بلوچستان کے المیے اور ہماری سیاسی دانش۔عمیر فاروق

 یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کرسکوں
آنکھیں نہیں رہیں کہ تماشا نہیں رہا!
بلوچستان کی پسماندگی ، محرومی اور مسائل پہ دو رائے ہرگز نہیں ہوسکتیں۔ لیکن بلوچستان میں ہونے والی قتل و غارت گری پہ ہماری فیس بک کے دانشوروں میں رائے کا اختلاف موجود ہے۔ تربت بلوچستان میں قتل ہونے والے پندرہ افراد کا کفن بھی خشک نہ ہوا تھا کہ پانچ افراد اور قتل کردیےگئے۔ حیرت انگیز طور پہ اس ہر طرح سے قابل مذمت اور ناقابل دفاع قتل و غارت گری پہ بھی ہمارے کچھ دوست مغالطوں پہ مبنی نظریاتی تاویلات کرتے پائے گئے۔ کامریڈ شاداب مرتضیٰ نے ان مغالطوں کا عمدہ محاکمہ کیا ہے لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ ان روایتی تاویلات کا جائزہ لیا جائے۔ ایک رویہ تو یہ ہے کہ جی ہاں بلوچ سرمچاروں کی طرف سے قتل و غارت تو ہوئی لیکن مذمت یا مخالفت کی بجائے ان کی وجوہات اور پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔
یہ عذر تلاش کرنا ایسا ہی ہے ، شاداب مرتضیٰ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے، کہ ریپ کے مرتکب کی مذمت کی بجائے ان وجوہات کو سمجھا اور دور کیا جائے جن کی بنا پہ وہ ریپ پہ مجبور ہوا! اور ان وجوہات کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے لوگ کسی کی عصمت دری پہ مجبور ہوتے ہیں۔ کچھ سمجھ آئی کہ ہماری دانش کیسے کیسے نادر روزگار جواہر پہ مشتمل ہے۔ یا یہ نظریہ کہ جب تک ظالم قوم یعنی پنجابی خود مظلوُم قوم یعنی بلوچ پہ ریاستی ظلم کے خلاف نہیں اٹھ کھڑی  نہ ہوگی بلوچ نسل پرستوں پہ کوئی الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ بہت خوب اسی دلیل کی رو سے بلوچستان میں پنجابی، سرائیکی سندھی وغیرہ تو مظلوم ہیں جب تک خود بلوچ عوام نسل پرستوں کے ظلم و ستم کے خلاف خود اٹھ نہیں کھڑی ہوگی ریاستی جبر پہ کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دلیل بھی دو دھاری تلوار ہے جو دونوں طرف کی زیادتیوں کو جواز بخشتی ہے۔ ہم قاتلوں کے دفاع کے شوق میں اتنا حد سے گزر جاتے ہیں کہ جارحیت کو باقاعدہ اخلاقی جواز بخشنے پہ تل جاتے ہیں۔ یہ ہے ہماری اعلیٰ فکر۔ ایک جواز یہ سنایا جاتا ہے کہ بلوچ نسل کشی کی بنا پہ بلوچ اور ریاست کی جنگ جاری ہے، لہٰذا غیر بلوچ ،بلوچستان کا رخ نہ کریں کیونکہ یہ میدان جنگ ہے۔ اگر اس دلیل میں کچھ بھی صداقت ہوتی تو اوّل تو سندھ اور پنجاب کے تمام بلوچ یہ صوبے چھوڑ کے بلوچستان منتقل ہوچکے ہوتے جو کہ ہوا نہیں۔
ہمارے کچھ دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ قاتل اور مقتول کی شناخت نہ بتائی جائے لیکن کیا ہم ہزارہ اور شیعہ کے قتل پہ قاتل اور مقتول کی شناخت نہیں بتاتے رہے؟ اگر نہ بتاتے تو وجہ قتل یا وجہ نسل کشی کیسے سامنے آتی؟ تب تو ہم ببانگ دہل یہ بتاتے تھے اور تکفیریت یا تکفیری نظریہ کو وجہ نسل کشی کے طور پہ سامنے لاتے تھے۔ اب اس اصول سے انحراف کی وجہ ؟ یہ سامنے آنا چاہیے کہ قتل ہونے والے پنجابی، سندھی، سرائیکی وغیرہ ہوتے ہیں اور وجہ قتل نسل پرست شاؤنزم ہے۔ نسل پرستی  بھی تکفیریت جتنا ہی عظیم خطرہ ہے اور ان دونوں سے ایک ہی طرح سے نمٹا جانا ضروری ہے۔ بلوچستان میں جاری قتل و غارت میں تکفیری اور نسل پرست دونوں ہی ملوث ہیں۔ ہم ایک کو اچھا اور دوسرے کو برا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ہم کسی سے ہمدردی رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے دوستوں کو خوب علم ہونا چاہیے کہ نسل پرست قاتلوں کے دفاع میں جو دلائل وہ دینگے وہی دلائل تکفیریوں کو بھی میسر ہونگے۔ بلوچستان کی محرومیوں سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن قتل و غارت گری سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں۔ یہ کہنا کہ محرومیوں کی وجہ سے بندوق اٹھائی گئی ہے محض جزوی سچ ہے اگر واقعی ایسا ہوتا تو نسل پرست، سی پیک کی مخالفت نہ کررہے ہوتے۔ سڑکیں ترقی کا سب سے پہلا زینہ ہیں اگر واقعی نسل پرست محرومی اور پسماندگی سے لڑرہے ہوتے تو سی پیک اور ترقیاتی کاموں کو اس لڑائی سے استثنیٰ دے دیتے۔
ایک لمحے کے لئے رک کر ان لوگوں کے دفاع میں دی گئی تمام تاویلات کا جائزہ لیں تو حیران کن طور پہ آپکو انکی تاویلات کی کم و بیش وہی  بازگشت سنائی دے گی جو ملا خود کش حملوں اور ٹی ٹی پی کے دفاع میں دیتا تھا۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں اس وقت دو قسم کی نظریاتی سیاست موجود ہے۔ مسلکی، مذہبی اور قومیتی۔ ان دونوں کی حرکیات ایک جیسی ہیں۔ یہ دونوں اپنے مسلک یا نسل سے باہر کے شخص کے خلاف تعصب اور نفرت پیدا کرتی ہیں۔ دونوں اپنے پیروکاروں کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ وہ ہر طرح سے مکمل اور غلطی سے پاک ہیں اور انکی ہر کمی کی وجہ کوئی ولن ہے۔ ملا مغرب میں ولن تراشتا ہے تو دیسی قومیت پرست پنجابی استعمار کا ولن تراش کے۔ حالانکہ تربت میں قتل ہونے والے تمام اہل پنجاب حصول روزگار کی خاطر براستہ ایران یورپ جانے کی کوشش میں وہاں سے گزر رہے تھے۔ اگر پنجاب استعمار ہوتا تو انہیں اس دربدری کی کیا ضرورت تھی۔ ملا اگر جدید تعلیم اور پولیو کے ٹیکوں کی مخالفت کرے گا تو ہمارا قوم پرست، سڑکوں، ڈیموں، بجلی گھروں کی تعمیر سے جنگ کرے گا۔ ملائیت جب حاوی ہوتی ہے تو اسکی چھپی تکفیریت سامنے آجاتی ہے اور قوم پرستی جب حاوی ہوتی ہے تو اس کی چھپی نسل پرستی کھل کے سامنے آتی ہے۔
ہم ملا عبدالعزیز کی اس وجہ سے مخالفت نہیں کرتے کہ اس کے منہ پہ داڑھی ہے بلکہ ہم اس وجہ سے اس کی مخالفت کرتے ہیں کہ وہ ریاست کا انکار کرتا ہے اور تکفیریت پہ اکساتا ہے۔ یہی اصول سب پہ لاگو کرنا ہوگا جو بھی ریاست کا انکار کرے اور مذہب، مسلک ، رنگ، لسان یا نسل کے فرق پہ تعصب یا نفرت پھیلائے۔ سب کا یکساں شدت سے ہی انکار کرنا ہوگا ۔ایک سے نفرت اور دوسرے سے محبت نہیں پالی جاسکتی۔ سڑکیں، ڈیم، پل، سکول، ہسپتال، بجلی گھر ذرائع روزگار بلوچستان کی فوری ضرورت ہیں اور ان پہ ترجیحاً کام ہونا چاہیے، اس سے کوئی ذی شعور پاکستانی انکار نہیں کرسکتا۔ سیاست سب کا حق ہے لیکن اس کا انسان کی نفرت سے پاک ہونا ضروری ہے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply