کو ترک کیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply