• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • احساسِ کمتری سے احساسِ برتری تک (کم ظرف حارث رؤف کے نام)۔۔محمد وقاص رشید

احساسِ کمتری سے احساسِ برتری تک (کم ظرف حارث رؤف کے نام)۔۔محمد وقاص رشید

طالبِ علم کو ایک چیز کا قلق ہی رہا زندگی بھر کہ۔۔۔۔
اے کاش کبھی انساں سوچے
کہ انسانیت کی شان ہے کیا
کیا رب کے خلیفہ کا عہدہ
اور اسکی یہاں پہچان ہے کیا
جنات و فرشتوں کا مسجود
یہ حال اسکے شایان ہے کیا
گر باطن ساتھ نہیں اس کے
پھر ظاہر کا ایمان ہے کیا
اس پستی اور گراوٹ سے
اس رفعت کا امکان ہے کیا
اے کاش کبھی اک لمحے کو
انساں سوچے انسان ہے کیا؟

ہمارے اندر سے انسان بننے کی وہ تڑپ وہ جستجو وہ آرزو ہی جاتی رہی ہے۔۔۔ زندگی گزر گئی اس بات پر کفِ افسوس ملتے کہ کاش یہاں انسانیت کا راج ہو ۔ اختیار شہرت عزت مرتبہ اور دولت ملنے پر لوگ اس ڈالی کی مانند ہو جائیں جو پھل لگنے پر جھک جاتی ہے۔۔۔ مگر افسوس کہ یہاں حارث رؤف جیسے نو دولتیے اور کم ظرف ہی ملتے رہے۔

اس مضمون کے لیے فی البدیہہ یہ نظم لکھتے ہوئے وہ منظر میری آنکھوں میں چبھ رہا ہے جب کل پی ایس ایل کے میچ میں ایک وڈیرے ، جاگیر دار ایک اثرو رسوخ رکھنے والے تکبر اور احساسِ برتری سے اٹے ہوئے شخص نے (میں اسے کھلاڑی اس لیے نہیں لکھ رہا کہ وہ کھیل کی توہین ہے) نے کیچ چھوڑنے پر ایک کھلاڑی کامران غلام کو اس وقت تھپڑ مار دیا جب وہ وکٹ لینے پر اسے مبارکباد دینے کے لیے آیا۔

آپ یقین کیجیے یہ منظر دیکھ کر تاسف سے میرا جسم  بلکہ روح تک بھر گئی۔  کرکٹ دیکھتے ہوئے کوئی 30 برس ہو چلے ہم کیونکہ معاشرتی طور پر ہر منافقت میں لتھڑے ہوئے ہیں اس لیے فاسٹ بولرز اپنی بالنگ میں محنت کے مطابق فیلڈنگ کا اس درجے کا تعاون نہ ملنے پر سیخ پا ہوتے ہیں۔۔۔ اگر وہ کپتان یا سپر سٹار ہوں اور فیلڈنگ میں کوتاہی برتنے والا کوئی ہیوی ویٹ نہ ہو تو وہ غصہ نکالتے پائے جاتے ہیں اور اگر سامنے بھی کوئی “وڈیرا” ہو تو انکا ردعمل تبدیل شدہ ٹی وی کیمروں پر دیکھنا کوئی بڑی بات نہیں۔

یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی موٹر سائیکل پر جا رہا ہو اور اسکا راستہ کوئی سائیکل والا کاٹ جائے تو وہ گالی دے گا شدید رد عمل دکھائے گا۔۔ لیکن اگر اسکا راستہ کوئی اچھے لباس میں اس سے اچھی موٹر سائیکل یا گاڑی میں کاٹ جائے گا تو وہ سر کو جنبش بھی یہ دیکھ کر دیتا ہے کہ کہیں سامنے والے کو یہ بھی ناگوار نہ گزرے۔

حارث رؤف نے یہ ثابت کیا کہ قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی تو کجا وہ اس لائق بھی نہیں کہ اس سپورٹس مین سپرٹ کے حسن سے لبریز کھیل کی کسی نچلے درجے پر بھی نمائندگی کرتا پایا جائے۔  میں حارث رؤف کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کرکٹ بورڈ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس متکبر و کم ظرف کھلاڑی پر پابندی لگائی جائے۔  کپتان شاہین شاہ آفریدی اور محمد حفیظ کا رویہ بھی اسکی طرف خوش آمدانہ تھا جو افسوسناک ہے۔

میں کامران غلام کے رویے پر بھی احتجاج کرتا ہوں اور اس پر بھی افسوس کا اظہار کرتا ہوں کیونکہ پچھلی تحریر میں بھی لکھا تھا کہ دنیا کے دو تہائی کامران غلام جس احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں انہیں وہ باقی ماندہ ایک تہائی حارث رؤف ہی دیا کرتے ہیں۔

کامران غلام کے خوش آمدانہ رویے کو لکھا جا رہا ہے کہ اس نے تھپڑ کھا کر دوبارہ آگے بڑھ کر ہنستے ہوئے اسے مبارکباد دی تو یہ اسکا بڑا پن ہے ۔ معذرت چاہتا ہوں یہ کوئی عظمت اور بڑا پن نہیں۔۔۔ کسی کی زیادتی پر اسکے احساسِ برتری کو مزید جھک کر بڑھاوا دینا ظلم کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوا کہ آپ خود کو حارث رؤف سے اتنا کمتر سمجھتے ہیں کہ اس گھٹیا ترین کم ظرفی پر محض سنجیدہ ہو کر پیچھے ہٹ کر بھی اسے احتجاج کا پیغام دینے سے قاصر ہیں۔۔جوابی تھپڑ مارنے کے لیے ضروری نہیں ہاتھ کا استعمال کیا جانے ۔ عزتِ نفس سے بھرپور سنجیدہ اور پروقار ردعمل ہی تھپڑ سے بڑھکر کام کرتا ہے ٹی وی کیمروں کے سامنے۔

حارث رؤف کے اس عمل نے یہ بھی ثابت کیا کہ اس کا یہ تھپڑ پہلا نہیں ہو گا۔ کامران غلام صاحب اسے آپ آخری بنا سکتے تھے۔ احساسِ برتری کا شکار لوگوں کے اس مرض میں ہمارا احساسِ کمتری بھی ایک محرک ثابت ہوتا ہے ۔کامران غلام پیارے آپ ایک دفعہ اپنے اندر سے اس احساسِ کمتری کو نکال کر دیکھیں اور خود کو 11 کی ٹیم میں برابر کا کھلاڑی سمجھ کر دیکھیں۔۔۔آپ تھپڑ کھانے والے تاثر کی فہرست سے نکل جائیں گے۔ آپ ایک مختلف کھلاڑی اور انسان ہونگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وگرنہ کیچ تو چھوٹتے ہی رہتے ہیں۔  حسن علی نے کیچ چھوڑا تو پوری قوم کا دل ٹوٹا لیکن شعیب ملک نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے جا کر روتے ہوئے حسن علی کو حوصلہ دیا۔
میں کرکٹ بورڈ کے چئیرمین رمیز راجہ صاحب سے ایک پاکستانی کرکٹ شائق اور قانون و انصاف پسند شہری ہونے کے ناطے نا صرف حارث رؤف کو سزا دینے کی اپیل کرتا ہوں بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ مطالبہ کرتا کہ اس افسوسناک واقعہ کو بنیاد بنا کر کرکٹ میں سے یہ وڈیرا شاہی کلچر اور طبقاتی تقسیم ختم کی جائے اور مساوات کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنایا جائے تاکہ ایک طرف حارث رؤف کیچ چھوٹنے پر کامران غلام کو تو تھپڑ مارے اور دوسری طرف وہی حارث رؤف شاہد آفریدی کو کلین بولڈ کر کے انکے سامنے ہاتھ جوڑ کر کچے ذہنوں سے داد پائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply