چاند بمقابلہ اندھے لوگ۔۔۔۔راؤ دانش

: یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

معزز قارئین کرام! یہ ایک ایسا شعر ہے جو زبان زد عام ہے اور عام و خاص تمام لوگ اسے ہر اس جگہ پر اتارتے ہیں جہاں کوئی  حق پر ڈٹ جانے والا خواب غفلت میں ڈوبے لوگوں کو بیدار کرنے کیلیے شمع روشن کرنے کی حقیر سی کوشش کرتا ہے اور جہالت زدہ معاشرے سے اعلانیہ بغاوت کرنے کی جسارت ان الفاظ میں کرتا ہے جو حق پہ ڈٹ گیا اس لشکر قلیل سے ہوں

میں یوں ہی دست و گریباں نھیں زمانہ سے

میں جس جگہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں

اس جسارت کے بعد زمانے کے فرعون اور پستی میں ڈوبی قوم کے ظالم آقا اسے اس گستاخی کی سزا دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جسمانی و ذہنی غلاموں کی ایک قطار ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے تب وہ مرد آہن جس نے زمانے میں جدت لانے اور شعور بیدار کرنے کا ارادہ کیا ہوتا ہے حالات کے سامنے بے بس اور مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیتا ہے تب ہم اس چاند کو مضحکہ خیز انداز میں اس شعر کے ساتھ رام کرتے ہیں اور تماشائی بن کر میلے کا مزہ لوٹتے ہیں یا شاید حرف تسلی کے چند تکلف بھرے الفاظ جو زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوں جسے وہ ان الفاظ میں ڈھالتا ہے..

حرف تسلی تو اک تکلف ہے صاحب!!

جسکا درد اسی کا درد باقی سب تماشائی

!! شاید یہ سچ بھی ہو کہ سورج کی تپش(ظلم کی چکی میں پسے ہوئے) میں جلتے ہوئے لوگ چاند کو دیکھنے کے لائق ہی نہ رہے ہوں یا شاید سورج کی ستم زدہ کرنوں نے انہیں اندھا بنا دیا ہو جہاں غلامی انہیں راس آگئی ہو اور اسے اپنا مقدر سمجھ بیٹھے ہوں یہ اندھے لوگ دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہے ہوں صم بکم عمی فھم لا یعقلون کی مثال بن چکے ہوں لیکن قارئین کرام! ہر بار ہماری اس مضحکہ خیز نصیحتوں کا مرکز و محور یہ چاند ہی کیوں ہوتا ہے؟؟ ہم اس چاند کو ہی سدھارنے کی کوشش میں کیوں لگے رہتے ہیں؟؟ کیا ہم نے کبھی ان اندھے لوگوں کو سدھارنے کی کوشش کی؟؟ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں کی؟؟ جو شاید خود ذہنی غلامی کا شکار ہیں اور ہو سکتا ہے چاند کی کرنیں ان پر نور بن کر برسیں ہو سکتا ہے شعور کے بیدار کرنے میں وہ سیڑھی کے اس پہلے قدم کے مشابہ ہو جو اس قوم کو ارفعی و اعلی مقام کی طرف لے جائے. لیکن ہمارا طرز عمل بلکل اسکے برعکس ہے ہمیں آنسو بہانے تو آتے ہیں!! ہمیں مظلوم کہلوانا تو پسند ہے!! ہمیں خود کو ان ظالم آقاؤں اور دجالوں کا شکار بننا تو قبول ہے!! لیکن ہم اس استبدادی نظام کیخلاف بغاوت کرنے ہر راضی نہیں لیکن آخر کب تک؟؟ کیا کوئی  مسیحا آئے گا؟ یا قیامت؟؟ کیا تم خود مسیحا نہیں؟ کیا تمہیں دنیا میں سب سے افضل ترین مخلوق نہیں بنایا گیا؟؟ کیا وہ تم ہی نہیں ہو جسے فرشتوں نے سجدہ کیا؟؟ کیا عرش معلی کے خدا نے تمہاری زندگیوں کیلیے ہی وہ لٹریچر نہیں اتارا جس میں ظالم آقا کے سامنے اس کیخلاف بات کرنے کو جہاد اکبر کہا گیا؟؟ کیا تم اپنی عظمت اپنا وقار اپنی عزت نفس سب کچھ کھو بیٹھے ہو؟؟ جب تم خود اپنے آپکو محدود کر لو گے تو مستقبل کے چمکتے دمکتے ستاروں کو سہارا کون دے گا؟

معزز قارئین ظلم کیخلاف اور مظلوم کیساتھ کھڑا ہونا سیکھئے!! اپنے لبوں کو سینے کی بجائے بولنے کی طاقت پیدا کیجیے!! کہیں دیر نہ ہو جائے!! کہیں مستقبل کے یہ ستارے بھی چاند کی طرح سورج کی روشنی میں اپنا آپ نہ کھو بیٹھیں…. اور ہم پستی سے نکلنے کی بجائے مزید دھنستے چلے جائیں!

میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا

Advertisements
julia rana solicitors london

میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے

 

Facebook Comments

Rao Danish
شدید قسم کا محب وطن!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply