• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمران خان, پاکستان اور 2028(حصّہ اوّل) ۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

عمران خان, پاکستان اور 2028(حصّہ اوّل) ۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

ویسے تو میرے بہت کم دوست ہیں بس گنے چنے ہوں گے۔ لیکن سوشل میڈیا پہ ہزاروں لوگ محبت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ بدتمیزی بھی کر جاتے ہیں لیکن دل سے ہمیشہ ان کیلئے دعا نکلتی ہے کہ اللہ انہیں سچ کو پرکھنے کی توفیق دے۔
میرے کچھ قریبی دوست مجھےPro _ establishment , Pro – PTIکہتے ہیں کیونکہ انکا نقطہ نظر یہ ہے کہ میں صرف پی ٹی آئی کے حق میں لکھتا ہوں۔ کچھ ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے PHD لیول کے دوستوں کی بونگیوں سے چہرے پہ مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ بس کبھی کبھی تعلیمی نظام پہ دکھ ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں نے ڈگریاں تو بانٹ دیں لیکن تربیت و شعور سے محروم رکھا۔
بڑے بڑے بیوروکریٹس کی بونگیاں اور لاجک سن کے دیوار پہ سر مارنے کو دل چاہتا ہے لیکن کیا کریں جب تعلیم ہی نہیں تو گِلہ کیسا؟جب CSS , PHD لیول کے لوگوں کا یہ حال ہے تو بیچارے اَن پڑھ مزدور کسان سے بہتری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ یہاں پہ مثال فٹ بیٹھتی ہے کہ ہم وہ پڑھے لکھے جاہل ہیں جو اسی ٹہنی کو کاٹ رہے ہیں جس پہ بیٹھے مزیدار انگور کھا رہے ہیں۔
پارلیمنٹیرینز کو تو آپ چھوڑ ہی دیجیے۔ یہ تو وہ طبقہ ہے جو ضمیر کی قید سے آزاد ہو چکا ہے۔ بات بہت خطرناک ہے لیکن زندگی اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ درجنوں ایسے پارلیمنٹیرینز کو جانتا ہوں جو رب تعالیٰ کی ذات پہ یقین ہی نہیں رکھتے اور درجنوں ایسے ہیں جو دیکھنے میں تو مسلمان ہیں لیکن اندر سے کٹر قادیانی ہیں ۔جب صورتحال ایسی ہو تو انہیں کیا پتہ، پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ!
ایسے لوگ پاکستان کا نقصان تو کر سکتے ہیں ۔بھلا کبھی نہیں کر سکتے۔
مجھے Pro _ Establishment سمجھنے والوں کیلئے بس صرف اتنا سا جواب ہے کہ میں بس Pro – Pakistani ہوں ۔ میں وہ عام سا پاکستانی ہوں جسے اپنے ملک سے پیار ہے ۔ اس ملک کے بچوں کے مستقبل سے پیار ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں عمران خان کو پسند کرتا ہوں۔ پسند اس لئے کرتا ہوں کیونکہ میرے پاس اسے ناپسند کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ میری 52 سال عمر ہےاور خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے بچپن سے ہی اس سیاست کے کھیل سے واقف ہوں۔ بھٹو کے ڈرامے اور اسکی پھانسی یاد ہے۔ اس کے بعد ضیاءالحق , نواز شریف , جونیجو پھر بینظیر, زرداری, مشرف سب کا دور حکومت یاد ہے۔ سبھی آئے اور اس ملک کو برباد کر کے چلے گئے۔
صدر جنرل ایوب خان کے دور حکومت تک پاکستانی ایک باوقار قوم تھے۔ کوئی قرضہ نہیں تھا۔ پاکستان نے ترقی کی، ڈیمز بنائے, ریلوے بنائی, پی آئی اے دنیا کی تیسری بڑی ایئر لائن کی لسٹ میں شامل ہوئی۔ پھر اچانک بھٹو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں چند کاغذات پھاڑ دیئے۔ بس پھر کیا تھا۔ جوشیلی قوم حرکت میں آئی کہ شاید بھٹو نے انگریزوں کی قسمت کا کاغذ پھاڑ دیا ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ بھٹو نے جو کاغذات پھاڑے،ان میں کیا تھا۔ لیکن انگریزی کے چند الفاظ اور کاغذات پھاڑتے دیکھ کر قوم طرح باؤلی ہو گئی جیسے آجکل کسی مجذوب کو مسجد کے صحن میں سردی سے بچنے کیلئے آگ جلانے کی سزا دیتے ہوئے جلا دیتی ہے۔
بس پھر کیا تھا بھٹو کے پاکستان پہنچتے ہی بھٹو شہرت کی بلندیوں کو چھو چکے تھے۔ ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگے اور یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ ایوب خان صاحب اپنے ہی گھر ایبٹ آباد اپنی ماں سے ملنے گئے ۔ گھر کے صحن میں موجود کھیلتے بچوں کی ٹولی نے وہی نعرہ لگا دیا۔ فیلڈ مارشل اور سخت گیر حکمران ہونے کے باوجود ایوب خان بہت حساس طبیعت کے مالک تھے۔ یہ نعرہ ان کے دل میں تیر کی مانند پیوست ہو گیا۔ ڈیڈی ڈیڈی کی گردان کرنے والے بیٹے کی بیوفائی کا دکھ بھی تھا تو واپس پریزیڈینٹ ہاؤس پہنچتے ہی استعفیٰ دے دیا ۔

بھٹو ستارہ بن کے چمکے۔۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ بھوک ننگ کی ماری قوم پاگل ہوئی اور بھٹو کے پیچھے دوڑ پڑی ،جسکا نتیجہ ہم نے آدھا پاکستان کھو کر بھگتا۔ بھٹو تو اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا لیکن اس کے ساتھ نعرے لگانے والوں کے بچے بھی سزا بھگت رہے ہیں اور بھگتتے رہیں گے۔ میں نے پیپلزپارٹی کے کئی سینئر پولیٹیشنز سے سوال کیا کہ آخر ان کاغذات میں کیا تھا جن کی وجہ سے تم نے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔۔ جواب میں سبھی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں لیکن آج تک کوئی شرم سے ڈوب کر مرا نہیں ۔

ہم لوگ آمریت کو ہمیشہ برا بھلا کہتے رہتے ہیں گالیاں دیتے رہتے ہیں لیکن مجھے آمریت پسند ہے کیونکہ ہمارے ملک میں سیاست بادشاہت کا دوسرا نام ہے اگر یہاں چند سال سیاست کو ” ٹوکہ ” نہ لگایا جائے تو سیاست بادشاہت میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ بھٹو بھی یہی کرنا چاہ رہے تھے۔ ٹانگیں کاٹ دوں گا”اُدھر تم، اِدھر ہم” کی بڑھکوں نے ملک دو ٹکڑے کر دیا ۔ منصوبے کے تحت فوج کو اکیلا چھوڑ دیا گیا، بیک اپ سے اگر کسی نے کمک پہنچانے کی کوشش کی تو اسے عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی دی گئی، نتیجتاً فوج نے سرنڈر کیا۔ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ جنیوا کنونشن کے تحت 90000 ہزار فوجی واپس آئے لیکن بھٹو کی بلے بلے ہو گئی کہ 90000 قیدی چھڑا لیئے ۔ خود سوچیے کہ ایک طرف جنیوا کنونشن اور دوسرا ہندو بنیا کوئی پاگل تھا جو ہمارے 90000 لوگوں کو تین وقت کا کھانا کھلاتا لیکن ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ابھی بھی بھٹو کو اس کا کریڈٹ دیتا ہے کہ اس نے قیدی چھڑائے جبکہ بنیا تو خود جان چھڑانے کے چکر میں تھا کہ کسی طرح ان سے جان چھوٹے۔

اس ایشو پہ بھی آجکل کی طرح فوج کو موردالزام ٹھہرایا گیا ۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ فوج کی شکست کے اسباب کیا تھے ؟
کیا وہ سارا اندرا گاندھی اور بھٹو کا Planned منصوبہ تو نہیں تھا ؟
فوج بھی بیچاری خاموش رہی کیونکہ اس کا ایک  جرنیل اس سارے کھیل میں شامل تھا۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہر ملک کے کچھ راز ہوتے ہیں۔ افشا کرنے سے اداروں اور قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ مصلحت اندیشی سے کام لینا پڑتا ہے۔ بس اتنا کہہ  سکتا ہوں کہ یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سازش تھی جو دو ملکوں کے سربراہان کے درمیان پروان چڑھی جس کا خمیازہ ابھی تک فوج شکست کی بدنامی کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ اگر کسی نے کچھ تھوڑا بہت جاننا ہو تو وہ کتاب ” میں نے ڈھاکہ ٹوٹتے دیکھا ” پڑھے۔ کچھ نہ کچھ ضرور واضح ہو جائے گا۔ خیر چھوڑیئے یہ تاریخ کے وہ المناک باب ہیں جو دلوں کو زخمی کرتے ہیں۔

سازش تکمیل کو پہنچتی ہے۔90,000 قیدی واپس آتے ہیں اور بھٹو بے لگام ہوتا ہے مخالفین کو چن چن کے قتل کر دیا جاتا ہے۔ مجیب الرحمن کا پورا خاندان قتل ہونے کے بعد بھٹو سمجھتا ہے کہ وہ ناقابل شکست بن چکا ہے لیکن رب تعالیٰ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔انتہائی مذہبی شریف النفس قسم کے جرنیل کے ہاتھوں شاید رب تعالیٰ نے انجام لکھ دیا تھا۔

ضیاءالحق صاحب انتہائی شریف النفس مذہبی انسان تھے بھٹو صاحب کے ہاتھوں انکی تذلیل کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ اگر بیان کی جائیں تو فوج سے محبت کرنے والوں کے جگر چھلنی ہو جائیں گے۔
90000 ہزار قیدی واپس لانے اور چند کاغذات پھاڑنے کے زعم نے بھٹو صاحب کو بھی مجبور کر دیا کہ سیاست کو بادشاہت میں تبدیل کر دیا جائے۔ بڑے مخالفین کو تو وہ پہلے ہی صفحہ ہستی سے مٹا چکے تھے۔ اب کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن انہیں کیا پتا تھا کہ لوح محفوظ پہ تو کچھ اور ہی لکھا جا چکا ہے ۔ سیاست بادشاہت میں تبدیل ہونے ہی والی تھی کہ رب تعالیٰ کی لاٹھی حرکت میں آئی ۔ مولوی ضیاءالحق صاحب کا ضمیر جاگا ۔ بھٹو کی بیمار سیاست اپنے اختتام کو پہنچی اور بھٹو اپنے انجام کو پہنچا۔

ضیاءالحق صاحب مسند نشین ہوئے۔ سنہری دور تھا لیکن پھر وہی جمہوریت کا راگ الاپنے والے گدھ صدر کے گرد اکٹھے ہونا شروع ہو گئے اور ضیاءالحق صاحب نے جونیجو صاحب کو وزیراعظم بنا دیا
فوج کے بارے میں لوگوں کا یہ تاثر بہت غلط ہے کہ یہ لوگ اقتدار کے لالچ میں ملک کی حکمرانی پہ قبضہ کرتے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ انتہائی مجبوری کے عالم میں اقتدار میں آتے ہیں۔ ملکی سلامتی انہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ قرآن پہ حلف دیتے ہیں کہ ملکی سلامتی پہ آنچ نہیں آنے دیں گے۔۔ آپ ذرا غور کیجئے تو آپ کو سب سمجھ آ جائے گا کہ جب بھی فوج نے ملک پہ قبضہ کیا تو اس وقت واقعی ملکی سلامتی کو خطرہ تھا۔ اگر یہ نہ ہوتے تو ملک ٹوٹ جاتا۔  آپ مشرف صاحب کے اقتدار کو دیکھ لیجیے ۔ ہمارے سیاستدان ملک کو اس لیول تک لے گئے تھے کہ بلوچستان ہم سے الگ ہو جاتا۔ کارگل کی کہانی پڑھ لیجیے۔

ضیاءالحق صاحب کی مثال لے لیجیے۔۔ ان ساستدانوں کی بدقماشیوں سے ہم ملک گنوا بیٹھے۔مزید گنوانے کا خدشہ تھا ۔
یہ لوگ بالکل اقتدار میں نہیں آنا چاہتے ۔ میری کئی سینئر فوجی افسران سے اس ٹاپک پہ بات ہوئی ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ہمارا کام ملک چلانا نہیں ہے۔ ہمارا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور نہ ہی ہماری ایسی تربیت ہے کہ ہم ملک چلا سکیں۔ اس لیئے ہر آمر حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک سیاستدانوں کے حوالے کر دیا جائے بس نگرانی ہماری رہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ فوج کی غلطی ھے کہ وہ ملک کو دوبارہ ان بھیڑیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔

ضیاءالحق صاحب نے بھی یہی غلطی کی۔ مشرف صاحب نے بھی یہی غلطی کی کہ ملکی سسٹم کو ٹھیک کیا اور تباہ ہونے کیلئے دوبارہ انہی کے حوالے کر دیا۔۔
اب آپ جنرل جیلانی کی ہی مثال لے لیجیے کہ سیاست کے چکر میں وہ نواز شریف کو وزیر خزانہ بنا بیٹھے جس نے آتے ہی اتنی ترقی کی کہ ایک مل کئی ملوں میں تبدیل ہو گئی۔ سیاست پنپنا شروع ہوئی تو جونیجو, بینظیر, زرداری سمیت سب نواز شریف کی سازشوں کا شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ سیاست دوبارہ بادشاہت کی طرف چل نکلی۔ امیرالمومنین بننے ہی والے تھے کہ دوبارہ ایک کمانڈو کا ضمیر جاگا اور ملک بادشاہت سے بچ گیا۔

ہم وہ قوم ہیں جو اپنے محسنوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے دشمنوں کے آگے طوائف کی طرح ناچتے ہیں۔ عجیب پاگل   قوم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رب تعالیٰ کا ہم پہ عذاب ہے کہ اس نے ہمارے دماغ شل کر رکھے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا سابقہ وزیراعظم دنیا کے ہر فورم پر کھڑے ہو کر ہمارے ملک پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی گواہی دے اور ہم پھر بھی بے غیرتوں کی طرح اس کے آگے ناچتے پھریں۔

چلیں میڈیا توایسا کرے، اس کا حق بنتا ہے، کیونکہ انہیں پیسے ملتے ہیں لیکن پڑھا لکھا پاکستانی جب ان جیسے غداروں کی دلالی کرتا ہے تب بات سمجھ سے بالاتر ہو جاتی ہے تب میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ میں سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ ہم پہ یہ عذاب ہمارے اپنے کرتوتوں سے آتے ہیں۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے ملک تباہ کر دیا۔ اتنے مہنگے قرضے لئے کہ جسکی قیمت ہم تو کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی چکائیں گی لیکن ہم دن رات عمران خان کو گالیاں دینے پہ تلے ہیں۔ ذرا غور تو کیجیے کہ آخر ہوا کیا ہے جسکی ہم آج اتنی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ سادہ سی مثال دیتا ہوں
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2007-08 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک پاکستان کے کُل قرض میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ 46۔2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95۔2 ارب ڈالر ہو گیا۔ بظاہر تو یہ سو فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد اسلم خان
ریٹائرڈ ڈپٹی ڈائرکٹر واپڈا ہوں-ادب ،سماجی علوم اور تاریخ سے دلچسپی کے علاوہ لکھنے پڑھنےسے بھی تعلق ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply