ادب کے آئینے میں سائنس داں :ڈاکٹر انور نسیم…..ڈاکٹرافشاں ملک

میرے لیےیہ انکشاف بہت حیران کن تھا کہ بحیثیت سائنٹسٹ بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت قائم کرنے والے ڈاکٹر انور نسیم کو اردو زبان و ادب سے بھی والہانہ عشق ہے اور ان کایہ عشق صرف زبانی کلامی  نہیں وہ عملی طور پر ادب کے میدان میں اپنی کارکردگیوںکا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔پھر یہ جان کرخوش کن حیرانی ہوئی کہ ادبی دنیا میں وہ ہمارے ہی قبیلے  کے فرد ہیں یعنی افسانہ نگار ہیں۔ میں اسے ڈاکٹر انور نسیم کی ہمہ جہت شخصیت کا کرشمہ ہی کہونگی کہ وہ دونوں شعبہ جات میں اپنا فعال کردار نبھا رہے ہیں۔ میں ڈاکٹر شہناز شورو کی بے حدممنون ہوں کہ ان کے توسط سے فیس بک کے ذریعہ ایک خوبصورت (لائیو ) ملاقات میں، میں نے ڈاکٹر انورنسیم کو ایک ادبی فنکار کی حیثیت سے جانا نیزان کی کہانیوں سے بھی استفاضہ و استفادہ کیا۔
دراصل ہوا یوں کہ عالمی پیمانے پر پھیلی وبائی بیماری کورونا(کووڈ ۱۹)وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جب تمام دنیا کی حکومتوں کو بطور حفاظتی اقدام مکمل لاک ڈائون نافذ کر نا پڑاتو اس کے نتیجے میں انسانی زندگی کی ساری سرگرمیاں معطل ہو گئیں۔ بازار بندہوگئے ،مسجد ،مندر ،گرجااورگرودواروں پر تالے پڑ گئے ، سفر حضر میں بدل گئے ،گلیاں سنسان ہو گئیں یعنی زندگی کے ہر شعبے پرسکوت و جمود کی فضا چھا گئی ۔ وبا کی سنگینی ایسی کہ سب کو میل ملاقات کی راہیں خود ہی مسدود کرکے فاصلوں کو گلے لگاناپڑا۔ایک دوسرے سے رابطے کا اگر کوئی ذریعہ بچا تھا تو وہ فون اور انٹرنیٹ تھے۔اسکولی بچوں کی کلاسزہوں یا دفاتر کا کام،گھر کے اندر ہی سب کچھ آن لائن ہونے لگا ۔ان حالات کے پیش نظرادبی دنیا نے بھی انٹر نیٹ کا سہارا لیا اور ادبی نشستیں ،مشاعرے اور سیمینار جنہیں ویبینار کا نام دیا گیا آن لائن منعقد کیے جانے لگے ۔
اسی کورونائی موسم میں ڈاکٹر شہناز شورو نے ڈاکٹر انور نسیم کے ساتھ فیس بک پر ایک لائیو سیشن ترتیب دیاجس کومیں نے بھی جوائن کیا تھا۔پروگرام کا فارمیٹ کچھ ایسا تھا کہ پہلے خود شہناز شورو نے ڈاکٹر انور نسیم کامکمل تعارف پیش کیا ،اس کے بعد ڈاکٹر انور نسیم نے بزبان فصیح اپنی دو کہانیاں بہ عنوان ’’برمی گائوں سے واپسی ‘‘ اور ’’جو دل پر گزرتی ہے ‘‘ پیش کیں ۔ دونوں ہی کہانیاں انسانی نفسیات کی بہترین عکاس تھیں۔یہ کہانیاں سن کر میرے دل میں خواہش جاگی کہ ڈاکٹرانور نسیم کے تخلیقی تجربوں کی وسعت دیکھنے کے لیے ان کی دیگر کہانیوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے ۔سو اسی لائیو سیشن میں میں نے شہناز شورو سے ڈاکٹر انور نسیم کی دیگر کہانیاں پڑھنے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا۔
شہنازشورو خود ایک معتبر ادیبہ،محقق اور تجزیہ نگار ہیں اور ادبی امور کے تئیں ان کا رویہ کافی ذمہ دارانہ ہے سو میری اس خواہش کو انہوں نے نہ صرف ڈاکٹر صاحب تک پہنچایا بلکہ اگلے دوچار دن میں خود ہی مجھے ڈاکٹر انور نسیم کی کئی کہانیاں میل کردیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے کچھ دیگر دوستوں نے بھی اس سلسلے میں میری مدد کی اور جس کے پاس جو تخلیق تھی اس نے مجھے بھیج دی ۔ ڈاکٹر انور نسیم کی شخصیت اور ادبی شناخت کے حوالے سے پاکستانی مشاہیرادب اور معتبر اہل قلم کے مضامین کا مجموعہ’’صحبت گل ‘‘( مطبوعہ ۲۰۱۵ دوست پبلیکیشنزاسلام آباد ،لاہور ،کراچی)بھی ہندوستان میں ڈاکٹر انور نسیم کے ایک قریبی دوست پروفیسر عارف علی (شعبہ بایو سائنسز،جامعہ ملیہ اسلامیہ )کے توسط سے مجھے موصول ہوگیا ۔بعد ازاں میری درخواست پر ڈاکٹر انور نسیم نے خود بھی کچھ کہانیاں مجھے ارسال کیں۔
یہ کہانیاں پڑھ کر محسوس ہوا کہ زندگی کے تمام نشیب و فراز ،تلخ حقیقتیں اور کڑوی سچائیاں ڈاکٹر انور نسیم کی کہانیوں کے موضوعات  ہیں ۔ڈاکٹر انور نسیم پر زندگی جس طرح منکشف ہوئی ہے اسے اپنے تخلیقی وجدان اور فکری شعور سے انہوں نے کہانیوں میں ڈھال دیا ہے ۔بحیثیت افسانہ نگارڈاکٹر انور نسیم کا اختصاص یہ ہے کہ اپنی کہانیوں کے کرداروں کی زندگی کے جس رخ پربھی وہ روشنی ڈالتے ہیں یا جس واقعے کو بھی کہانی بناتے ہیں فنکاری اور ہنر مندی کا ثبوت چھوڑ جاتے ہیں ۔ حالانکہ ڈاکٹر انور نسیم نے کم لکھا ہے لیکن جتنا بھی لکھا ہے اس کی ادبی دنیا نے پذیرائی بھی کی ہے اور ان سے مزید اچھے کی توقعات بھی باندھی ہیں ۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ’’وہ قربتیں یہ فاصلے ‘‘منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کر چکا ہے ۔اس مجموعے کے علاوہ بھی ان کی بہت سی کہانیاں متفرق رسائل و جرائد میں شائع ہوئی ہیں اور آج بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یوں تو ڈاکٹر انور نسیم کی ہر کہانی اپنے اندر ایک جہان معنی سمیٹے ہوئے ہے اور تحلیل و تجزیے کی متقاضی ہے لیکن ایک مضمون میں یہ ممکن نہیں ہے ۔ سومیں نے تفصیلی تجزیے کے لیے ان کا ایک ناولٹ’’رہِ خزاں میں تلاش بہار‘‘ کا انتخاب کیا ہے جو ان کے افسانوں کے مجموعے میں شامل ہے۔۱۹۶۲ میں لکھا گیایہ ناولٹ ’’سیپ ‘‘ کے ناولٹ نمبر میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔
اس ناولٹ کا مفصل جائزہ پیش کرنے سے پہلے ڈاکٹر انور نسیم کے مختصر احوال و کوائف پر بھی ایک نظر ڈال لینا چاہیے کہ اساتذہ فرماتے ہیں کہ فنکار کے فن پر گفتگو کرنے کے لیے اس کی شخصیت کو جاننا از حد ضروری ہوتا ہے ۔ عہد جدید کے معتبر و مستند بزرگ افسانہ نگار رتن سنگھ فرماتے ہیں کہ :۔
 ’’ کہانی سے پہلے کہانی کار کو جان لیجیے ،کیونکہ جب تک خالق کے بارے میں قاری کو کچھ پتہ نہ ہو تب تک اس کی تخلیق تک پوری رسائی ہونا ناممکن ہے‘‘
(ماخوذ:ماہنامہ’ چہار سو‘ راولپنڈی پاکستان ،جلد ۲۷،شمارہ جنوری فروری۲۰۱۸،صفحہ۱۱)
رتن سنگھ کے درج بالاقول کی روشنی میں لازم آتا ہے کہ فن پارے سے پہلے فنکارکو جان لیا جائے ۔سو اس حوالے سے انور نسیم کی شخصیت کو جاننے کے لیے جب ہم ان کے خاندانی منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ضلع جھیلم کے ایک گاؤں چھنی گوجراں کے رہنے والے چودھری کرم داد اوران کی شریک حیات مسعودہ بیگم کے ہاں ۷ دسمبر ۱۹۳۵ کو جس پہلی اولاد نے جنم لیا اس کا نام انہوں نے’محمد انور‘ رکھا ۔چودھری کرم داد چونکہ پولیس انسپکٹر تھے اور ملازمت کے سلسلے میں جب وہ پسرور ضلع سیالکوٹ میں تعینات تھے اس وقت محمد انور پیدا ہوئے ۔ اس لحاظ سے ان کی جائے پیدائش پسرور ضلع سیالکوٹ ہوتی ہے ۔
شایدیہ ڈاکٹر انور نسیم کے ذہن کی انفرادیت تھی کہ انہیں اپنا نام ’ محمدانور‘ پسند نہ تھاسو آگے چل کر اس نام میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے انہوں نے ’ انورنسیم ‘ کر لیا۔ ایک عرصے تک ان کے یہ دونوں نام چلتے رہے ۔محمد انور سے وہ باقاعدہ انور نسیم کب اور کیسے بنے ،اس بارے میں خود بتاتے ہیں کہ :۔
’’۔۔۔میں محمد انور سے اپنا نام انور نسیم لکھنے لگا یہاں تک کہ جب میں پی ایچ ڈی کے لیے ایڈنبراگیا تو وہاں بھی محمد انور اور انور نسیم چلتا رہا ۔یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے کہا کہ بھئی آپ کا پی۔ ایچ ۔ڈی کاتحقیقی مقالہ شائع کرنا ہے آپ اپنا نام ایک کر لیں۔یا تو محمد انور رکھیں یا انور نسیم ۔
پھر میں نے صرف ایک ہی نام انور نسیم اختیار کر لیا اور اسی نام سے میرا مقالہ بھی چھپا۔۔۔‘‘
(بحوالہ:مجموعہ ’’صحبت گل ‘‘ ،دوست پبلیکیشنزلاہور۲۰۱۵ ، ’’انور نسیم ایک تعارف‘‘از شفیق انجم ،ص۱۰۱)
ڈاکٹرانور نسیم کے تعلیمی سلسلے کو بھی خود ان کی ہی زبانی جان لیتے ہیں کہ اپنے بارے میں خود فنکار سے زیادہ معتبرحوالہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ڈاکٹر انور نسیم تو یوں بھی درویش صفت انسان ہیں سو اپنے بارے میں جو بتائینگے سچ ہی بتائینگے ۔ اپنی تعلیم و تربیت کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ :۔
’’ میرے والد کو بچوں کی تعلیم و تربیت سے بہت دلچسپی تھی ۔انہوں نے لاہور میں مجھے سینٹرل ماڈل
اسکول میں داخل کرادیا ۔یہاں پاکستان کی بہت سی نامور ہستیوں کو پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے اور
مجھے بھی یہاں سے پڑھنے کا موقع ملا ۔میٹرک کے بعد میں نے ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل
کی ،پھر بی ۔ایس ۔سی کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ گورڈن کالج راول پنڈی سے پاس کیا ۔
ایم ۔ایس۔ سی( باٹنی) میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کی اور اول پوزیشن حاصل کرنے پر پنجاب
یونیورسٹی نے مجھے گولڈ میڈل دیا۔میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے اچھے اور بہترین
اداروں میں پڑھنے کا موقع ملا ۔۔۔۔‘‘
(بحوالہ:مجموعہ ’’صحبت گل ‘‘ ،دوست پبلیکیشنزلاہور۲۰۱۵ ، ’’انور نسیم ایک تعارف‘‘از شفیق انجم ،ص۱۰۱)
اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں ڈاکٹر انور نسیم۱۹۶۲ میں انگلینڈ گئے اور ۱۹۶۶ میں ایڈنبرگیونیورسٹی سے بائیالوجیکل جینیٹکس میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ڈاکٹر انور نسیم نے ملازمت کا آغاز انگلینڈ جانے سے پہلے ہی ایمرسن کالج ملتان اورگورنمنٹ کالج لاہور میں بحیثیت لیکچرر(باٹنی)کر دیا تھا ۔ کینیڈا میں اٹامک انرجی کے شعبے کے علاوہ۱۹۷۳ میں ریسرچ کونسل کینیڈامیں بطور ریسرچ آفیسر ان کی وابستگی رہی۔ جرمنی اور کیلیفورنیا میں بھی انہوں نے سائنٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔۱۹۸۹میں سعودی عرب  کے شاہ فیصل ہسپتال میں شعبہ حیاتیات وطبی تحقیق کے سربراہ مقرر ہوئے۔جولائی۱۹۹۳ میں پاکستان کا رخ کیا اور’پاکستان اکیڈیمی آف سائنس ‘ میں بطور ایگزیکیوٹو سیکریٹری اور جولائی۱۹۹۶ میں کامسٹیک کے مشیر برائے سائنس مقرر ہوئے۔ڈاکٹر انور نسیم کی خوش بختی رہی کہ انہیں بشمول پاکستان بیرون ممالک کی معتبراور تاریخی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تدریسی اور تحقیقی امور انجام دینے کے بھی مواقع خوب میسر ہوئے۔آج بحیثیت سائنس اسکالر ڈاکٹر انور نسیم کا نام اورمقام دنیا بھر کے بڑے سائنس دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر انور نسیم کے تخلیق کردہ فن پارے پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ جاننا بھی ہمارے لیے اہم ہے کہ سائنس کی دنیا کے درخشاں ستارے ڈاکٹر انور نسیم کا رجحان ادب کی طرف کیونکرہوا؟ اور بحیثیت سائنس داں وہ جس ارفع مقام پر ہیں، اسی طرح کیا ادب میں بھی بحیثیت افسانہ نگا ر ان کی کوئی منفرد شناخت بن پائی ہے ؟
یوں تو مشاہیر ادب اور معاصر اہل قلم نے ڈاکٹر انور نسیم کی شخصیت اور فن پر متعدد ایسے مضامین لکھے ہیں جن سے ان کی ادبی تخلیقی شخصیت سے ہماری واقفیت ہوتی ہے ۔لیکن میں اس سلسلے میں بھی ڈاکٹر انور نسیم سے ہی رجوع کرتی ہوں یہ جاننے کے لیے کہ ادب ان کا شوق کیونکر بنا بالخصوص تخلیقی ادب ؟ سومیں کسی ناقد یا ادیب کی رائے پیش نہ کر کے ان کے ہی الفاظ آپ کے گوش گزار کر دیتی ہوں :۔
’’مجھے بچپن سے ہی ادبی کتب کے مطالعے کا شوق تھا ۔میرے خیال میں ادب میں انسان کی
دلچسپی انسان کو ورسٹائل بناتی ہے ۔میرے محلے میں لائبریری تھی۔جہاں ایک آنے میںایک
دن میں ایک دن کے لیے کتاب ملتی تھی ۔میں وہاں سے کتاب لے کر ایک ہی دن میں پڑھ لیتا
تھا۔جب میں ایف سی کالج میں پڑھ رہا تھا ،وہاں بھی ادبی ماحول تھا۔اس کے بعد گورڈن کالج
اور گورنمنٹ کالج لاہور نے میری ادبی دلچسپی کو بڑھایااور مزید نکھار پیدا کیا ۔‘‘
(بحوالہ:مجموعہ ’’صحبت گل ‘‘ ،دوست پبلیکیشنزلاہور۲۰۱۵ ، ’’انور نسیم ایک تعارف‘‘از شفیق انجم ،ص۱۰۳)
دراصل فنکار کی شخصی تعمیر میں گھریلو ماحول ،تعلیمی فضا ،سماجی و معاشرتی رسم و روایات ،معاشی اورتہذیبی محرکات اہم رول ادا کرتے ہیں ،ڈاکٹر انور نسیم کی شخصی تعمیر میں بھی یہ عوامل یقیناََ کار فرما رہے ہونگے۔ ان کے مذکورہ بیان سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ا سکول اور کالج کے ادبی ماحول نے ان کی ادبی تربیت کی اورادب کے مطالعے نے ہی انہیں تخلیق فن کی طرف مائل کیا۔علاوہ ازیں ادبی محافل اور مجالس میں شرکت اور ادیبوں وقلمکاروں کی قربت و صحبت نے انور نسیم کے ادبی ذوق کی آبیاری کی نیزحلقۂ ارباب ذوق کی ان محفلوں نے بھی ڈاکٹر انور نسیم کے ادبی شوق کو جلا بخشی جن میں وہ پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے ۔ حیرانی ہوتی ہے یہ جان کر کہ تعلیمی مصروفیات اور ملازمتی ذمہ داریوں کے باوجود انور نسیم ادب سے کبھی غافل نہیں ہوئے ۔ملک ہو یا بیرون ملک ادبی سرگرمیاں ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل رہیں۔ جہاں تک ان کے تخلیقی اظہار کی جہتیں ہیں افسانوں کے علاوہ انہوں نے مضامین اورمزاحیہ تحریریں بھی تخلیق کی ہیں ۔
پیش نظر مضمون ڈاکٹر انور نسیم کے مذ کورہ ناولٹ ’ ’رہِ خزاں میں تلاش بہار ‘‘کے تفصیلی تجزیے پر مبنی ہے ۔واضح کرتی چلوں کہ اس تخلیق کو کئی معتبر اہل قلم نے ناولٹ نہ کہہ کر طویل ترین افسانہ بھی کہا ہے ۔۔۔!!! پدر سری معاشروں میں عورت کس کس طرح استحصال کا شکار ہوتی ہے افسانے کا مرکزی خیال اسی حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔
ناولٹ کی مرکزی کردار’ساجدہ ‘ ایک تعلیم یافتہ ، باکردار اورتخلیقی ذہن کی مالک خوبصورت لڑکی ہے۔افسانہ بتاتا ہے کہ وہ ایک کالج میں سائنس کی لیکچرارہے اور غیر شادی شدہ ہے۔ اپنے خوابوں کے شہزادے کا انتظار کرتے کرتے وہ عمر کے اس دور میں پہنچ چکی ہے جہاں اس کے بالوں میں اب کہیں کہیں چاندی کے تارچمکنے لگے ہیں ۔کہانی کے پہلے ہی اقتباس میں چالیس برس سے بھی زیادہ عمرکا ایک مرد کردار ’رضوی صاحب ‘ کے نام سے قارئین کے سامنے آتا ہے ۔ رضوی فرنیچر کا کاروباری ہے،اس کی پانچ سال کی بیٹی رخشندہ ہے ، بیوی کا انتقال ہو چکا ہے۔ رضوی کی بیوی ساجدہ کی دوست تھی جس کی وجہ سے ساجدہ کا رضوی کے گھر آنا جانا تھا ۔ساجدہ بن ماں کی بچی رخشندہ سے پیار کرتی ہے ،رخشندہ بھی ساجدہ سے مانوس ہو گئی ہے ۔پہلے اقتباس کی ابتدائی سطور میں رضوی صاحب نے ساجدہ کو شادی کے لیے پروپوز کیاہے لیکن اس پروپوزل سے ساجدہ کے دل کو بڑی چوٹ پہنچی ہے ۔ساجدہ کی دلی کیفیت کو افسانہ نگار نے یوں بیان کیاہے :۔
’’آج جب رضوی صاحب نے پروپوز کیا تو ساجدہ کو ایسے محسوس ہوا جیسے کمرے کی چھت
دھڑام سے اس کے اوپر آن گری ہو ۔چائے کی پیالی اس کے ہاتھوں میں کانپنے لگی ۔‘‘
جو لڑکی جیون ساتھی کے روپ میں ایک تعلیم یافتہ،خوبصورت اور انٹیلیکچوئل لڑکے کے خواب دیکھتی آئی ہو ، ایک ادھیڑ عمر کے کاروباری کے پروپوزل سے اس کی یہ کیفیت ہونا فطری ہے ۔ ابھی تو اس کی تلاش ہنوز جاری تھی کہ اس ادھیڑ عمر کے رضوی کے پروپوزل نے اس کے سارے خواب ہی مسمار کر دیے ۔ ساجدہ نے جس’ ’پرفیکٹ مین‘‘کے انتظار میں اتنا وقت گزار دیا تھا وہ آیا بھی تو اس روپ میں کہ اسے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال اور اس کے گھر کو سنبھالنے کے لیے ایک عورت چاہیے تھی ۔ رضوی نے جس مدلل انداز میں ساجدہ کے سامنے اپنا پروپوزل رکھا ہے اس کو افسانہ نگار نے اس طرح بیان کیا ہے:۔
’’دیکھیے نہ مس ساجدہ !مجھے تو صرف اپنی بچی کا خیال ہے،یہ آپ سے اتنی محبت کرتی ہے ۔
ہر وقت ساجدہ آنٹی ،ساجدہ آنٹی کی رٹ لگائے رہتی ہے۔میں سوچتا ہوں کہ آپ اس کی
دیکھ بھال خوب کرینگی ۔میں بھلا کب تک اس کے بال سنوار سکتا ہوں؟کچھ گھر کی دیکھ بھال
بھی ہوتی رہے گی۔فرنیچر کی بھر مار ہے ۔مگر سلیقہ نام کو نہیں۔۔۔ہاں آپ سوچ لیجیے ،ایسی کوئی
جلدی نہیں اور پھر آپ کو بھی آرام رہے گا۔نوکری کے اس جنجال سے بھی جان بچ جائیگی۔‘‘
مذکورہ اقتباس پدر سری معاشرے کی اس نفسیات کا عکاس ہے جہاں دوسری شادی کے لیے ادھیڑ عمر والے مرد بھی ان لڑکیوں کو ٹارگیٹ کرتے ہیں جو اکیلی ہوں یا جوانی کی سرحد عبور کرنے والی ہوں یا کر چکی ہوں ۔ اس کے برعکس ہمارا پدر سری سماج یہ سہولت عورت کو فراہم نہیں کرتا۔غیر شادی شدہ مرد طلاق شدہ اوربیوہ عورت سے شادی کرنا توکسر شان سمجھتا ہی ہے شادی شدہ مرد بھی کسی مجبوری کے تحت ہی بیوہ یا طلاق شدہ عورت سے شادی کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے ایک غیر انسانی رویہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے لائی گئی دوسری بیوی کے یتیم اورکمسن بچوں کی ذمہ دارییہ مرد (شوہر)قبول نہیں کرنا چاہتا۔
رضوی صاحب کے پروپوزل سے ساجدہ بے حد رنجیدہ ہوتی ہے ،اس کے تصور میں وہ شہزادہ آن دھمکتا ہے جس کے خواب وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھتی آئی تھی ۔ ساجدہ کی اس کیفیت کا بیان کرتے ہوئے افسانہ نگار رقم طراز ہے:۔
’’وہ آتے ہی کانپتے جسم کے ساتھ پلنگ پر گر پڑی اورتکیے میں منھ چھپا کر زارو قطار رونے لگی۔
’’مس ساجدہ ۔مس ساجدہ ‘‘ کوئی بڑے دھیمے لہجے میں اس کو پکار رہا تھا۔مگر کمرے میں تو وہ
بالکل تنہا تھی ۔’’تو مس ساجدہ آج کئی برسوں کے بعدوہ شہزادہ آن ہی پہنچا ۔تم جو مدتوں سے آس
لگائے بیٹھی تھی کہ ایک دن سنسان پگڈنڈیوں پر قدموں کی ایک دھیمی چاپ ہوگی اور پھر سپنوں
کا وہ حسین شہزادہ بڑی آہستگی سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہے گا’’ ساجدہ رانی !تم میری
منتظرتھیں ناں۔دیکھو میں آگیا ہوں۔بھلا پہچانو تو مجھے ۔‘‘اوروہ ہنس دے گی اس ہنسی سے اس
کے پرانے گھاؤ بھر جائیں گے ۔ اس کی روح کی منجمد تنہائیوں میں شہزادے کے پیار بھرے
پھول آن بسیں گے۔’’واہ ۔۔۔بھلا میں تمہیں نہیں پہچانتی ۔پر تم نے آنے میں اتنی دیر کیوں کر دی ؟
میں تو کب سے تمہاری راہ تک رہی تھی ۔‘‘
ایسا نہیں تھا کہ اب تک ساجدہ کے دل پر کسی مرد نے دستک ہی نہیں دی تھی ۔ اس کے دل پر پہلی دستک اس کے کلاس فیلو عابد نے دی تھی۔عابد جو تمام ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں حصّہ لینے والا،نہایت باتونی اورخوش مزاج لڑکا تھا اور ساجدہ ہی کی طرح ادب اور آرٹ کا  دلدادہ تھا۔بظاہر دونوں ایک دوسرے کے فن پر نکتہ چینی کرتے رہتے تھے لیکن ایک دوسرے کے فن کے معترف بھی تھے۔دونوں کے مزاج میں بھی بے حد مطابقت تھی ۔وہ ساجدہ کی خوبیوں کا بھی معترف تھا لیکن اپنی زندگی میں ساجدہ کو شامل کرنے کے لیے اس نے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا اور آگے بڑھ گیا۔
افسانے میں عابد اور ساجدہ کے خوبصورت تعلق کو افسانہ نگار نے اس طرح  بیان کیاہے :۔
’’ان کے تعلقات کی نوعیت کچھ عجیب سی تھی ۔اس کے جذبات اور ذہن عابد کے ذہن اور جذبات
سے پیار کرتے تھے ۔ان کا اندازِ فکرایک سا تھا۔وہ دونوں زندگی میں حسن کے متلاشی تھے ۔ادب ،
موسیقی اور مصوری کے شیدائی ۔اس لگائو میں تقدس کا بھی ایک عنصر شامل تھا ۔وہ جیسے مندر کے اس
دیوتا کی داسی اور پجارن ہو جو اس کے قدموں پر چاہت کے پھول نچھاور کرنے کی خواہش مند ہو ۔
اسے عابد کے گوشت پوست کے جسم سے پیار نہ تھا۔اس کو اس کے ستار کے تاروں پر تیزی سے چلتی
ہوئی نازک نازک انگلیوں سے لگاؤ تھا۔اس کے ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں سے پیار تھا ۔ ‘‘
ساجدہ تو عابد کی ذہانت پر فدا تھی لیکن عابدجو خودتخلیق کارہونے کے علاوہ فنون لطیفہ کا شیدائی ،جدید دنیا کا باشندہ لیکن عورت کے معاملے میں وہی صدیوں پرانی سوچ رکھنے والا عام سا روایتی مرد ! عورت کی صلاحیتوں کا منکر۔۔۔جس کے مطابق خواتین کا میدان عمل ادب و فن کی دنیا نہیں ،انہیں گھر گرہستی اورشوہر وبچوں کی ذمہ داری اٹھانے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ افسانے میں عابد ساجدہ سے کہتا ہے :۔
مگر آپ اور شاعری دو متضاد چیزیں ہیں۔ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ خواتین کو کلیات میرؔ کی بجائے
’’رضیہ کا شاہی دستر خوان‘‘پڑھنا چاہیے ۔اور آزاد نظم پر گفتگو کرنے کی بجائے سوئیٹر کے نئے نئے
نمونوں اور چھوٹے بچوں کی پرورش پر زور دار بحث کرنی چاہیے۔‘‘
’’جی ۔ادب کی جاگیر تو مردوں کے نام لکھی ہوئی ہے ۔‘‘
’’ویسے ایک بات تو یقینی ہے کہ آپ غزل بہت اچھی کہتی ہیں۔‘‘
’’مگر آپ کی بلا جانے غزل کیا شئے ہے ۔‘‘
اس سب کے باوجود جب ایک بار ان کا گروپ پکنک پر گیا تھا،ساتھ ساتھ چلتے ہوئے عابد نے ساجدہ سے کہا تھا ’’تم بہت اچھی لڑکی ہو۔ ‘‘ساجدہ نے بھی جواب میں ’’جی ‘‘ کہا تھا ۔’’میں سوچتا ہوں کہ ۔۔۔‘‘ ابھی عابد کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کے دوست نے اسے پکار لیا تھا ۔ عابد کی وہ ادھوری بات ادھوری ہی رہ گئی۔ یونیورسٹی سے نکل کر سب کلاس فیلوز نے اپنی اپنی راہ پکڑی ا ور زندگی کے میلے میں کھو گئے ۔ عابد بھی منظر سے غائب ہو گیا لیکن ساجدہ کی یادوں میں وہ موجود تھا ۔
وقت اپنی چال چلتا رہا ،ساجدہ ایک کالج میں سائنس کی لیکچرر ہو گئی ،کالج میں بھی اس نے اپنی تمام ادبی و ثقافتی سرگرمیاں برقرار رکھیں۔گھر بھی آنا جانا لگا رہتا ۔بظاہر زندگی میں کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن دل کی دنیا میں بھی کوئی رنگینی نہ تھی اور نہ ہی خوابوں پر اختیار تھا ۔ساجدہ کی شادی کے لیے پھر ایک سلسلہ کیپٹن اعجاز کے حوالے سے شروع ہوا ،یہ شروعات گھر کے بڑوں کی طرف سے ہوئی تھی۔ان لوگوں سے دور پرے کی رشتے داری بھی تھی۔فوج میں کیپٹن، گورا چٹّا اعجاز ایک نظر میں اسے بھی اچھا لگا تھا ۔ کچھ خواب پھر پلکوں پر اتر آئے تھے۔مگر یہ تجربہ ساجدہ کے لیے بہت ہی دل دکھانے والا ثابت ہوا ۔ اعجاز کی بڑی بہن عائشہ نے اس کی عمر پر ہی سوال کھڑا کر دیا ۔ اسے دیکھ کر کہنے لگیں کہ ’’میں سمجھی یہ راشدہ ہے ۔‘‘۔ان کا کہا ہوا جملہ ساجدہ کے دل میں ترازو ہو گیا ۔ اسے اس بات کا دکھ تھا کہ اس کی بڑی بہن راشدہ تو شادی شدہ اورایک بچے کی ماں تھی تو اعجازکی بہن عائشہ کو ایک لڑکی اور عورت میں کیوں کوئی فرق نہ محسوس ہوا ؟ کیا واقعی وہ اب عمر دراز دکھائی دینے لگی ہے ۔وہ بار بار آئینے میں دیکھتی اور خود کویہ یقین دلانے کی کوشش کرتی کہ وہ ایک خوبصورت،جوان اور پر کشش دوشیزہ ہے ۔ لیکن عائشہ آپا کا کہا ہو جملہ آسیب بن کر اس سے چمٹ گیا تھا۔ اکیلے میں اسے طرح طرح کے وہم ستاتے،کم مائیگی کا احساس سوا ہو جاتا اور وہ گھبرا اٹھتی ۔افسا نے کی سطور ساجدہ کے اندرون کی اتھل پتھل کو اس طرح سامنے لاتی ہیں :۔
’’پھر اس کا احساس تنہائی شدید ہو جاتا اور سلگتی ہوئییہ دھیمی آنچ کسی کے قرب کی یہ شدید خواہش ،
ایک خلاء کی صورت اختیار کر لیتی ۔اسے یوں لگتا کہ تنہائی کی ان زنجیروں میں جکڑی ہوئی وہ سسک
رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاندنی رات میں وہ اپنے برآمدے میں لیٹی ہوتی۔وہ آہستگی سے
اپنی آنکھیں بندکر لیتی ۔تخیل کی بے راہ روی اسے پھرجانے کہاں کہاں بھٹکنے کے لیے لے جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل کی ہر رہگزرسونی سونی سی ہے ۔کہیں قدموں کی کوئی چاپ نہیں۔میرا دل
تو اس خزاں زدہ پتے کی طرح تنہا ہے جسے پت جھڑ کی کسی شام تیز ہوا اڑائے لیے پھرتی ہے ۔
یہاں ان کھنڈروں کی سی ویرانی ہے جہاں ڈر کے مارے کوئی قدم نہیں رکھتا ۔۔۔۔‘‘
افسانہ بتاتا ہے کہ تنہائی کے آسیب سے چھٹکارا پانے کے لیے ساجدہ نے خود کو کچھ مختلف قسم کی دلچسپیوں میں مشغول کر لیا ۔کالج کی مصروفیت سے تھک کر لوٹتی تو کلب چلی جاتی ۔حالانکہ وہ جانتی تھی کہ کلب کے ممبران میں ستھرے ادبی ذوق یا تعمیری ذہن کے لوگوں کی تلاش بے سود ہوگی ۔ پھر بھی چہروں پر آسودگی اور طمانیت کا ملمع چڑھائے کلب کے ممبران( خواتین و حضرات )کے ساتھ وقت گزارنے سے اسے جز وقتی ہی سہی تنہائی کے احساس سے چھٹکارا مل ہی جاتا تھا،ساجدہ کے لیےیہی بہت تھا ۔
کلب میں ہی رقیہ کے توسط سے ساجدہ کی ملاقات ڈاکٹر آصف سے ہوئی ۔ فلسفے میں آکسفورڈ سے ڈگری لے کر لوٹنے والے پینتیس سالہ ڈاکٹر آصف کی خاصی شہرت تھی ۔اس کی شخصیت بھی شاندار تھی اور نشست و برخاست کا سلیقہ بھی خوب تھا ۔ ساجدہ اور آصف ایک دوسرے کی ذہانت سے ہی متاثر ہوکر قریب آئے اور بہت جلد آپس میں دوست بن گئے ۔آصف ساجدہ سے ہر ٹاپک پر بات کرتا اوراس کی علمی اور ادبی معلومات سے قائل ہوکر تعریف کیے بغیر نہ رہتا ۔ آصف اور ساجدہ کی گفتگو کو چند مکالموں میں افسانہ نگار نے یوں سمویا ہے:۔
’’ آپ کو فلسفے سے بھی کچھ دلچسپی ہے ؟‘‘اس نے ساجدہ سے پوچھا ۔
’’ جی بہت معمولی سی۔‘‘مگر ساجدہ کی معلومات اور مطالعہ اسے حیران کر گیا۔
’’مس ساجدہ !آج پہلی مرتبہ مجھے اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوا ہے ۔بعض لوگ تو ڈاکٹریٹ کیے
بغیر بھی مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔‘‘
’’ فلسفہ پڑھنے سے آدمی دوسروں کو بنانے میں بھی ماہر ہو جاتا ہے ۔مجھے بھی آج اس کا احساس ہوا ہے ۔‘‘
ساجدہ تو آصف کی شخصیت سے دن بہ دن متاثر ہوتی جارہی تھی اور اب اسے یقین ہو چلا تھا کہ آصف ہی اس کی منزل ہے۔ وہ اس کے خصائص کا شمار کرتی تو  عابد اور اعجاز کے مقابلے میں اسے آصف ہر زاویے سے منفرد اور ممتاز نظر آتا۔ آصف کے حوالے سے ساجدہ کے جذبات افسانہ نگار نے درج ذیل الفاظ بیان کیے ہیں:۔
’’اسے محسوس ہونے لگتا کہ اب اس نے اپنے آدرش کو ڈھونڈ لیاہے ۔آصف میں نہ صرف عابد کی
ذہانت ،خوش مزاجی ،اور حاضر جوابی تھی بلکہ اس کی شخصیت میں رچی ہوئی ایک عظمت بھی تھی ۔جب
وہ باتیں کرتا تو یوں غور سے سنتی رہتی جیسے اس کی آواز میں پاکیز گی اور شیرینی گھلی ہوئی ہو۔اس کا شعور
کتنا بیدار ہے ۔اس کے جذبات کتنے شفاف ہیں ۔‘‘
ساجدہ کے دل میں آصف کے لیے بڑے سچے اور خوبصورت جذبے جنم لے چکے تھے، وہ خوش بھی تھی اورمطمئن بھی کہ جیون ساتھی کے روپ میں جیسے شخص کا خواب اس نے دیکھا تھا ،آصف بالکل ویسا ہی ہے ۔لیکن ڈاکٹر آصف ایک شاطر مرد نکلا ۔وہ ساجدہ کے لیے قطعاََمخلص نہیں تھا نہ ہی وہ ساجدہ سے محبت کرتا تھا ۔وہ تو بس اس کا جسم حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ ساجدہ ایک باکردار لڑکی ہے، اسے حاصل کرنا اتنا آسان نہیں۔یعنی حکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔سو پہلے مرحلے میں آصف ا پنی فلسفیانہ گفتگو سے ساجدہ کے نظریات بدلنے کی کوشش کرتا ہے،ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں  :۔
’’مس ساجدہ !خوبصورتی کو سراہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان بے ترتیبی اور بد صورتی سے بھی
آگاہ ہو ۔نیکی کا تصوربدی کے بغیر ممکن نہیں۔اچھائی اور برائی یہ سب کچھ اضافی ہے ۔وہی اچھا
کام ہے جسے ہم اچھا تصور کرتے ہیں اور وہی چیز جو آج گناہ تصور کی جاتی ہے،کبھی مذہب کا جزو
ہوا کرتی تھی۔انسان کے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے ۔ورنہ زندگی کے Fundamentals
کی نوعیت تو نہیں بدلتی۔کون جانے جسے میں اورآپ معیوب تصور کرتے ہیں،وہ حقیقت میں
اچھائی ہو ۔‘‘
افسانہ آگے بڑھتا ہے ۔۔۔ ساجدہ اور آصف کی قربتیں بڑھ رہی تھیں کہ ایک دن جب ہلکی بارش ہورہی تھی آصف نے ساجدہ سے اپنے گھر چلنے کی گزارش کی ۔ساجدہ کو بھی کوئی تکلف نہ تھاوہ ساتھ چلی آئی۔ آصف کے گھر کی خواب گاہ ،سردی کا موسم، آتش دان میں سلگتی آگ اور سرگوشیوں میں باتیں کرتے آصف اور ساجدہ! اس رومانی فضا میں ساجدہ تصورات کی دنیا سجائے،آصف کے خیالوں میں گم ان خوبصورت گھڑیوں کے تھم جانے کی دعا کر رہی تھی اورشراب کے نشے میں لڑکھڑاتاآصف ساجدہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے اس سے کہہ رہا تھا:۔
’’مس ساجدہ روح کے مسائل پر صرف بحث ہو سکتی ہے ۔مگر جسم کے اپنے تقاضے ہیں ۔ان تقاضوں
پراگر صرف بحث کی جائے تو تشنگی اور بھی شدت سے بھڑک اٹھتی ہے۔اس تشنگی۔۔۔۔۔‘‘
عورت کی چھٹی حس سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں یہ بتا دیتی ہے کہ اس سے مخاطب مرد کی نگاہ میں محبت ہے یاجنسی بھوک   ۔۔۔!!!ساجدہ بھی سمجھ گئی کہ آصف اس سے کیا چاہتا ہے ۔ ۔۔ وہ تصور بھی نہ کر سکتی تھی کہ اخلاقیات اور spiritualism(روحانیت) پر لمبی چوڑی بحثیں کرکے متاثر کرنے والاشخص اس کی پاکیزگی پر سیندھ لگانے کی تاک میں ہے۔آصف کے چہرے پر چڑھا ہوا ملمع اتر چکا تھا ۔ساجدہ نے ایک بار پھر شکست کھائی تھی ،لیکن اپنے مقدس وجود کو اس نے بچا لیا تھا۔۔ ۔وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے آصف کے گھر سے نکلی اور اندھا دھند بھاگتی ہوئی اپنے گھر پہنچی ۔ابھی تک آصف کے کریہہ الفاظ ’’ساجدہ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔تم کب تک ان مصنوعی بندھنوں میں ۔۔۔‘‘اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
صدیوں سے بر صغیر کے معاشروں کی یہ ذہنیت رہی ہے کہ اگر عورت مرد کے ہاتھوں کا کھلونا بننے سے انکار کر دے یا اپنی شرطوں پر جینے کی کوشش کرے تو اس کی پارسائی کو ہی مشکوک ٹھہرادیا جاتاہے اور اگر وہ مرد کے آگے ہتھیار ڈال دے تو گنہگار بھی اسی کو ٹھہرایا جاتاہے ۔۔۔!!!آصف کی اصلیت سامنے آنے کے بعد ایک بار پھرساجدہ نے اپنے اصولوں سے نہیں اپنی تنہائی سے ہی سمجھوتا کیااور آصف کو ایک برا خواب سمجھ کر بھلا دیا۔ رفتہ رفتہ وہ معمول پربھی لوٹ آئی لیکن اب گزرتے وقت کا ہر لمحہ اسے یہ احساس کراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اس کی جوانی اب ڈھلان پر ہے ۔حالانکہ ساجدہ شوخ رنگ کے کپڑوں اور کریم پاوڈر کی دبیز تہوں میں چہرے کی جھریوں کو چھپانے کی مقدور بھر کوشش کرتی رہتی لیکن اس کے ذہن میں جب چند برس بعد کی ساجدہ کے خدو خال اُبھرتے تو وہ خو ف زدہ ہوکر سوچنے لگتی کہ خوابوں کی رہگزر پر چلتے ہوئے اگر اسی طرح اور چند برس گزر گئے تو تنہائی کا عقاب ہمیشہ کے لیے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ لے گا ۔افسانہ ساجدہ کے اس خوف کو یوں بیان کرتا ہے: ۔
’’اس کی جوانی کے دن اب بیت چلے تھے اور تھوڑی دوربڑھاپا اپنی جھرمری گودسمیت اس کا
منتظر تھا۔چند سال بعد پھول کی پتیاں مکمل طور پر مرجھا جائیں گی ،بے جان ہوجائیں گی اور
پھر ارمانوں اور خواہشوں کے اس مدفن پر آنسو بہانے کے لیے وہ اکیلی زندہ رہ جائے گی ۔‘‘
ساجدہ ماضی پر نظر ڈالتی تو عابد کی بے وفائی اوراعجاز کی بہن کی فضول سی بات یاد آجاتی اور دل میں کسک سی ہونے لگتی نیزمسترد کیے جانے کا احساس بھی سوا ہو جاتا ۔ مگر آصف سے دھوکا کھانے کے بعد اس کے خیالات بالکل بدل گئے ۔ ساجدہ نے پسپائی قبول کر لی اوراپنا فیصلہ فرنیچر بیوپاری رضوی کے حق میں دے دیا ۔رضوی سے ساجدہ کی شادی کا منظر افسانہ نگارنے اس طرح بیان کیا ہے :۔
’’کوئٹہ میں ایک خاموش، اداس ،بے کیف دسمبر کی اتوار کو اس نے چند عزیز و اقارب کے درمیان
شہر کے ’’ماڈرن فرنیچرمارٹ‘‘کے اکلوتے مالک ایم ۔ڈی رضوی صاحب سے شادی کر لی ۔۔۔‘‘
ساجدہ کی شادی کے منظر کو بیان کرنے والے الفاظ پر غور کریں تو افسانہ نگار کی تخلیقی حسیت اور فنکارانہ چابک دستی کا اعتراف   لازم ہو جاتاہے۔بھلا شادیوں کا ماحول بھی کہیں بے کیف اور اداس ہوا کرتا ہے؟شادیوں کے منظر توخوشیوں،ہنگاموں اور روشنیوں سے بھر پور ہوا کرتے ہیں ۔دراصل ساجدہ کے لیےیہ ایک سمجھوتے کی شادی تھی،ورنہ ادھیڑ عمر کاایک ایساشخص جس کے شوق اور پسند نا پسندساجدہ سے بالکل مختلف تھے اس کاانتخاب کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔ کوئی تخلیقی سرگرمی تو دور رضوی زبان و ادب سے تو نابلد تھا ہی،فنون لطیفہ کس چڑیا کا نام ہے وہ یہ بھی نہ جانتا تھا۔ اس کا سروکارصرف اپنے فرنیچر کے بزنس سے تھا،اس کے علاوہ اس کا دماغ کچھ اور سوچنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتاتھا ۔ایسا غیر ادبی اور علم و تعلم سے کوسوں دور رہنے والا شخص بحیثیت شوہر ساجدہ کے لیے ایک کڑوے گھونٹ کی مانند تھا، جسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے یہ سوچ کر حلق سے اتارلیا تھاکہ اس کی زندگی میں اب کوئی راستہ اس کے خوابوں کی گلی سے ہوکر گزرنے والا نہیں تھا۔ یہ ایسی شادی تھی جس میں نہ مہندی اورابٹن کی مسحور کن خوشبو سے فضا مہکی تھی،نہ ارمانوں کے دیپ جلے تھے، نہ دل کی دھڑکنوں نے رقص کیا تھا ۔یقیناََافسانہ نگار نے اسی مناسبت سے ساجدہ کی شادی کے منظر کو خاموش ،اداس اور بے کیف تحریر کیاہے ۔ ۔۔!!!
’’گھونگھٹ کے پٹ کھول دے توہے پیا ملیں گے ‘‘ بھجن کی یہ لائن افسانے کا اختتامیہ ہے ۔ افسانہ بتاتا ہے کہ ساجدہ گرامو فون پر اکثراپنی پسند کے گیت اور بھجن سنا کرتی تھی اور بالخصوص اس بھجن کی تو دیوانی تھی۔ یہ بھجن سنتے ہوئے ساجدہ کے تصور میں یقیناََ اپنے اس آئیڈیل (مرد) کا چہرہ ابھرتا ہوگا جس کے لیے اس نے اپنے گھونگھٹ کے پٹ اب تک بند کر رکھے تھے، لیکن اب سفاک حقیقت یہ تھی کہ اسے اپنے گھونگھٹ کے پٹ کھولنے پر پیا کی شکل میں رضوی صاحب ملے تھے جو کبھی اس کا آئیڈیل نہیں ہو سکتے تھے ۔
یوں تو یہ افسانہ تانیثی ادب کی ایک عمدہ مثال ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی کئی اور جہتیں بھی ہیں۔ تانیثی حوالے سے اگر بات کی جائے توافسانہ نگار نے پدر سری معاشرے کے اس نظام پرانگلی اٹھائی ہے جہاں عورت صدیوں سے جسمانی اورذہنی استحصال کا شکار ہوتی آئی ہے،یہاں تک کہ انتہائی ذاتی فیصلوں میں بھی عورت کی حیثیت حکم سننے اور اس پر عمل کرنے والے کی ہے ،حکم صادر کرنے والا مرد ہی ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر ایک دوسرے سے شدید محبت کرنے والے لڑکا لڑکی کے درمیان بھی زندگی گزارنے کا آخری فیصلہ لڑکا/مرد ہی کرتا ہے ۔وہ چاہے تو عورت(محبوبہ) کوعمر بھر کی رفاقت عطاکر دے ،یااس کے بر عکس بغیر کوئی وجہ بتائے لمحہ بھر میں برسوں کی محبت سے دست بردارہوکر اپنے لیے دوسرے راستے کا انتخاب کر لے ۔ آج بھی بر صغیر کے معاشروں میں عورت مرد کے رشتوں میں مرد کی جواب دہی طے نہیں کی گئی ہے صرف عورت کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے ۔ ساجدہ جیسی خوبصورت ،تعلیم یافتہ اور باشعور لڑکی ا پنی پسند کے ذہین و فطین مردوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوئی ۔ وہ سب کے لیے ایک اچھی دوست تھی لیکن کسی نے اس سے آگے بڑھ کر زندگی بھر کے لیے اس کا ہاتھ نہیں تھاما ۔وہ منتظر ہی رہی۔ گزرتے وقت نے اس کے بالوں میں چاندی اور آنکھوں میں خوابوں کی جگہ اداسیاں بھردیں اور جب تنہائی کے ناگ اسے ڈسنے لگے تب اس نے مجبوراََ خوابوں میں بسنے والے مرد کو دل سے نکال کر رضوی کا ہاتھ تھام لیا ۔
ڈاکٹر انور نسیم کرداروں کی نفسیات پرپوری گرفت رکھتے ہیں ۔ ساجدہ کے کردار کی پرت پرت جس طرح انہوں نے کھولی ہے اس پر تفصیلی گفتگو ذرا آگے چل کر کرینگے ۔ رہے ضمنی کردار تو ان کے ساتھ بھی ڈاکٹر انور نسیم نے پورا پورا انصاف کیا ہے ۔عابد ، ڈاکٹر آصف اور رضوی صاحب متحرک کرداروں میں ہیں ۔کیپٹن اعجاز غیر متحرک کردار ہے لیکن اہم ہے۔ اس کی بہن ’عائشہ آپا‘ کا کرداربھی اہم ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکوں کی مائیں بہنیں رشتے کے لیے دیکھی جانی والی لڑکی کا پوسٹ مارٹم کر کے بغیر لڑکے کو بتائے کسی غیر اہم بات پر انکار کر دیتی ہیں ۔افسانے میں عائشہ نے ساجدہ کے لیے کیپٹن اعجاز کی رائے بھی نہ لی اورخود ہی ساجدہ کو زیادہ عمر کی بتا کر مسترد کر دیا ۔ ہو سکتا ہے کیپٹن اعجاز کو ساجدہ پسند آجاتی اور یقیناََ آجاتی لیکن یہ ہمارے معاشرے کی عورتوں کی نفسیات ہے کہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے لیے کمسن لڑکی کو ترجیح دیتی ہیں۔افسانے میں رخشندہ ،فرخ بھیا،رقیہ ،راشدہ آپا وغیرہ کے کردار موضوع کی مناسبت سے آئے ہیں اور بہت خوب ہیں۔ذیل میں ساجدہ کے کردار پر ایک تفصیلی نظر :۔
ساجدہ تصوراتی دنیا میں رہنے والی ایک یوٹوپین لڑکی ہے جس کے مطابق زندگی پھولوں کی رہ گزر اور اس کی ذات کائنات کا مرکز ہے ۔دراصل وہ زندگی کو جس نظریے سے دیکھتی ہے وہ صرف تصور میں ہی ممکن ہے ،زمینی سچائیاں اس سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ خیالوں اور خوابوں کی پگڈنڈی پر چلنے والی ساجدہ کا زندگی کے تئیں جو نظریہ ہے اسے افسانہ نگار نے درج ذیل اقتباس میں بخوبی پیش کیا ہے :۔
’’زندگی اس کے لیے میرا کے بھجن تھی ،کیٹس کی نظم تھی ،بیتھوان کا نغمہ ،ستاروں کے تاروں میں نکلتی
ہوئی آواز تھی ۔آسمان پر بکھری ہوئی کہکشاں تھی۔زندگی بہاروں میں کھلنے والی کومل کلی تھی ۔غالب کا
تخیل،پکاسو کی تصویرتھی۔زندگی کے متعلق اس کے تصورات کتنے حسین تھے ۔زندگی جہاں چاہت
ہے ،موسیقی ہے،مصوری ہے۔‘‘
اسی ضمن میں چند سطور یہ بھی دیکھیں :۔
’’کاش وہ زندگی بھر یونہی آتشدان کے قریب بیٹھی آصف سے باتیں کرتی رہے ۔اپنی چاہت کے
سارے پھول اپنے اس دیوتا کے قدموں پر نچھاور کر دے۔یہ لمحات جاوداں ہو جائیںاور زندگی
میں بھلا اور کس چیز کی تمنا کی جاسکتی ہے ۔۔۔!‘‘
یوٹوپیائی دنیا میں رہنے والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ خود نہیں جانتے کہ وہ چاہتے کیا ہیں ۔۔۔ ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ افسانے کا ایک اقتباس بتاتا ہے کہ ساجدہ عابدکی شادی کی خبر سے شاکڈ ہو جاتی ہے لیکن دوسرے ہی پل وہ سوچنے لگتی ہے کہ اچھا دوست اچھا شوہر بھی ثابت ہو یہ ناممکن سی بات ہے ۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :۔
’’ایک دن وہ کالج کے مینا بازار سے واپس آئی تو ڈرائینگ روم کی میز پر ایک نیلے رنگ کا بڑا سا لفافہ
اس کا منتظر تھا ۔اس نے جلدی سے کھولا تووہ پوری طرح پڑھنے بھی نہ پائی تھی کہ اس کی آنکھوں کے
سامنے اندھیرا چھا گیا وہ گرتے گرتے بچی ۔۱۱ نومبر کو مسٹر عابد ایم اے کی شادی۔۔۔۔اعجاز، آصف
اور عابد۔عابد سے شادی کر لینے کی خواہش تو شاید تو اسے کبھی بھی نہ تھی ۔نہیں، نہیں وہ کتنا اچھا لڑکا تھا
اس کے ساتھ زندگی گزارنے میں کتنا لطف رہتا ۔مگر ساتھی اور شوہر کے انتخاب کا معیار تو بہت مختلف
ہوتا ہے ۔اچھا دوست ہم خیال ساتھی اور کامیاب شوہر ،ایک ہی شخصیت میں یک جا ہو جائیں،کچھ
ناممکن سا لگتا ہے ۔‘‘
عابد کی شادی کا سن کرآنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جانا ،پھر صوفے پرگرتے گرتے بچنا اور پھر خود کو یہ باور کرانا کہ عابد سے شادی کی خواہش تو اسے کبھی نہ تھی،پھریہ اعتراف کرنا کہ وہ بہت اچھا لڑکا تھا اس کے ساتھ زندگی گزارنے میں بڑا لطف آتا ۔۔۔یہ ساری باتیں ساجدہ کو ایک کنفیوزڈ لڑکی کے روپ میں پیش کرتی ہیں ۔عابد آئیڈیل بھی تھا اور اس سے شادی کی خواہش بھی نہ تھی مضحکہ خیز باتیں لگتی ہیں ۔
کیپٹن اعجاز کی شادی کی خبر پربھی ساجدہ اسی قسم کا رد عمل ظاہر کرتی ہے ،اس حوالے سے بھی افسانے کی چند سطور پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں:۔
’’لاہور سے راشدہ کا خط آیا ۔سب خیریت سے ہیں ۔فرخ بھیااچھے ہیں اور ہاں ایک
دلچسپ بات ،وہ چینی گڈا تھا نا،کیپٹن اعجاز ،اس کی شادی ہو رہی ہے ،ایک لیڈی ڈاکٹر
سے ۔آپا عائشہ بہت خوش ہیں ۔جانے کیوں اسے دھچکاسا لگا۔۔۔۔۔۔یہ شاید زندگی میں
اس کی پہلی شکست تھی ۔وہ تو جیتنے کی عادی تھی ۔کیپٹن اعجاز اسے پروپوز بھی کرتا تو وہ یقیناََ انکار
کر دیتی ۔‘‘
ایک طرف کیپٹن اعجاز کی شادی کی خبر سے دھچکا لگنا اور دوسری طرف یہ سوچنا کہ اگر وہ پروپوز بھی کرتا تو وہ یقیناََ انکار کر دیتی ،ساجدہ کو جذباتی طور پر ایک کنفیوزڈ اور کمزور لڑکی ثابت کرتے ہیں۔یہ سب ساجدہ کے کردار کی پرتیں ہیں جن کو فاضل افسانہ نگار نے ایک ایک کر کے الگ کیا ہے ۔ڈاکٹر انور نسیم نے ساجدہ کے کردار کے حوالے سے تنہا ئی کی شکار لڑکیوں کے درد کو بھی بڑے دلگیر انداز میں افسانے میں پیش کیاہے ۔ ایک اقتباس کی چند سطور اس حوالے سے بھی  :۔
’’ کسی کا عزیز چل بسے تو ہم سب ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں،جیسےیہی غم اور دکھ کی معراج ہے ۔
غم کا کتنا سطحی تصور ہے اوریہ جو ساجدہ دن بھر شوخ کپڑے پہنے ،سیاہ چشمے لگائے ،زندگی کے
ہنگاموں میں اس جوش و خروش سے حصہ لیتی ہے ،قہقہے لگاتی ہے اور جو اب برآمدے میں لیٹی
اس بھیگتی ہوئی چاندنی رات میںاپنے بستر میں مسلسل کروٹیں بدل رہی ہے ۔کبھی کوئی اس کے
دل میں جھانک کر دیکھے۔اُف ،وہاں کتنی وحشت ناک تنہائی ہے ۔اس کے جذبات ،ارمانوں
اور ولولوں پر اس تنہائی میں کیا بیت رہی ہے ۔کبھی بھی تو کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔‘‘
بظاہر خوش باش دکھنے والے یا محفلوں میں قہقہے لگانے والوں کے بارے میں عام خیال یہی ہوتا ہے کہ انہیں کیا غم ہو سکتا ہے ؟  تنہائی کا مسئلہ زندگی میں کسی وجہ سے تنہا رہ جانے والی لڑکیوں کا ہی نہیں،ان بیوہ اور طلاق شدہ عورتوں کا بھی ہے جن کے نکاح ثانی کا التزام ان کے گھر والے یا رشتے دار نہیں کرتے ہیں اور دنیا کی اس بھیڑمیں انہیں رلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ فرسودہ رسموں، رواجوں کی پرورش کرنے والے پدر سری معاشرے کی پروردہ عورتیں بھی تنہا ئی کی ماری ان عورتوں کے  کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتی ہیں،جب کہ کر سکتی ہیں۔ڈاکٹر انور نسیم نے افسانے میں اس مسئلے کو فنکارانہ انداز میں اٹھایا ہے۔
ڈاکٹر انور نسیم کو اردو سے کتنا عشق ہے اس کی مثال بھی اسی افسانے میں موجود ہے ۔مجھے حیرانی ہوئی کہ کس ہنر مندی سے انہوں نے افسانے میں ساجدہ (کردار)کی زبانی درج ذیل مکالمے ادا کر اردو سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے اور کہانی پر آنچ بھی نہ آئی ہے۔ یہی ہے وہ فنکاری کہ مقصد فن پر حاوی نہیں ۔بطور مثال افسانے کی درج ذیل سطور ملاحظہ فرمائیں:۔
’’اور پھر کبھی اس کے بھی اپنے ننھے ننھے پیارے پیارے بچے ہونگے ،وہ ان سب کو کانونٹ
بھجوا دے گی ۔نہیں۔کانونٹ میں بچوں کو صرف انگریزی پڑھاتے ہیں اور پھروہاں تو سبھی
عیسائی استانیاں ہوتی ہیں ۔کوئی اچھا سا اردو اسکول زیادہ مناسب رہے گا۔۔۔۔‘‘
ڈاکٹر انور نسیم اردو کے لیے دامے درمے سخنے اپنی خدمات ہنوز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی تہذیب وثقافت سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اس لیے اردو زبان کی ترویج میں اپنا حصہ بہت ایمانداری سے ڈال رہے ہیں۔وہ نام و نمود کے لیے نہیں،داخلی تسکین اور اپنے کیتھارسس کے لیے لکھتے ہیں۔میرا معروضہ ہے کہ ڈاکٹر انور نسیم کی تخلیقات کو ادبی پیمانوں پر نہیں پرکھا جانا چاہیے ۔ان کی  اتنی اہم منصبی ذمہ داریوں کو سامنے رکھ کر اگر ان کی ادبی تخلیقی کارگزاریوں کا جائزہ لیا جائے توبلا شبہ وہ ادبی دنیا میں اپنی شناخت کرواچکے ہیں۔اس حوالے سے گوپی چند نارنگ نے اپنے ایک مضمون میں بڑے خوبصورت خیالات کا اظہار کیا ہے،لکھتے ہیں کہ :۔
’’ادب کے بہت سے معاملات عشق کی طرح ہیں،ان میں کسی طرح کی منصوبہ بندی یا  فارمولا سازی
نہیں چلتی ،بلکہ بہت کچھ غیر ارادی بلکہ اضطراری طور پر ہوتا ہے اور اس میں شعوری سعی کو اتنا دخل نہیں ہوتا
جتنا غیر شعوری باطنی تحریک کو ۔!
اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں:۔
’’جب لکھنا داخلی وجدانی تسکین کا ذریعہ بن جائے ،کسی خارجی حصول یایافت کا نہیں تو اس میں
لا محالہ تخلیقی کاوش کا رنگ آنے لگتا ہے اور فن کے تقاضوں کا احساس ہو تو سونے پہ سہاگہ ،تب تخلیقی
کاوش ادب کا درجہ پانے لگتی ہے ۔‘‘
(بحوالہ: فکشن شعریات ،تشکیل و تنقید،از گوپی چند نارنگ ،صفحہ۳۹۴،ایجو کیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی )
گوپی چند نارنگ کے درج بالا قول کے بعد اب ڈاکٹر انور نسیم کی ادبی حیثت یا ادب میں ان کے مقام کو طے کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ڈاکٹر انور نسیم  کا اور اردو ادب کا معاملہ قطعاََ عشق کا ہے ۔وہ داخلی تسکین کے لیے لکھتے ہیں ،ادب و فن کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں ،تو پھران کی کاوش کو ادب کا درجہ کیوں نہ حاصل ہوگا۔۔۔!!!
مجموعی طور پر یہ کہانی ایک عورت کے وجود کے زوال کاایسا بیانیہ ہے جس میں رومان سے حقیقت تک کے طویل سفر میں لاحاصلی مقدرہوئی اور بالآخر مفاہمت کرتے ہی بنی ۔کہانی میں رومان کا سحر بھی ہے اورجمالیاتی کشش بھی۔ہجرت کا درد بھی ہے ،اورنوسٹیلجیا(جو ڈاکٹر انور نسیم کا وصف خاص ہے )کی جھلک بھی ۔ زبان کے ساتھ ساتھ اظہار بیان بھی لائق تحسین ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply