تندرستی ہزار نعمت۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق آج بھی  شوگر کی ریڈنگ چیک کی تو ،اللہ کریم کا شکر کہ آج کی فاسٹنگ شوگر ریڈنگ 97 آئی۔ ناشتے میں اسٹیم سبزیاں اور ابلے ہوئے انڈے کھائے ۔ اللہ کریم کے فضل و کرم سے بڑھی ہوئی شوگر جس نے آنکھوں، پھیپھڑوں اور گردوں کو متاثر کیا، ہائی بلڈپریشر، موٹاپا و وزن کم کرنے کی جستجو جاری ہے۔ اب آنکھوں اور گردوں کے درد میں الحمدللہ افاقہ ہے اور پھیپھڑوں کے معاملات بھی اسّی فیصد بہتر ہیں۔ معدہ کی دوائی چھوٹ گئی ہے ،الحمدللہ شوگر کنٹرول ہے اور بلڈ پریشر بہتر ہو رہا ہے۔ وزن میں کچھ کمی بھی محسوس ہو رہی ہے۔ غور کرنے سے مجھے احساس ہوا کہ آج کل امراض بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہماری غذا کا ہمارے طرزِ زندگی life style سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔

ہم اپنے والدین، دادا دادی، نانا نانی و دیگر بزرگوں اور بڑوں کو کھاتے پیتے دیکھتے ہوئے بڑے ہو کر عملی زندگی میں آ گئے اور ہماری کھانے پینے کی عادات وہی رہیں بلکہ ان میں مزید سہولت و جدت آ گئی۔ ہماری نسل نے سب سے زیادہ تبدیلیاں سب سے کم وقت میں دیکھی ہیں۔ میرے بچپن میں سواری کے ذرائع محدود تھے، ہم نے کہیں جانا ہوتا تو چند کلومیٹر پیدل چل کر تانگوں کے کھڑے ہونے کی جگہ پہنچتے ۔۔  تانگے کا انتظار کرتے ۔۔ مین روڈ پر واقع سٹاپ (اڈے) پر پہنچتے وہاں لاری Bus کا انتظار کرتے ۔  لاری میں بیٹھ کر اگلی جگہ پہنچتے اور پھر تانگہ پہ بیٹھ کر اگلے علاقے میں اور پھر چند کلومیٹر پیدل ۔ ۔ پورے دن کا سفر بن جاتا تھا ۔ کھیتی باڑی میں بیلوں کے ساتھ ہل چلاتے صبح سے شام تک کھیتوں میں محنت اور فصلیں بھی ہاتھ سے کاٹی جاتی تھیں ۔  نوکری پیشہ احباب بھی پیدل یا سائیکل پر آتے جاتے  ۔ دفتری کام میں بھی جسمانی نقل و حرکت ہوتی رہتی تھی کہ نہ انٹرکام تھے نہ فون عام تھے نہ ہی کثیر المنازل عمارات میں لفٹ ہوتی تھیں سب سیڑھیاں استعمال کرتے تھے اور دن میں کئی کئی مرتبہ  ، بلکہ میری وکالتی حیاتی میں ایوان عدل لاہور Civil Courts کی چار منزلہ عمارت میں ہم دن میں بیسویں بار سیڑھیوں سے اوپر نیچے آتے جاتے تھے اب اس بلڈنگ میں لفٹ نصب یو چکی ہے ۔ موٹر سائیکل بہت بعد میں آئے اور کاریں تو مدت بعد جا کر تھوڑی عام ہوئیں ورنہ خال خال ہی کوئی کار نظر آتی تھی ۔  غرض یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دور میں زندگی محنت و مشقت سے عبارت تھی، سب کام خود ہاتھوں سے کرنے ہوتے اور پیدل چلنا عام تھا اس لئے دو دو چھوڑ چار چار روٹیاں بھی مکھن کے پیڑے شکر، لسی یا اچار کے ساتھ یا رات کے بچے سالن کے ساتھ یا گڑ کی ڈلی کے ساتھ کھا لی جاتیں تو سہ پہر تک سب کچھ ہضم ہو کر پھر زوروں کی بھوک لگی ہوتی تھی   اور صبح کے بعد مغرب سے ذرا پہلے یا بعد رات کا کھانا کھا لیا جاتا تھا۔ آٹا / اناج ہر گھر میں موجود ہتھ چکی پہ روز کے روز ضرورت مطابق پیسا جاتا تھا ۔ دودھ و ہل جوتنے والے جانور سنبھالے جاتے تھے ۔  شہروں میں بھی اور دیہاتوں میں بھی فرصت کے لمحات میں بچے لکن میٹی، لڑکیاں شٹاپو، لڑکے کبڈی و والی بال جیسے کھیل کھیلا کرتے تھے، اکھاڑے آباد تھے، ہاکی قومی کھیل تھا اور خوب بھاگ دوڑ و ورزش والا کھیل تھا۔  فٹ بال کا بھی چلن تھا ۔  غرض جسمانی مشقت اتنی ہو جاتی تھی کہ سب کھایا پیا ہضم و جزو بدن بن جاتا تھا   اور ہاں کھانے پینے کے سادہ ہوٹلوں یا چائے خانوں کے علاوہ بیکری یا بیکری آئٹمز کا وجود کیا تصور تک نہ تھا  ۔ پیزا برگر کی تو کسی کو سوچ تک نہ آئی تھی تو ایسے میں کھانے صحت بخش اور طرز زندگی جفاکش ہوتا تھا تو بیماریاں دور رہتی تھیں ۔ وقت نے پلٹا کھایا ، دنیا گلوبل ویلج بن کر ہتھیلی میں سما گئی ۔۔۔۔ صبح سے شام تک میز کرسی ۔۔۔ اور بیکری آئٹمز، پیزا، برگر، شوارما و نت نئے ذائقے تو ہماری زندگی میں آ گئے لیکن جسمانی مشقت غائب ہو گئی یعنی پیٹ تو ہمارے بھرے رہے پر آنکھیں نہ بھریں، و ہیں  نئی نئی کھانے کی چیزیں و ذائقے رال بہاتے کھاتے رہے کھاتے رہے اور جسمانی کام محدود سے محدود ہوتے گئے اور جسمانی مشقت نہ ہونے کی وجہ سے کھانا ہضم ہو کر جزو بدن بننے کی بجائے بیماریوں کا باعث بننے لگا  ۔ کوئی بھی کھانا جسم میں جا کر توانائی پیدا کرتا ہے اور وہ توانائی ہم استعمال نہیں کرتے اور وہ جسم کے خلیوں میں جمع ہو کر ایک حد کے بعد ان خلیوں اور جسمانی ساخت کی تباہی و بیماریوں کا باعث بنتی ہے ۔  سیانوں نے جسمانی مشقت کے لئے جم بنا لئے لیکن جم اور پارک کا رخ عام طور پر بیمار ہونے کے بعد ہی لوگ کرتے ہیں ۔  ایسے میں صحت مند رہنے کے لئے اور بیماریوں سے ہونے والی تکالیف سے بچنے کے لئے اپنے طرز زندگی life style اور کھانے پینے کی عادات کو بدلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خوراک چھوٹے چھوٹے حصوں portions میں جسم کی ضرورت کے مطابق لینی چاہئے۔ انٹرنیٹ تک اکثریت کی رسائی ہے ہر کوئی اپنی صحت و جسمانی ضروریات کے مطابق اپنی خوراک کا تعین کر سکتا ہے کہ نشاستہ، پروٹین، چکنائی، ریشے دار غذائیں وغیرہ کس تناسب میں کھانی چاہیئں یا پھر ہر اسپتال میں آج کل ماہر غذائیت Nutritionist موجود ہیں ان کے مشورے سے اپنی خوراک کا تعین کرنا چاہیئے اور جتنا ممکن ہو سکے ورزش کے لئے وقت نکالنا چاہیئے۔ میں وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے ہاتھوں سے جو ورزش کر سکتا ہوں وہ کرتا ہوں۔ میری چونکہ حرکت movement نہیں ہے تو میں نشاستہ carbohydrates و چکنائی fats سے پرہیز کرتا ہوں اس لئے چاول، میدہ سے بنی تمام چیزیں، بیکری آئٹمز، مٹھائی، کولڈ ڈرنکس، دال چنا، دال ماش وغیرہ تلی ہوئی fry چیزیں نہیں کھاتا۔ روٹی بھی دن بھر میں ایک چھوٹے سائز کی کھاتا ہوں جو مختلف اناج Multi grain مکس کر کے بنائے گئے آٹے سے بنی ہوتی ہے۔ صبح اسٹیم سبزیاں، ابلے انڈے، پھیکی چائے۔ دوپہر میں ملٹی گرین    آٹے کی چھوٹی روٹی سالن کے ساتھ اور شام میں سو گرام چکن سبزیوں کے ساتھ، اور درمیان میں بھوک لگے تو بھنے کالے چنے۔ الحمدللہ اس روٹین سے میری بڑھی ہوئی شوگر و ہائی بلڈ پریشر اعتدال پر آ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ کریم سے دعا ہے کہ سب کو صحت و سلامتی و سکون کے ساتھ خوشیوں اور خوشحالی والی کامیاب و بابرکت عمر خضر عطاء فرمائے اور سب کو کائنات کی تعمیر و ترقی میں تعمیری کردار ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور کائنات کی خوشیاں و خوشحالی ہم سب کا مقدر کر دے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply