اخلاقی نفسیات (26) ۔ تین موضوعات/وہاراامباکر

شویڈر نے جب اخلاقیات کے موضوع کے جمگھٹے بنائے تو ان کو تین ذیلی موضوعات میں تقسیم کیا۔ پہلا خودمختاری کا ہے۔ دوسرا گروہی ہے۔ اور تیسرا تقدیس کا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خودمختاری کے ایتھکس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ خودمختار افراد کی ضروریات، خواہشات اور ترجیحات سب سے پہلے ہیں۔ لوگوں کو ان کو پورا کرنے میں آزاد ہونا چاہیے اور اس کے لئے معاشروں میں اخلاقی تصورات ہونے چاہیئں جیسا کہ حقوق، آزادی اور انصاف، جو کہ لوگوں کو ایک دوسرے کی زندگی میں بے جا مداخلت کئے بغیر امن و آشتی سے رہنے کی اجازت دیں۔ “فرد کی مرکزیت” پر قائم معاشروں میں یہ والے ایتھکس سب پر غالب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمیونیٹی کے ایتھکس اس آئیڈیا کی بنیاد پر ہیں کہ لوگ بڑے گروہوں کے ممبر ہیں، جیسا کہ خاندان، ٹیم، فوج، کمپنی، قبیلہ یا قوم۔ یہ بڑے گروہ صرف لوگوں کے اکٹھ نہیں۔ اصل ہیں اور اہم ہیں اور ان کی حفاظت ضروری ہے۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان میں اپنا طے کردہ فرض ادا کریں۔ اس میں فرض شناسی، ہائیرارکی، احترام، ساکھ اور حب الوطنی جیسے اخلاقی تصورات آتے ہیں۔ ان کے کمزور پڑ جانے کا مطلب سماجی بندھنوں کا کمزور پڑ جانا ہے اور یہ ان اجتماعی اداروں کو تباہ کر سکتا ہے جن پر ہر ایک کا انحصار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقدیس کے ایتھکس کی بنیاد یہ ہے کہ انسان عارضی جسم کے اندر مقدس روح ہے۔ ایسا نہیں کہ انسان محض ایک جانور ہے جس میں کچھ اضافی شعور ہے۔ انسان زمین پر خدا کا عکس ہے اور اس کا رویہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اور اس کا جسم محض کھیل کا میدان نہیں بلکہ عبادت گاہ ہے۔
فرض کیجئے کہ ایک انسان کسی مردہ جانور کے ساتھ جنسی فعل کرتا ہے تو ایسا کرنے سے وہ کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا رہا تو پھر ایسا کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ پھر اسے ہر کوئی غلط کیوں قرار دیتا ہے؟ ایتھکس کی اس موضوع کے مطابق ایسا کرنے سے وہ خود کی تذلیل کر رہا ہے، کائنات کے مقدس نظام کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اور اسے ایسا کرنے کا حق نہیں، خواہ اس سے کسی کو براہِ راست تکلیف نہ ہوتی ہو۔ معاشرے گناہ و ثواب، پاکی اور پلیدی، رسوائی اور تقدیس کے تصورات قائم کرتے ہیں۔
اور اس وجہ سے لذت پسندی (hedonism) اور انسان کی قدیم base جبلتوں کو کسی بھی معاشرے پر celebrate نہیں کیا جاتا۔
صرف اتنا ہی ہے کہ کچھ معاشروں میں اس موضوع کی ترجیح دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس پس منظر کے ساتھ ہم ایسے ہی ایک تقابل کی طرف چلتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply